حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بتایا جارہا ہے کہ مسلح افواج اور عدلیہ کی تضحیک کے قانون میں ترمیم کے بل پر وفاقی کابینہ میں اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ اختلاف رائے کا اظہار کرنے والوں میں محترمہ شیری رحمن، نوید قمر، حنا ربانی کھر اور خواجہ سعد رفیق شامل ہیں۔
اداروں کو بدنام کرنے پر سزا کا سخت قانون تحریک انصاف کے دور حکومت میں بنایا گیا تھا اب تجویز کیا گیا ہے کہ اس قانون میں ترمیم کر کے اداروں کی تضحیک کے جرم پر5سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانے کی سزا مقرر کی جائے۔
قبل ازیں یہ سزا 2سے 3 سال رکھی گئی تھی۔
قانون سازی ملکی وقار اور عصری شعوری کی بجائے محض وفاداری کے اظہار کے لئے ہو تو اس پر ہمیشہ سوالات اٹھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں سائبر کرائم کے قانون میں ترمیم کی گئی اسی طرح تنقید کی آڑ میں تضحیک پر بھی قانون سازی ہوئی۔
ان برسوں میں ففتھ جنریشن وار کا دور دورہ تھا قانون سازی کے حق میں دلائل کا انبارلگانے والے عوام کو یہ باور کرانے میں مصروف رہے کہ اداروں کے تقدس سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اب ترمیمی بل پر وفاقی کابینہ میں غور کرتے وقت بھی یقیناً یہی سوچ کارفرمارہی ہوگی۔
تنقید توہین سے ہوتی ہوئی تضحیک میں کیوں تبدیل ہوئی اس پر غور کیا جانا ازبس ضروری ہے۔ مسلح افواج کی ملک و قوم کے لئے خدمات اور قربانیاں بلاشبہ لائق احترام ہیں لیکن اگر وزارت دفاع کے ماتحت کسی محکمے کے ذیلی شعبہ کا سربراہ انتخابی نتائج کو اللہ کی جانب سے عزت اور ذلت عطا کرنے سے تعبیر کرتے ہوئے مینجمنٹ کے ذریعے حاصل کی گئی کامیابی کو قدرت کا انعام اور دلوائی گئی شکست کو انجام قرار دینے پر مصر ہو تو اس کا ردعمل فطرتی بات ہے۔
یہ امر بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں ایک طویل عرصہ سے میڈیا وار جاری ہے۔ پرنٹ الیکٹرانک اور پھر سوشل میڈیا پر اسے کس نے منظم کیا؟ ایک عام شخص اس حوالے سے جس طرف انگلیاں اٹھاتا ہے کیا وہ اشارہ تضحیک ہے یا حقیقت کی نشاندہی؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو کسی بھی طرح کی قانون سازی کرنے والوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
یہ بات بجا طور پر درست ہے کہ تعمیری تنقید اور اختلاف رائے کا شائستہ انداز دنیا بھر میں معروف ہے۔ ہمارے ہاں تعمیری تنقید اور اختلاف رائے کی بجائے ’’تھڑدلی‘‘ کیسے مقبول ہوئی اس سوال کا جواب اس میڈیا مینجمنٹ اور نتائج سے واضح ہے جس کی وجہ سے سیاسی عمل کو گالی بناکر پیش کیا گیا۔
جمہوریت پر رکیک حملے ہوئے اور گاہے اسلامی صدارتی نظام کے شوشے چھوڑ گئے۔ یہ ساری باتیں کون اور کن مقاصد کے لئے کررہے تھے یہ امر کسی سے مخفی نہیں۔
ففتھ جنریشن وار کہاں سے منظم ہوئی یہ بھی درون سینہ راز ہرگز نہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ جب کوئی محکمہ اپنے حقیقی فرائض ادا کرنے کی بجائے بادشاہ گر بننے کی کوشش کرتا ہے تو جواب آں غزل بھی چھیڑی جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ جتنا تقدس سرکاری محکموں، عدلیہ وغیرہ کا ہے اتنا ہی تقدس ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔
ہماری دانست میں قانون سازی کی بجائے تطہیر اذہان اور تربیت سماج کی ضرورت ہے ہر خاص و عام کو انفرادی اور ادارہ جاتی حدود کو بہرصورت مدنظر رکھنا ہوگا۔
عزت و احترام اور تقدس قانون سازی کے مرہون منت نہیں یہ بنیادی طور پر اعمال و افعال کا نتیجہ ہیں۔ اس امر پر بحث نہیں کہ کسی شخص، محکمے یا ادارے کے کردار و عمل پر تنقید کرتے ہوئے تنقید اور توہین و تضحیک کے درمیان موجود باریک لکیر کو بطور خاص مدنظر رکھا جانا چاہیے مگر کیا ایک ہاتھ سے تالی بجتی ہے؟
یقیناً تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے ایک سے نہیں۔ ایک طویل عرصہ سے سنجیدہ فہم حلقے عرض گزار ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں میں سیاسی اور آئینی تنازعات پر زیرسماعت مقدمات کے دوران جج صاحبان کے ریمارکس کو خبروں کی صورت نہ دی جائے یہ ریمارکس کمرہ عدالت کی حد تک ممکن ہے کہ درست ہوں لیکن جب انہیں خبر بنایا جاتا ہے تو پھر ہر شخص اپنے شعور کے مطابق سمجھ کر تبصرہ کرتا ہے۔
اسی طرح دیگر سرکاری اداروں کا اپنے آئینی و قانونی کردار کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے بادشاہ گری کرنا، سیاسی مینجمنٹ کا شوق پالنا، سیاسی جماعتوں کی توڑپھوڑ کے ذریعے نئی جماعتیں اور اتحاد بنوانا بھی نادرست عمل ہے۔
اس نادرست عمل کو درست اور ملک کی ضرورت اور نظام کی بقا کے طور پر پیش کرنے کے لئے کروائے جانے والے پروپیگنڈے کا جواب بہرطور آئے گا۔
یہ بدقسمتی ہی ہے کہ ہمارے ہاں مسائل کی بنیاد تلاش کرنے کی بجائے نیا مسئلہ پیدا کرنے پر صلاحیتیں اور وسائل صرف ہوتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے پچھلے دور میں سائبر کرائم کا قانون بناتے وقت تینوں بڑی پارٹیاں یکساں موقف ظاہر کررہی تھیں اگلے برسوں میں جب ان جماعتوں کے کارکنوں اور ہمدردوں کے خلاف سائبر کرائم کا قانون استعمال ہوا تو انہیں احساس ہوا کہ یہ تو کالا قانون ہے۔
اسی طرح سائبر کرائم کے قانون میں تحریک انصاف کے دور میں ہوئی سخت ترامیم اور ادارہ جاتی تقدس کے قانون کا جب خود تحریک انصاف کے ہمدردوں اور متعلقہ افراد کے خلاف استعمال ہوا تو ان کے خیال میں یہ شہری آزادیوں، جمہوریت اور آزادی اظہار پر حملہ ہے۔
اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ کالا قانون اور حملہ ہر دو کے لئے قانون سازی کس نے اور کیوں کی؟
ہمارے خیال میں یہ بات درست ہے کہ قانون سازی کی بجائے اصلاح معاشرہ پر توجہ دی جائے بصورت دیگر ماضی میں جس نے جو بویا آج کاٹنے پر مجبور ہے اور جو آج بورہے ہیں وہ آنے والے برسوں میں اس کی فصل کاٹیں گے۔
مکرر اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ اگر محکمے ادارے اور عام شہری ملکی دستور کا بھی کسی اگر مگر کے بغیر احترام کریں اور قانون کو اپنے لئے موم کی ناک اور مخالف کے لئے دودھاری تلوار بنانے سے گریز کریں تو رونے دھونے اور کالے قوانین وضع کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
یہ عرض کرنا غلط نہ ہوگا کہ قانون کے ذریعے تقدس قائم ہوتا ہے نہ احترام حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تقدس و احترام کے خواہش مند شخصیات ہوں، محکمے یا ادارے، سبھی کو اپنے معاملات بہتر بنانا ہوں گے۔ یہ ممکن نہیں کہ بندوق کی طاقت یا توہین عدالت کی تلوار لٹکاکر خود جو مرضی کہہ کہلوالیا جائے اور جواب پر پیشانی پر بل پڑجائیں۔
مناسب ترین یہی ہے کہ دستور اور قانون کا احترام کیا جائے۔ سخت قوانین اور سزائیں خوف پیدا کرسکتی ہیں۔ اصلاح اور تعمیر میں معاون نہیں بن سکتیں۔
ہم امید کرتے ہیں وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کی جو جائزہ کمیٹی بنائی ہے وہ کمیٹی ڈنگ ٹپائو سوچ اور آج کے مخالفین کو رگیدنے کے جذبات سے بالاتر ہوکر جمہوری اقدار کی روشنی میں اپنی رپورٹ مرتب کرے گی۔
ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اس قانون پر عوامی سطح پر اگر مکالمہ نہیں اٹھایا جاسکتا تو بار کونسلوں اور میڈیا ہائوسز کے تعاون سے مکالمہ کرلیا جائے، ہوسکتا ہے اس مکالمے سے قانون کو بہتر بنانے میں مدد مل جائے۔
باردیگر یہ عرض کریں گے کہ ریاستیں اور نظام سخت گیر قوانین کے مرہون منت نہیں ہوتے بلکہ ایسے سخت قوانین جو انسانی سوچ پر قدغن لگاتے ہوں مسائل کو گھمبیر بنانے میں معاون بنتے ہیں۔ ایک صاف ستھرے عادلانہ نظام اور عوامی مملکت کے تقاضے یکسر مختلف ہیں۔
ایسی قانون سازی سے گریز کیا جانا چاہیے جس سے حاصل وصول کچھ نہ ہو اور دوریاں مزید بڑھنے کا خطرہ۔ امید واثق ہے کہ ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے حقیقی پسندی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ عدلیہ اور مسلح افواج کا احترام بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا دستور، قانون، شہری آزادیوں اور فرد کی عزت نفس اور سیاسی حقوق کا۔ ایک ہاتھ سے تالی بجانے کی کوشش میں صرف تماشا ہی لگ سکتا ہے۔
اداروں کو بدنام کرنے پر سزا کا سخت قانون تحریک انصاف کے دور حکومت میں بنایا گیا تھا اب تجویز کیا گیا ہے کہ اس قانون میں ترمیم کر کے اداروں کی تضحیک کے جرم پر5سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانے کی سزا مقرر کی جائے۔
قبل ازیں یہ سزا 2سے 3 سال رکھی گئی تھی۔
قانون سازی ملکی وقار اور عصری شعوری کی بجائے محض وفاداری کے اظہار کے لئے ہو تو اس پر ہمیشہ سوالات اٹھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں سائبر کرائم کے قانون میں ترمیم کی گئی اسی طرح تنقید کی آڑ میں تضحیک پر بھی قانون سازی ہوئی۔
ان برسوں میں ففتھ جنریشن وار کا دور دورہ تھا قانون سازی کے حق میں دلائل کا انبارلگانے والے عوام کو یہ باور کرانے میں مصروف رہے کہ اداروں کے تقدس سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اب ترمیمی بل پر وفاقی کابینہ میں غور کرتے وقت بھی یقیناً یہی سوچ کارفرمارہی ہوگی۔
تنقید توہین سے ہوتی ہوئی تضحیک میں کیوں تبدیل ہوئی اس پر غور کیا جانا ازبس ضروری ہے۔ مسلح افواج کی ملک و قوم کے لئے خدمات اور قربانیاں بلاشبہ لائق احترام ہیں لیکن اگر وزارت دفاع کے ماتحت کسی محکمے کے ذیلی شعبہ کا سربراہ انتخابی نتائج کو اللہ کی جانب سے عزت اور ذلت عطا کرنے سے تعبیر کرتے ہوئے مینجمنٹ کے ذریعے حاصل کی گئی کامیابی کو قدرت کا انعام اور دلوائی گئی شکست کو انجام قرار دینے پر مصر ہو تو اس کا ردعمل فطرتی بات ہے۔
یہ امر بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں ایک طویل عرصہ سے میڈیا وار جاری ہے۔ پرنٹ الیکٹرانک اور پھر سوشل میڈیا پر اسے کس نے منظم کیا؟ ایک عام شخص اس حوالے سے جس طرف انگلیاں اٹھاتا ہے کیا وہ اشارہ تضحیک ہے یا حقیقت کی نشاندہی؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو کسی بھی طرح کی قانون سازی کرنے والوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
یہ بات بجا طور پر درست ہے کہ تعمیری تنقید اور اختلاف رائے کا شائستہ انداز دنیا بھر میں معروف ہے۔ ہمارے ہاں تعمیری تنقید اور اختلاف رائے کی بجائے ’’تھڑدلی‘‘ کیسے مقبول ہوئی اس سوال کا جواب اس میڈیا مینجمنٹ اور نتائج سے واضح ہے جس کی وجہ سے سیاسی عمل کو گالی بناکر پیش کیا گیا۔
جمہوریت پر رکیک حملے ہوئے اور گاہے اسلامی صدارتی نظام کے شوشے چھوڑ گئے۔ یہ ساری باتیں کون اور کن مقاصد کے لئے کررہے تھے یہ امر کسی سے مخفی نہیں۔
ففتھ جنریشن وار کہاں سے منظم ہوئی یہ بھی درون سینہ راز ہرگز نہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ جب کوئی محکمہ اپنے حقیقی فرائض ادا کرنے کی بجائے بادشاہ گر بننے کی کوشش کرتا ہے تو جواب آں غزل بھی چھیڑی جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ جتنا تقدس سرکاری محکموں، عدلیہ وغیرہ کا ہے اتنا ہی تقدس ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔
ہماری دانست میں قانون سازی کی بجائے تطہیر اذہان اور تربیت سماج کی ضرورت ہے ہر خاص و عام کو انفرادی اور ادارہ جاتی حدود کو بہرصورت مدنظر رکھنا ہوگا۔
عزت و احترام اور تقدس قانون سازی کے مرہون منت نہیں یہ بنیادی طور پر اعمال و افعال کا نتیجہ ہیں۔ اس امر پر بحث نہیں کہ کسی شخص، محکمے یا ادارے کے کردار و عمل پر تنقید کرتے ہوئے تنقید اور توہین و تضحیک کے درمیان موجود باریک لکیر کو بطور خاص مدنظر رکھا جانا چاہیے مگر کیا ایک ہاتھ سے تالی بجتی ہے؟
یقیناً تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے ایک سے نہیں۔ ایک طویل عرصہ سے سنجیدہ فہم حلقے عرض گزار ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں میں سیاسی اور آئینی تنازعات پر زیرسماعت مقدمات کے دوران جج صاحبان کے ریمارکس کو خبروں کی صورت نہ دی جائے یہ ریمارکس کمرہ عدالت کی حد تک ممکن ہے کہ درست ہوں لیکن جب انہیں خبر بنایا جاتا ہے تو پھر ہر شخص اپنے شعور کے مطابق سمجھ کر تبصرہ کرتا ہے۔
اسی طرح دیگر سرکاری اداروں کا اپنے آئینی و قانونی کردار کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے بادشاہ گری کرنا، سیاسی مینجمنٹ کا شوق پالنا، سیاسی جماعتوں کی توڑپھوڑ کے ذریعے نئی جماعتیں اور اتحاد بنوانا بھی نادرست عمل ہے۔
اس نادرست عمل کو درست اور ملک کی ضرورت اور نظام کی بقا کے طور پر پیش کرنے کے لئے کروائے جانے والے پروپیگنڈے کا جواب بہرطور آئے گا۔
یہ بدقسمتی ہی ہے کہ ہمارے ہاں مسائل کی بنیاد تلاش کرنے کی بجائے نیا مسئلہ پیدا کرنے پر صلاحیتیں اور وسائل صرف ہوتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے پچھلے دور میں سائبر کرائم کا قانون بناتے وقت تینوں بڑی پارٹیاں یکساں موقف ظاہر کررہی تھیں اگلے برسوں میں جب ان جماعتوں کے کارکنوں اور ہمدردوں کے خلاف سائبر کرائم کا قانون استعمال ہوا تو انہیں احساس ہوا کہ یہ تو کالا قانون ہے۔
اسی طرح سائبر کرائم کے قانون میں تحریک انصاف کے دور میں ہوئی سخت ترامیم اور ادارہ جاتی تقدس کے قانون کا جب خود تحریک انصاف کے ہمدردوں اور متعلقہ افراد کے خلاف استعمال ہوا تو ان کے خیال میں یہ شہری آزادیوں، جمہوریت اور آزادی اظہار پر حملہ ہے۔
اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ کالا قانون اور حملہ ہر دو کے لئے قانون سازی کس نے اور کیوں کی؟
ہمارے خیال میں یہ بات درست ہے کہ قانون سازی کی بجائے اصلاح معاشرہ پر توجہ دی جائے بصورت دیگر ماضی میں جس نے جو بویا آج کاٹنے پر مجبور ہے اور جو آج بورہے ہیں وہ آنے والے برسوں میں اس کی فصل کاٹیں گے۔
مکرر اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ اگر محکمے ادارے اور عام شہری ملکی دستور کا بھی کسی اگر مگر کے بغیر احترام کریں اور قانون کو اپنے لئے موم کی ناک اور مخالف کے لئے دودھاری تلوار بنانے سے گریز کریں تو رونے دھونے اور کالے قوانین وضع کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
یہ عرض کرنا غلط نہ ہوگا کہ قانون کے ذریعے تقدس قائم ہوتا ہے نہ احترام حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تقدس و احترام کے خواہش مند شخصیات ہوں، محکمے یا ادارے، سبھی کو اپنے معاملات بہتر بنانا ہوں گے۔ یہ ممکن نہیں کہ بندوق کی طاقت یا توہین عدالت کی تلوار لٹکاکر خود جو مرضی کہہ کہلوالیا جائے اور جواب پر پیشانی پر بل پڑجائیں۔
مناسب ترین یہی ہے کہ دستور اور قانون کا احترام کیا جائے۔ سخت قوانین اور سزائیں خوف پیدا کرسکتی ہیں۔ اصلاح اور تعمیر میں معاون نہیں بن سکتیں۔
ہم امید کرتے ہیں وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کی جو جائزہ کمیٹی بنائی ہے وہ کمیٹی ڈنگ ٹپائو سوچ اور آج کے مخالفین کو رگیدنے کے جذبات سے بالاتر ہوکر جمہوری اقدار کی روشنی میں اپنی رپورٹ مرتب کرے گی۔
ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اس قانون پر عوامی سطح پر اگر مکالمہ نہیں اٹھایا جاسکتا تو بار کونسلوں اور میڈیا ہائوسز کے تعاون سے مکالمہ کرلیا جائے، ہوسکتا ہے اس مکالمے سے قانون کو بہتر بنانے میں مدد مل جائے۔
باردیگر یہ عرض کریں گے کہ ریاستیں اور نظام سخت گیر قوانین کے مرہون منت نہیں ہوتے بلکہ ایسے سخت قوانین جو انسانی سوچ پر قدغن لگاتے ہوں مسائل کو گھمبیر بنانے میں معاون بنتے ہیں۔ ایک صاف ستھرے عادلانہ نظام اور عوامی مملکت کے تقاضے یکسر مختلف ہیں۔
ایسی قانون سازی سے گریز کیا جانا چاہیے جس سے حاصل وصول کچھ نہ ہو اور دوریاں مزید بڑھنے کا خطرہ۔ امید واثق ہے کہ ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے حقیقی پسندی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ عدلیہ اور مسلح افواج کا احترام بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا دستور، قانون، شہری آزادیوں اور فرد کی عزت نفس اور سیاسی حقوق کا۔ ایک ہاتھ سے تالی بجانے کی کوشش میں صرف تماشا ہی لگ سکتا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ