حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے دوست مہر شہباز ترگڑ نے یاد دلایا کہ متحدہ ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران 1947ء میں مخدوم سجاد حسین قریشی (مرحوم) جیل گئے تھے۔ خیر اب 75برس بعد ہمارے مخدوم شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کے پہلے دن لاہور میں گرفتاری دے کر جیل چلے گئے ہیں ، گرفتاری سے قبل مخدوم صاحب تین بار رضاکارانہ طور پر پولیس وین میں بیٹھے تصاویر بنوائیں۔
تیسری بار وین سے اتر کر اعلان کیا ہم لوگ سی سی پی او لاہور کے دفتر جاکر گرفتاری دیں گے۔ سی سی پی او لاہور کے دفتر سے کچھ پہلے پولیس نے انہیں بتایا کہ آپ گرفتار کرلئے گئے ہیں یوں مخدوم صاحب چوتھی بار پولیس وین میں سوار ہوگئے۔ اسد عمر، اعظم سواتی، سرفراز چیمہ اور درجنوں کارکن ان کے ہمراہ گرفتار ہوئے۔
مخدوم شاہ محمود قریشی کا پولیس وین سے دیئے گئے ایک انٹرویو کا کلپ سوشل مڈیا پر وائرل ہے۔ اپنی فیس بک وال پر کلپ شیئر کیا تو ایک عزیز سوال لے کر پہنچ گئے۔ سوال تھا کہ ’’گرفتاریاں تو ایم آر ڈی کی تحریک میں بھی دی گئیں؟‘‘ ایک انصافی عزیز نے کہا کہ اس طرح کا سوال نہیں پوچھتے۔
پہلی بات یہ ہے کہ جیل بھرو تحریک پی ٹی آئی کا سیاسی جمہوری اور آئینی حق ہے۔ اس حق پر دو آراء ہرگز نہیں۔ یہ بحث الگ ہے کہ تحریک انصاف کے مقاصد کیا ہیں۔
البتہ میں اپنے برادر عزیز کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ موجودہ ٹولہ فوج کے تعاون سے برسراقتدار آیا ہے اس لئے اس کے خلاف تحریک اور گرفتاریاں جدوجہد ہیں۔ یہ پورا سچ نہیں بلکہ پورا سچ یہ ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے شوق کے ساتھ تیسری قوت بنوائی، الیکشن مینجمنٹ سے اس تیسری قوت کو 2018ء میں اقتدار میں لے آئی۔
اقتدار ملنے اور اقتدار چھن جانے کے درمیانی عرصہ میں جو کچھ ہوا ان سارے معاملات اور حالات کو باردیگر لکھنے کی ضرورت نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ قلم مزدور روز اول سے پی ڈی ایم اور اتحادیوں سے مسلسل شکوہ کررہا ہے کہ ان کی تحریک عدم اعتماد نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دیا۔
اس محفوظ راستے کی وجہ سے وہ گھنائونے جرائم دھول میں چھپ گئے جو اس سے سرزد ہوئے تھے۔
اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق کردہ اور مینجمنٹ سے اقتدار میں لائی گئی قیادت آج اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے اور پی ڈی ایم جمع اتحادیوں کی صورتحال پتلی ہے۔
ایک سے زائد بار ان سطور میں عرض کرچکا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کو تاریخ نے موقع دیا تھا اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ پائوں باندھنے اور اسے اس کی خواہشات کے ساتھ دیوار سے لگانے کا۔ یہ موقع تو گنوادیا گیا۔
یہ تقریباً ویسی ہی غلطی ہے جو ہمارے محبوب رہنما ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی تھی۔ انہوں نے کسی ’’قومی جذبہ‘‘ سے اسٹیبلشمنٹ کو پھر سے مضبوط کیا تھا اور اسی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں پھانسی چڑھ گئے۔
پی ڈی ایم اور اتحادیوں کے پاس سنہری موقع تھا دستور اور جمہور کی بالادستی منوانے کا، بہرحال انہوں نے گنوادیا۔ جہاں اپریل 2022ء سے قبل یہ کھڑے تھے آج وہاں پی ٹی آئی کھڑی ہے۔
ایک بات اور پچھلے برس اپریل سے عرض کرتا آرہا ہوں کہ عمران خان کے دور میں آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدہ کو پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے لایا جائے۔ 10ماہ بعد اب وزیراعظم کو یاد آیا کہ اس معاہدے کی تشہیر کی جانی چاہیے۔ معاف کیجئے اب بہت دیر ہوگئی حب الوطنی کی جس باسی کڑی کے ابال نے آپ کو چین نہیں لینے دیا اب اس کے نتائج بھگتیں۔
اب آتے ہیں ایم آر ڈی کی تحریک پر۔ ایم آرڈی کی تحریک بحالی جمہوریت تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے خلاف تھی۔ وہ وقت ایسا وقت تھا جب کسی عام سرکاری معاون سے بھی ایم آر ڈی کے لئے ہمدردی کی توقع عبث تھی
مقابلتاً آج ایک ادارہ بتادیجئے جس میں تحریک انصاف کے حامی موجود نہ ہوں اور وہ اپنی حدود سے آگے بڑھ کر اس کے لئے سہولتیں فراہم نہ کرتے ہوں۔
مثلاً جس عدالت کو کل تک تحریک انصاف والے ’’لوہار ہائیکورٹ‘‘ کہتے لکھتے تھے آج وہی انصاف کا مرکز ہے۔ وجہ یہی ہے کہ آج انہیں یہاں سے ’’انصاف‘‘ مل رہا ہے ۔
ایم آر ڈی کی تحریک میں پورے ملک سے لگ بھگ سوا لاکھ افراد نے گرفتاریاں دیں۔ گرفتاریاں پیش کرنے والے سیاسی کارکنوں سے بوقت گرفتاری پولیس اور خفیہ کے اہلکار جو سلوک کرتے تھے خدا کرے کہ انصافیوں کو ویسے سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ان سوا لاکھ افراد کے علاوہ جولائی 1977ء سے 1985ء کے درمیان لگ بھگ 37ہزار سیاسی کارکن مارشل لاء کے قوانین کے تحت گرفتار کئے گئے۔ تقریباً 25ہزار سیاسی کارکنوں اور دیگر کو ایک سے تین سال کی سزائیں فوجی عدالتوں نے سنائیں کوڑوں اور جرمانے کی سزائیں الگ ہیں ۔
ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران نوابشاہ اور حیدر آباد کی کئی گوٹھوں ( دیہاتوں) میں ضیاء رجیم نے ٹینک تک چلائے۔ پیپلزپارٹی کے درجنوں کارکنوں کو فوجی عدالتوں نے سزائے موت سنائی۔ متعدد پھانسی چڑھے اور باقی ماندہ لوگ 1988ء کے بعد رہا ہوئے۔
اس مارشل لائی دور میں کراچی کا کورنگی کریک کیمپ، لاہور کا شاہی قلعہ، وارث روڈ پر خفیہ ایجنسی کا تحقیقاتی مرکز جسے عام زبان میں لال قلعہ کہتے تھے۔ سی آئی اے سٹاف چونا منڈی کے علاوہ اٹک کا قلعہ اور پشاور میں قلعہ بالاحصار سیاسی قیدیوں کی ’’تعلیم و تربیت‘‘ کے بھیانک مراکز بن گئے۔
یہ تھی ایم آر ڈی کی تحریک جب تین یا پانچ سیاسی کارکن گرفتاری دینے نکلتے تھے، سینکڑوں پولیس والے اور درجنوں رینجرز و فوجی اہلکار ان پر ٹوٹ پڑتے۔
ایم آر ڈی کی تحریک بحالی جمہوریت اس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی تحریک تھی اس تحریک میں گرفتاریوں کے حساب سے سندھ پہلے نمبر پر، پنجاب دوسرے، خیبر پختونخوا تیسرے اور بلوچستان چوتھے نمبر پر رہا۔ تحریک بحالی جمہوریت میں گرفتار ہوئے سیاسی کارکنوں کو جس وحشت و بربریت کا سامنا کرنا پڑا خدا نہ کرے کہ پاکستان کے سیاسی کارکنوں کو دوبارہ کبھی ویسے حالات سے دوچار ہونا پڑے۔
یہ وہ بدنام زمانہ دور تھا جب صالحین نے پولیس اور فوج کے لئے باقاعدہ مخبری کا فرض ادا کیا اور فوجی عدالتوں میں سرکاری گواہ کے طور پر گواہیاں دیں ۔
تحریک بحالی جمہوریت یقیناً کامیاب نہ ہوسکی اس کی وجہ یہ تھی کہ ان برسوں کی فوجی حکومت امریکہ اور مغرب کی ڈارلنگ تھی۔ یہ منصب نام نہاد افغان جہاد کی وجہ سے ملا تھا پاکستانی ریاست اس وقت سوویت امریکہ جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بنادی گئی تھی
لیکن اس تحریک نے جنرل ضیاء الحق کے جبروستم کے قلعہ میں شگاف ضرور ڈال دیا۔ اسی شگاف کی وجہ سے جنرل ضیاء کو 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کرانے پڑے۔
ایم آر ڈی نے ان غیرجماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ مجھ طالب علم کی رائے میں بائیکاٹ کا فیصلہ غلط تھا۔ اس بائیکاٹ کی وجہ سے سیاسی کارکنوں کی جگہ نالی موری کے ٹھیکیدار عوامی چہرے بن کر آگئے۔
1988ء میں لُولی لنگڑی جمہوریت بحال ہوئی تو اس پر یہی نالی موری کے ٹھیکیدار قابض ہوگئے۔ ضروری نہیں کہ آپ مجھ سے اتفاق کریں مگر میری رائے یہی ہے کہ اس ملک میں طبقاتی جمہوریت کو ہی جمہوریت سمجھا گیا اسی کوکھ سے اس طبقاتی نظام اور بالادستی نے جنم لیا جس نے ہماری نصف سے پون صدی کھوٹی کردی۔
تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کیا کسی جمہوری نظام کے لئے ہے یا پھر طبقاتی نظام میں سے اپنے حصے کی محرومی کا ردعمل؟
یقیناً اس پر مختلف آراء ہیں۔ پی ٹی آئی والوں کے نزدیک ان کے قائد کے بقول یہ جہاد ہے چوروں کے خلاف۔ کم از کم مجھے اس بات سے اختلاف ہے۔
چور چور کا شور مچانے والوں کے اپنے دامن داغوں سے بھرے ہیں۔ لگ بھگ 36 ماہ سابق خاتون اول کی بہن نے اپنی دبئی کی ملازمت کے ساتھ پاکستانی ملازمت کی تنخواہ دبئی میں بیٹھ کر ہی وصول کی۔
سادہ سی بات ہے کرپشن، اقربا پروری اور دوسرے گھٹالوں سے تو عمران خان ان کی اہلیہ اور خاندان کے دامن بھی صاف نہیں دوستوں اور وزرا کی داستانیں الگ ہیں اسی لئے مجھے یہ اسٹیبلشمنٹ اور دوسرے اداروں میں بیٹھے عمران خان کے حامیوں کی جنگ لگتی ہے۔
پچھلے ایک برس سے عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو زبان استعمال کی یہی زبان کسی پشتون، بلوچ، سندھی اور سرائیکی اور اردو بولنے والے سیاستدان نے برتی ہوتی تو اس کا حشر الطاف حسین اور علی وزیر جیسا ہوتا۔
یہ بھی عرض کردوں پنجاب میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت گیر موقف ابتداً (ن) لیگ کے کارکنوں نے اپنایا۔ اس وقت پی ٹی آئی والے اسے غداری قرار دیتے تھے۔ آج پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بظاہر پوائنٹ آف نو ریٹرن پر کھڑی ہے۔ اسے غداری قرار دینے والوں سے بطور طالب علم اتفاق نہیں کرپارہا۔
حرف آخر یہ ہے کہ تحریک انصاف کو بہرحال ایک کریڈٹ جاتا ہے وہ یہ کہ اس نے سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کردیا۔ سربراہ سے عام ہمدرد تک بدزبانی کو اپنی سیاست کی معراج کے طور پر پیش کرتا ہے۔
خیر ہے سیاسی عمل میں رہے تو یہ بھی سیکھ جائیں گے تحمل و برداشت اور مکالمے کی اہمیت کو سمجھ لیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر