نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پولیس گردی کا شکار۔۔ کامریڈ رئوف لُنڈ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقیر راحموں کہتا ہے کہ اگر راجن پور ضلع کی پولیس کامریڈ رئوف لُنڈ کی گرفتاری سے قبل مجھ سے مشورہ کرتی تو میں انہیں بتاسکتا تھا کہ کامریڈ کے پاس سے کیمیائی ہتھیاروں سے بھی زیادہ خطرناک اسلحہ برآمد کیا جاسکتا ہے۔ وہ کیا، دریافت کرنے پر جواب ملا، یار شاہ، اس کامریڈ کے دماغ میں انقلاب اور عوام دوستی کے تابکاری ذخائر ہیں۔

اس کے گھر میں ایسی ایسی بلکہ ایسی ویسی کتابیں ہیں جنہیں پڑھ کر بندہ ’’گمراہ‘‘ ہوجاتا ہے اور خود کامریڈ ہر وقت کہتا رہتا ہے جو لوگ اپنے حال کو بہتر بنانے اور آئندہ نسلوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے آواز بلند نہیں کرتے وہ گونگے بہرے ہیں۔ گونگے بہروں کا ہجوم غلاموں کی تعداد میں تو اضافہ کرسکتا ہے انسانوں کی نہیں۔

اب بتائو بھلا یہ کوئی کرنے کی باتیں ہیں۔ اللہ سائیں نے جس کو جہاں پیدا کیا کچھ سوچ کر ہی کیا ہوگا۔ مختلف طبقات میں پیدا ہوئے لوگوں کو طبقاتی زنجیریں توڑنے اور بالادستوں کے تاج اچھالنے کی پٹیاں پڑھانا تو ’’امر ربی‘‘ میں کھلی مداخلت ہے۔

’’امر ربی‘‘ میں مداخلت کا پرچہ دیا ہوتا تو یہ جو دو تین دن سے راجن پور سرائیکی وسیب اور سوشل و پرنٹ میڈیا پر کامریڈ رئوف لُنڈ کی گرفتاری کے خلاف شورشرابا جاری ہے یہ بالکل نہ ہوتا۔

فقیر راحموں تو یہ بھی کہتا ہے کہ تھانیدار کو سمجھ ہوتی تو

” داس کیپٹل ” نامی کتاب رکھنے کے جرم میں اندر کردیتا۔

یہ کیا کہ ’’ہم نے مخبری پر مسعود لُنڈ کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مارا۔ پھر ایک کمرے سے مسعود لُنڈ نے ایک عدد راکٹ لانچر اور اس کے 2گولے بمعہ فیوزوں کے برآمد کروادیئے چونکہ اس کمرے میں رئوف لُنڈ بھی سویا ہوا تھا اس لئے ملزم کے طور پر اسے بھی جگاکر دھرلیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس نے جو راکٹ لانچر اور دو گولے برآمد کیئے ان دونوں گولوں نے اور راکٹ لانچر سمیت سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔ راکٹ لانچر اور دو گولوں کا سفید لباس زیب تن کرنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ سرائیکی وسیب والے کتنے سیدھے سادھے لوگ ہیں۔

اب جو تھانہ ہڑند ضلع راجن پور میں 7اے ٹی آر سمیت دیگر دفعات پر مبنی دہشت گردی کا پرچہ درج ہوا ہے اس میں راکٹ لانچر اور 2گولوں کے کپڑے پہن کر الماری میں چھپنے کی کوئی دفعہ شامل نہیں یہ بہت بڑا ’’مسٹیک‘‘ ہوگیا۔

ویسے وہ سفید کپڑے گل احمد کی کاٹن لان کے تھے راجہ کے سفید لٹھے کے یا سفید سٹیپل کے ؟

فقیر راحموں نے پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ پولیس ابھی چھان بین کررہی ہو کہ یہ سفید سٹیپل مقامی برانڈ تھی یا غیرملکی؟

کامریڈ رئوف لُنڈ مقدمہ نمبر 13/23 تھانہ ہڑند ضلع راجن پور میں ہمراہی ملزم کے طور پر نامزد ہے۔ یہ بھی "مسٹیک” ہی ہے اور ہے بھی بہت بڑی ۔ ایک "عالمی شہرت یافتہ دہشت گرد” کو ہمراہی ملزم لکھ کر پولیس نے اپنا مقدمہ ہی خراب کر لیا ہے ۔

اس سے تو اچھا تھا کہ بازار سے پانچ سات ممنوعہ کتابیں خرید کر کامریڈ پر ڈالتے اور پرچہ دے دیتے۔ تمہید طویل ہوگئی۔ میں کامریڈ رئوف لُنڈ کا تعارف کروادیتا ہوں۔

ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور کی بار ایسوسی ایشن کا یہ سابق صدر اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی کچھ اتھرا، کچھ باغی اور کچھ پڑھاکو ہے میری رائے میں ایک جے آئی ٹی بننی چاہیے جو تفتیش کرے کہ اسے اتھرا، باغی اور پڑھاکو بنانے میں خون کا عمل دخل ہے۔ سنگت کا یا اس نے ارادتاً یہ تینوں شوق اپنائے۔

یہ چونکہ ایک پیچیدہ کیس ہے ہماری دیسی پولیس اور دیسی خفیہ ایجنسیاں اتنی قابل وابل نہیں اس لئے بہتر ہوگا کہ جے آئی ٹی میں سی آئی اے، ایف بی آئی اور کے جی بی کے تربیت یافتہ ایجنٹوں کو شامل کیا جائے۔

وہ پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں انہوں نے اگر تفتیش میں تعاون کی حامی بھرلی تو دیکھ لیجئے گا جلد ہی پولیس ایک بغاوت کی منصوبہ بندی کا سراغ لگالے گی۔ ایک ایسی بغاوت کا جو اگر کامیاب ہوجاتی تو زیردستوں نے بالادستوں کے تخت و تاج اور سرداریاں اچھال دینی تھیں۔

آپ کامریڈ رئوف لُنڈ کے ہمراہی ملزم کی چالاکی دیکھیں کہ اس نے راکٹ لانچر اور دو عدد گولوں کو سفید کپڑے پہنارکھے تھے۔ یہ سیدھا سیدھا پولیس کو احمق بنانے کا انقلابی طریقہ واردات تھا۔

کامریڈ رئوف لُنڈ زمانہ طالب علمی سے ہی اپنے ہمعصروں میں باغیانیہ خیالات کے بیج بوتا آرہا ہے۔ کتابیں پڑھتا ہے، محفلیں جماتا ہے ان محفلوں میں جدوجہد، تبدیلی، مساوات اور انقلاب کی باتیں کرتا ہے۔ غضب خدا کا یہ بھی کہتا ہے کہ یہ اونچ نیچ، طبقات اور استحصالی نظام جب تک ان سے نجات حاصل نہیں کرلی جاتی اس وقت تک ایک مثالی انسانی سماج کا قیام ممکن نہیں۔

آدمیوں کے جنگل کی جگہ انسانی سماج بنانے کے شعور کے بیج بونے والا کامریڈ رئوف لُنڈ جنگلی حیاتیات کا منحرف ہے۔ دیکھیں نہ اگر آدمیوں کا جنگل ختم ہوگیا تو بڑے طبقات کو اپنی عیاشیوں کا چولہا جلانے کے لئے بالن کہاں سے ملے گا۔ بالن نہ ملا تو چولہے نہیں جلیں گے۔ ایسا ہوا تو بالادست طبقات تو بھوکے مرجائیں گے۔

بڑا ہی نکما تھانیدار ہے جو اتنی سادی باتیں نہیں سمجھ پایا۔ اسی لئے تو بالائی سطور میں عرض کیا ہے کہ جے آئی ٹی بنائی جائے اور اس کے لئے سی آئی اے، ایف بی آئی اور کے جی بی کی خدمات لی جائیں ان بڑی ایجنسیوں کو اس طرح کے کیس حل کرنے کے "بہت تجربے” ہیں۔ ہماری پولیس کا تجربہ اور حال کسے نہیں معلوم۔

گو کپڑوں میں خود کو چھپائے راکٹ لانچر اور دو گولوں کی برآمدگی تاریخ ساز کارنامہ ہے۔ اسلحہ اس طرح کبھی برآمد نہیں کیا گیا ہوگا۔ وہ تو شکر ہے کہ پولیس نے راکٹ لانچر اور 2گولیوں کو کپڑوں سمیت دھرلیا برقعہ ورقعہ پہن کر نکل نکلا گئے ہوتے قبلہ راکٹ لانچر اور گولے تو یہاں اب تک نجانے کیا سے کیا ہوجاتا۔

کامریڈ رئوف لُنڈ، خود بھی قانون دان ہے تحصیل بار ایسوسی ایشن کاسابق صدر بھی ہوسکتا ہے کہ اسے معلوم ہو کہ ستر پوش اسلحہ اور برہنہ اسلحہ الگ الگ جرم کے زمرے میں آتے ہیں۔

اچھا اس بار کہیں ملاقات ہوئی تو یہ راز ضرور دریافت کریں گے۔ ویسے اس کی عمومی شہرت ایک ترقی پسند مارکسی سیاسی کارکن کی ہے۔ یاروں کا یار ہے۔ ’’گڑے کا سنگت نواز‘‘۔ روزی روٹی کے لئے مشقت سے جتنا وقت مل جائے پڑھتا رہتا ہے۔ مارکسزم تو اس نے گھوٹ کر پیا ہوا ہے۔

پتہ نہیں تھانیدار نے بعدازگرفتاری طبی معائنہ کروایا کہ نہیں کروالیتا تو ’’مارکسزم پینے‘‘ کے جرم کی ایک دو دفعات اور بھی لگ سکتی تھیں۔

رئوف لُنڈ سرائیکی وسیب کے چند صاحبان مطالعہ میں سے ایک ہے یہ بھی سنگین بلکہ قابل دست اندازی پولیس جرم ہی ہے۔ غلامی میں جی جان سے نسل در نسل خوش باش لوگوں میں آزادی حرمت، مساوات اور لوک راج جیسے امراض پھیلانا جرم ہی سمجھا جانا چاہیے۔

یقیناً اس کے لئے بھی کوئی نہ کوئی دفعہ ہوگی ضرور نہیں ہے تو کسی تاخیر کے بغیر گھڑ لینی چاہیے۔ فقیر راحموں اس بات سے ناخوش ہے کہ پولیس نے تھانہ ہڑند میں درج مقدمہ میں کامریڈ رئوف خان لُنڈ کو ہمراہی ملزم کے طور پر رکھا۔

اس کے خیال میں یہ تھانیدار کی سطحی سوچ کا نتیجہ ہے۔ معمولی سی بھی عقل ہوتی تو اسے پتہ ہوتا کہ کتاب راکٹ لانچر سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے اور مطالعہ گولوں سے زیادہ تباہ کن۔ خیر کامریڈ کی گرفتاری کے پس پردہ کیا ہے یہ تو وقت بتائے گا فی الوقت دو تین باتیں زبان زدعام ہیں ایک یہ کہ یہ کام پولیس نے (ن) لیگی سرداروں کے ایما پر کیا ہے وہ ضمنی الیکشن میں اس کی تقاریر اور گائوں گائوں مجلس آرائی سے خوفزدہ ہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ سکیورٹی اسٹیٹ میں سیکولر نظام کے لئے جدوجہد اور لوگوں کو اس کے لئے آمادہ کرنا یہ تو ایسا کام ہے کہ امت مسلمہ کے قلعہ میں شگاف ڈال دیا جائے۔

تیسرا ہمراہی ملزم کے طور پر گرفتار ہونا یہ خود غلط ہے۔ ویسے اس مقدمے نے پاکستانی تاریخ کے بہت سارے بودے مقدمات کی یادیں تازہ کردی ہیں۔

مجھے سال 1976ء کے وہ دن یاد آگئے جب فقیر راحموں ایک سائیکل چوری کے مقدمہ میں گرفتار ہوا تھا۔ تھانہ حرم گیٹ ملتان میں درج اس مقدمہ میں گرفتاری اور پھر رہائی ایک لمبی کہانی ہے مختصر یہ کہ ایک نیک نام مجسٹریٹ نے فقیر راحموں کے بزرگوں ( والد محترم اور خالوجان ) کو عدالت میں دیکھ کر پوچھا، قبلہ بخاری صاحب آپ کیسے تشریف لائے۔ ابا جی بولے سردار صاحب، یہ سائیکل چوری میں گرفتار نالائق میرا بیٹا ہے۔ مجسٹریٹ نے دس پندرہ منٹ کی کارروائی کے بعد فقیر راحموں کو بری کردیا لیکن اسی دوران ایک ستم ظریف مرید نے ابا حضور سے کہا، ’’پیر سائیں چھوٹے شاہ ہوریں کو سائیکل میں گھن ڈینداں نذراللہ نیاز حسینؑ انہاں کوں آکھو چوری نہ کیتا کرنڑ سیداں دے بال چوری چکاری نی کریندے‘‘۔

بہرحال کامریڈ رئوف خان لُنڈ کی دہشت گردی کے چھوٹے مقدمے میں گرفتاری شرمناک حد تک قابل مذمت ہے لیکن وہ جو کہتے ہیں نا ’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ اس مقدمہ میں پولیس نے کس کی کیسے مدد کی یہ پولیس جانے اور اللہ سائیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author