نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سو ہی جائیں کیا داستاں بیاں کرتے کرتے ؟ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بینک دولت آف پاکستان کے سربراہ جمیل احمد کے مطابق ڈالر اور روپے کے تبادلے کی شرح میں استحکام اسی صورت میں ممکن ہے جب آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل ہو۔ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل سے ہی ڈالر اور مختلف کرنسیوں کے شرح تبادلے میں آئے بھونچال میں کمی آسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اصلاح احوال کے لئے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ آنے والے دن آج کے مقابلہ میں بہتر ہوں۔
بینک دولت پاکستان کےسربراہ کی یہ بات الارمنگ ہے کہ رواں مالی سال کے دوران شرح نمو 2فیصد تک رہے گی البتہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کرنے کے حوالے سے ان کاکہنا تھاکہ جب تک امپورٹس کا حجم کم نہیں ہوگا اسے نیچے لانا ممکن نہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں جب امپورٹس اخراجات کم کرنے کی بات کی گئی ہو۔ ماضی کی طرح موجودہ حکومت سے شاکی شہریوں کو بھی یہ حقیقت سمجھنا ہوگی کہ اصلاح احوال کی واحد صورت خودانحصاری ہے۔
یہاں حالت یہ ہے کہ صرف بیرون ملک سے چائے کی پتی منگوانے پر اربوں روپے سالانہ صرف ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان نے 80ارب روپے سے زائد مالیت کی چائے کی پتی بیرون ملک سے منگوائی۔ گزشتہ پندرہ بیس برسوں کے دوران چائے اور خوردنی تیل کی پیداوار میں مقامی ذرائع تلاش اور کام کرنے کے اعلانات بہت ہوئے مگر عملی طور پر ان پر کتنا کام ہوا یہ غالباً اعلانات کرنے والوں کو بھی معلوم نہیں۔
معاملہ صرف چائے کی پتی اور خوردنی تیل کی امپورٹ کا نہیں ضروریات زندگی کی دوسری سینکڑوں اشیاء ٹنوں کے حساب سے ہر سال بیرون ملک سے منگوائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے امپورٹ ڈالر میں ہوتی ہے۔ دالیں، چائے کی پتی، خوردنی تیل اور ضروریات زندگی کے سامان کی وہ دوسری چیزیں جو ہر سال بیرون ملک سے منگوانا پڑتی ہیں ان کی مقامی پیداوار کے منصوبے بنائے اور ان پر عمل کیاجاتا تو کچھ نہ کچھ بہتری آسکتی تھی۔
یہ امر بھی دوچند ہے کہ عالمی کساد بازاری اور مہنگائی کا جو سلسلہ سال 2020ء میں کورونا وبا کے دنوں میں شروع ہوا تھا اس میں اب تک کمی نہیں آئی۔
مستحکم معیشت والے ملکوں نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھائے جن سے شہری زندگی کم سے کم متاثر ہو۔ اس کے مقابلہ میں کمزور معیشت والے ممالک نے اصلاحات کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر اقدامات کرنے کی بجائے یہ توقع باندھی کہ دنیا ان کی امداد کرے گی گو کسی حد تک مدد ہوئی ضرور لیکن کیا مملکتیں بیرونی امدادوں اور قرضوں پر ہی چلتی ہیں یا امور مملکت سرانجام دینے والوں کی یہ ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں وضع کریں جو اولاً مشکل حالات سے نبردآزما ہونے میں معاون ہوں اور ثانیاً خودانحصاری میں معاون بنیں۔
دیکھا جائے تو دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی باوا آدم نرالا ہی ہے۔ عالمی کساد بازاری، مہنگائی اور ترسیلات زر میں در آئی کمی کو کسی نے بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سے لوگوں کو بہلایا گیا۔ پچھلی حکومت تواتر کے ساتھ ایک ہی بات کہتی رہی کہ سابقہ حکومتوں نے کرپشن اور گھٹالوں سے معیشت کا بیڑا غرق کردیا۔ موجودہ حکومت اب پچھلی حکومت کی کرپشن کہانیوں سے لوگوں کو بہلارہی ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ پچھلی حکومت جوکہ بیرونی قرضوں کے حصول کی سب سے بڑی ناقد تھی خود اس نے اپنے دور میں قبل ازیں لئے گئے قرض کے 70فیصد مساوی قرضے کیوں لئے؟ کرپشن مہنگائی بیروزگاری اور اقربا پروری پر تنقید کرنے والوں نے اس ضمن میں کیا کیا یہی نہیں بلکہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ پی ٹی آئی کی پونے چار برسوں کی وفاقی حکومت نے خودانحصاری کے فروغ کے لئے کیا اقدامات کئے۔
یہ امر اپنی جگہ کہ تجربہ کار ہونے کا دعویٰ کرنے والی قیادت معاشی اصلاحات نہیں کرپائی اس کی وجہ جو بھی بتائی جاتی ہو یہ تلخ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کا چھٹا جائزہ پروگرام جوکہ پچھلے دور میں ہوا تھا اس پر ملنے والا قرض سخت شرائط کے ساتھ دیا گیا تھا۔ اس وقت کی حکومت نے معاہدہ کے باوجود شرائط پر عمل کرنے کی بجائے اس سے انحراف کیا۔
سیاسی عدم استحکام ایک وجہ ضرورت ہے مگر یہ واحد وجہ ہرگز نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے اولین وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل منصب سے الگ کئے جانے کے بعد بات بات پر نئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسیوں اور اقدامات کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔
کہنے کو ہر چھوٹا بڑا حکومتی اہلکار یہ کہتا دیکھائی دیتا ہے کہ معاشی بحران سے جلد نجات مل جائے گی لیکن اس کی حقیقی تصویر بنتی نظر نہیں آتی۔ ارباب اختیار کا ایک طبقہ یہ موقف اپنائے ہوئے ہے کہ سیاسی مخالفین کی منفی سرگرمیوں کی بدولت سیاسی کشیدگی سے پیدا ہوئی بے یقینی کے صرف معیشت پر ہی برے اثرات نہیں مرتب ہوئے بلکہ بین الاقوامی طور پر اعتماد سازی میں بھی کمی در آئی۔
پی ڈی ایم کے بعض رہنما یہ بھی کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم کی حیثیت سے بیرون ملک دوروں کے دوران سیاسی مخالفین کے خلاف جو نفرت انگیز مہم چلائی اس پر عمومی تاثر یہ بنا کہ ان کے سوا سب چور ہیں اس تاثر نے قرضے و امداد دینے اور سرمایہ کاری کرنے والوں کے اعتماد کو متزلزل کیا۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پچھلے برس کے سیلاب کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان کے دورہ پر آئے تو پی ٹی آئی نے انہیں باضابطہ خط لکھ کر کہا کہ اس حکومت کو امداد نہ دی جائے۔ یہی نہیں بلکہ ایک مرحلہ پر عمران خان نے عالمی مالیاتی اداروں سے براہ راست مخاطب ہوکر کہا کہ موجودہ حکمرانوں کو قرضے نہ دیئے جائیں کیونکہ پیسہ نہ ہونے سے ادائیگیوں کا توازن برقرار نہیں رہے گا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس پروپیگنڈے کی وجہ سے معیشت بند گلی میں پھنس کر رہ گئی۔ فی الوقت صورت یہ ہے کہ معاشی ابتری اور سیاسی عدم استحکام ہر دو کے باعث ملک و قوم کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ چکا۔
یہی وجہ ہے کہ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے مالیاتی ادارے اپنی شرائط سخت تر کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن قومی کردار ادا کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی سے فضا خراب کرتے رہے تو کوئی ملک یا ادارہ ہماری مدد کیوں کرے گا۔
ستم بالاتے ستم یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتویں جائزہ پروگرام کے بعد ہونے والے معاہدہ کی شرائط بھی مزید سخت کئے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ان حالات میں فریقین سے یہ درخواست ہی کی جاسکتی ہے کہ گروہی مفادات پر اگر ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کو اولیت دی جائے تو عین ممکن ہے اصلاح احوال کی کوئی صورت بن جائے۔
اہل سیاست کو یہ امر بطور خاص مدنظر رکھنا ہوگا کہ سیاسی اختلافات میں ملکی وقار اور ساکھ دائو پر نہیں لگائے جاتے۔ معیشت فی الوقت جن بحرانوں سے دوچار ہے وہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ ناپ تول کر بات کی جائے۔ تحریک انصاف بھی اگر اپنی پونے چار سال کی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ لے تو اس پر یہ حقیقت عیاں ہوجائے گی کہ اس کا دور بھی ماضی کے ادوار جیسا ہی تھا۔ اس دور میں ہر وہ کام ہوا جس پر ماضی میں پی ٹی آئی کی قیادت تنقید کیا کرتی تھی۔ امید واثق ہے کہ ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کیاجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author