اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریت سمادھی، انور سن رائے اور اماں کا ”عضو تناسل“||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

گیتانجلی کا دوسرا کمال ایسی زبان لکھنا ہے جس میں عموماً اردو یا ہندی ناول نہیں لکھے جاتے۔ بھاری بھرکم تشبیہات اور استعارات سے لدے پھندے فقرے، یا دوسرے الفاظ میں فکشن کی زبان، وہ اس سے دور رہی ہیں۔ ناول پڑھتے وقت ہر صورت حال پہ محسوس ہوتا ہے کہ ایسا تو ہمارے ارد گرد ہوتا ہے، ہر جگہ، ہر وقت، ہر کوئی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاہاہا، ہمارے قہقہے تھے کہ بچوں کو ڈراتے تھے، برگد سے کووں کو اڑاتے تھے اور کچھ لوگوں کے ماتھے پہ شکنیں گہری کرتے تھے۔

افف، گیتانجلی شری۔ کیا لکھ دیا ظالم؟ عورت کی پبتا، یعنی کہ ہمارا پسندیدہ موضوع اور وہ بھی اماں کی زبانی۔

” باہر آ کر اماں نے بتایا، کچھ موٹا ہے، دبانے، زور لگانے سے باہر نکلتا ہے پھر اندر چلا جاتا ہے۔ چھو کر دیکھا ہے۔ جسم کا ہی حصہ ہے۔ ایسا۔ ماں نے ہوا میں ایک شکل بنائی جیسے ربر میں پانی بھر کے پھنسا دیا ہو۔ چمکدار ہے۔ سوجتا ہے، اتنا بڑا“

سوچیے اگر یہ آپ کی اماں ہوں، اسی برس عمر ہو اور ایک دن ٹوائلٹ سے نکل کر یہ رام کتھا انہی الفاظ میں ایسے ہی سنائیں تو سر گھومے گا نا آپ کا ۔ عجیب ہونق محسوس کریں گے خود کو ، سمجھ کچھ آئے گا نہیں کہ بیٹھے بٹھائے اسی برس کی اماں کو کیا نکل آیا؟ اور کہاں پہ؟

نہ نام؟ نہ جگہ؟
کیا منہ میں؟
کان؟ ناک؟

خیر ہمیں تو بات سمجھ میں آ گئی لیکن ہنسی اس لئے آئی کہ عمر رسیدہ عورتیں گرتی پڑتی جب ہسپتال پہنچتی ہیں تو اسی طرح ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنی تکلیف بیان کرنے کی کوشش میں بے حال۔ قریب کھڑی بیٹی پوتی بہو بیٹا شرمندہ، نظریں چراتے ہوئے کبھی ادھر دیکھیں کبھی ادھر، کبھی گھوریں چھت اور کبھی کھڑکی سے باہر۔ اماں کی شرم گاہ سارے گھر کی شرم کا باعث۔ ہمیں لگا کہ یہ ناول کا ایک باب نہیں ہسپتال کی او پی ڈی ہے۔

سوچا جائے تو ہنسنے کی بجائے یہ رونا چاہیے کہ عورت کو عمر بھر زندگی کے کسی حصے میں بھی دو گز زمین اپنی میسر نہیں آتی۔ اور باتیں چھوڑیں اپنے ہی جسم کے ساتھ اسی برس تک رہنے والی خدا کی بندی کا یہ حال کہ نہ صرف اپنے جسم سے خود شرمائے بلکہ تکلیف کی صورت میں اس کے پاس ایسے الفاظ تک نہیں جو ڈاکٹر کو بتا سکیں کہ آخر ہوا کیا؟

بے بس، سوچ میں ڈوبی بے چاری کہ کیا کہے؟ کیسے کہے؟ کس کو کہے؟ کس کو دکھائے؟ ہسپتال جائے کہ نہ جائے؟ لوگ کیا کہیں گے؟ اس عمر میں اماں کو پوشیدہ امراض۔ توبہ توبہ۔

” دکھائیے، بیٹی نے کہا۔
ہٹو پاگل نہ بنو، ماں بولی۔
ارے چھو کر دیکھنے دیں؟
جس پر ماں نے کہا، کبھی نہیں۔
ہسپتال چلتے ہیں۔
نہیں کچھ دن اور دیکھ لیں۔
کوئی سنبھال کے رکھنے والی چیز ہے، جو رکیں؟ بیٹی نے مذاق کیا۔
ماں شرماتی ہنسیں۔
کے کے نے کہا، گروتھ از گروتھ، فوراً اپوائنٹ منٹ لو ”

انتہائی پڑھا لکھا گھرانا مگر عورت کے جسم سے مکمل بے خبری۔ حیران نہ ہوں، ایسا ہی تو ہوتا ہے، عورت کی سب تکالیف گھر گرہستی میں گم بلکہ دفن۔ شاید ذات ہی غائب، تبھی تو سمادھی بنتی ہے۔

”ڈاکٹر نے بتایا، اٹ از سسٹ۔ اباؤٹ ٹو انچ لانگ۔
ششش۔ ماں پھسپھسائی، یہ کیا بڑھاپے میں میرا عضو تناسل نکل رہا ہے؟

سب ارد گرد کھڑے تھے۔ سب آنکھ ملنے سے گریزاں، اماں کے انتہائی نازک عضو یعنی شرم گاہ پہ نکل آنے والے عضو تناسل کے حوالے سے گہری تشویش میں مبتلا ”

بہت مزا آیا یہ پڑھ کر کہ ڈاکٹر نے بتا تو دیا، سسٹ ہے۔ مگر کوئی نہیں جانتا سسٹ کے بارے میں سو بے چاری اماں دو انچ لونگ کا ایک ہی مطلب نکال سکیں کہ عضو تناسل نکل رہا ہے۔

اماں کے ایسا سمجھنے کے پیچھے بھی ایک وجہ ہے۔ اماں کی بہترین سہیلی، نوعمری کی ساتھی بچپن میں روزی تھی۔ بڑی ہوئی تو علم ہوا کہ روزی تو رضا ہے۔ بس پھر کبھی روزی تو کبھی رضا۔ روزی رضا کی کہانی نے اماں کے لاشعور کو سمجھا دیا کہ ایسا ہونا انہونی نہیں۔ ناممکن ممکن، کبھی بھی، کہیں بھی۔

اماں بضد کہ روزی کو فوراً بلایا جائے۔ بیٹی کا کہنا ہے کہ روزی بھلا کوئی ڈاکٹر ہے؟ کیا کرے گی آ کر؟ جڑی بوٹیوں کا لیپ بنا کر لگا دے گی فورا۔ لیکن اماں کا اصرار کہ ایک بار، روزی آ کر دیکھے تو سہی۔ اس کے ساتھ بھی تو یہی کچھ ہوا۔ یہ مسئلہ وہی سمجھے جو اس عمل سے گزرے ہو کہ کیا واقعی یہ وہی؟

” تب ماں نے اپنے جسم میں نئے اضافے کا نام کرن رکھ دیا، پھوڑا۔ جو اندر ہی اندر اگ آیا تھا، ہر لچکے جھٹکے پر پھسل کر باہر آتا لگتا۔ خوش مزاج لنگم۔ جس کو پھوڑنے کا وقت ڈاکٹروں نے بتایا تھا، آتے ہفتے۔ تب تک اسے دنیا کو کبھی کبھار چپکے سے جھانکنا تھا یا پھر واپس اپنے غار میں سوتے رہنا تھا“

یہاں قارئین کی آنکھ سے یہ نہیں چوک سکتا کہ زندگی کی نمو رکھنے والے اعضا کے لئے اردو زبان یا تو سنسکرت کی محتاج ہے، یا عربی اور پھر انگلش کی۔

مقامی زبانوں میں متبادل حروف موجود ہیں مگر ان حروف کو جنسی تصور کے ساتھ اس قدر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ روزمرہ کی بول چال میں مہذب حالات میں الفاظ کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ گالی گلوچ کا کاروبار خوب چلتا ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ شرم گاہ سے جڑی جنسی شرم اس قدر ہیبت رکھتی ہے کہ ایک اسی برس کی بڑھیا کا اپنی شرم گاہ کا ذکر بھی اہل خانہ کو شرمندگی میں مبتلا کرتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح کرتے چلیں کہ حروف کا مجموعہ یا الفاظ اپنی ماہیت میں کچھ بھی نہیں مگر صدیوں سے ان الفاظ کو بھری بندوق بنا کر ایسا وزن لاد دیا گیا ہے کہ اسے اصل روپ دینا مردے کو زندہ کرنے کے مترادف ہے۔

گائنی فیمینزم کی ہماری اصطلاح اس بوجھ کو ہلکا کرنے کی ایسی کوشش ہے جس کے زیر اثر عورت اپنے پوشیدہ اعضا میں تکلیف کا ذکر بنا کسی ہچکچاہٹ اسی اعتماد سے کرے جیسے کسی بھی اور عضو کی تکلیف بتائی جاتی ہے۔

گیتانجلی شری نے ہندی زبان میں ناول لکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اپنی زبان کی اہمیت کیا ہے؟ زبان ہی تو ہے پہچان۔ بات کر کے خود کو منواؤ بھی اور اپنے اصل سے دور بھی نہ ہو۔ بدیسی زبان میں بات کرنے کے باوجود رہیں گے تو دیسی ہی۔ گزرے آقاؤں کی زبان سیکھنے میں کوئی حرج نہیں مگر اپنی زمین سے جڑنے کا طریقہ تو اپنی بولی ہی ہے۔

گیتانجلی کا دوسرا کمال ایسی زبان لکھنا ہے جس میں عموماً اردو یا ہندی ناول نہیں لکھے جاتے۔ بھاری بھرکم تشبیہات اور استعارات سے لدے پھندے فقرے، یا دوسرے الفاظ میں فکشن کی زبان، وہ اس سے دور رہی ہیں۔ ناول پڑھتے وقت ہر صورت حال پہ محسوس ہوتا ہے کہ ایسا تو ہمارے ارد گرد ہوتا ہے، ہر جگہ، ہر وقت، ہر کوئی۔

ریت سمادھی کا ہر صفحہ جہان تحیر ہے، گدگداتا، ہنساتا، رلاتا، سجھاتا، مناتا، منواتا۔
انور سن رائے کا شکریہ جنہوں نے گیتانجلی شری کے اس شاہکار سے ہمیں متعارف کروایا۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: