یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اِن سب سے نفرت نہیں، نہ ان کی شکل بُری لگتی ہے۔ ہاں میں اِن کے خلاف ہوں، چھوٹے چھوٹے فائدوں کی خاطر اِن کے ادا کیے ہوئے سماجی کردار کے نقصان پہلو کے اثرات کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
یہ سب ایک ہی جیسے وظائف انجام دیتے ہیں: آپ کے اور ہمارے دماغ کو سُن کرنا، ہمارا تعلق بیرونی حقیقت سے توڑ کر اُسے قابلِ قبول بنانا، ذات یا نفس کو جوتا چمکانے والے برش کی طرح استعمال کرنا، علم کی بے توقیری کر کے غیر تربیت یافتہ نجی احساس کو اہمیت دینا، معاشرے کی جدلیات کو کُند کرنا، اور سب سے بڑھ کر تنقیدی صلاحیت کو ختم کرنا۔ مؤخر الذکر وصف ایسا ہے جس کے لیے یہ سب مقدس خوابوں، رویائے صادقہ، جگر و معدہ میں تیزابیت کے باعث ہونے والے الہامات، فرضی اولیا کے جھوٹے قصوں، داخلی ہذیان اور وسوسوں کو بطور چابک استعمال کرتے اور مرعوب کرتے ہیں۔
ان کا سب سے بڑا حربہ زبان ہے، جسے وہ مکالمے میں نہیں بلکہ صرف تقریر یا دوستانہ میزبان کی گدگدی کے ذریعے سے استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تو ہوتا آیا ہے ہمیشہ سے، زبان غالب طبقے کا ہتھیار رہی ہے۔ لیکن صرف یہی نہیں ہوتا تھا، ساتھ ایک چھوٹی سی شفاف ندی بھی ہوا کرتی تھی جس میں آپ اور کم اگر چاہتے تو رہ سکتے تھے۔ اب ریاستی حربوں اور پالیسیوں کے ذریعے ایسا ہونا محال بنایا جا رہا ہے۔
گدھے کے رینکنے کی آواز سننے والا کالی ماتا کا پجاری ٹھگ اسے ایک نیک شگون کے طور پر لیتا اور اپنی قتل گری کی مہم پر روانہ ہوتا۔ چمگادڑ، اُلو اور دیگر ایسی ہی اشیا اُس کے جذبے کو تقویت دیتی تھیں۔ آپ شاید گدھے کی آواز سن کر استغفار پڑھیں، کوفت محسوس کریں، چمگادڑ دیکھ کر سہم جائیں۔ چیز ایک ہی ہے اور اپنے آپ میں شاید کوئی معنی بھی نہیں رکھتی، معنی ہم نے اپنے پرسپیکٹو (تناظر) اور عہد و حالات کے مطابق دینا ہوتے ہیں۔
(پس تحریر: اب میں ان حضرات کو موضوع بنانا بند کرتا ہوں۔ اب آپ کا ذمہ ہے کہ انھیں سن/پڑھ کر ڈی کوڈ کریں)
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر