حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولا بخش چانڈیو پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکنوں میں سے ہیں۔ ان دیرینہ کارکنوں میں سے جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ قیدوبند کی صعوبتیں سہیں۔ سیاسی کارکن کسی بھی سیاسی جماعت کا حقیقی اثاثہ ہوتے ہیں۔
اب تو خیر سیاسی کارکنوں کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔ ان کی جگہ نالی موری کے ٹھیکیدار لے چکے۔ وہ دن گئے جب سفید پوش گھرانوں کے سیاسی کارکن دریاں کرسیاں بچھاتے لگاتے اور ٹینٹ سروس والوں کا معاوضہ دینے کے لئے جلسہ کے اختتام پر دریوں پر چوکڑیاں بھر کے بیٹھتے جیبیں پھرولتے، پیسے جمع ہونے پر پتہ چلتا ابھی بھی بارہ روپے کم ہیں۔ پھر بیگمات کو پیغام بھجوائے جاتے۔ منے کی فیس اور گھر کے کرائے کے پیسوں میں سے کچھ بھجوادیجئے۔ یوں جلسے ہوتے تھے۔
اب تو بنی بنائی جلسہ گاہ ملتی ہے۔ کارکنوں کی جگہ کرائے کے نعرے باز بھی دستیاب ہیں۔ انتخابات کے موسموں میں باقاعدہ اشتہارات شائع ہوتے ہیں بینروں، جلسہ گاہ، کارکنوں کی فراہمی کے لئے باقاعدہ دفتر قائم ہیں اشتہارات دیئے جاتے ہیں جوان بنانے والے حکیموں کی طرح ۔
ہماری نسل نے کھلی آنکھوں سے وہ سیاسی کارکن دیکھے جو نظریہ کو اہم سمجھتے تھے ویسے یہ اِکادُکا اب بھی دستیاب ہیں زیارت کے لئے ہر شہر اور قصبے میں ۔
فقیر راحموں مجھے اکثر سمجھاتا رہتا ہے اس کا کہنا ہے کہ ’’شاہ جب لیڈر دیوتا بن جائیں، سیاست تجارت پھر سیاسی کارکنوں جگہ مریدین اور فرنچائزی لے لیتے ہیں‘‘۔
یہی کڑوا سچ ہے۔ سیاست میں پیسے کے عمل دخل اور نام و نمود کی ہوس نے سیاسی کارکنوں کا کلچر ختم کردیا ہے ۔
یہ سطور لکھنے سے چند لمحے قبل موہن بھگت (چولستان کی مٹی سے اٹھے سرائیکی لوک فنکار) کی فیس بک پر پوسٹ پڑھی۔ انہوں نے لکھا ’’میں بے نوا زمین زادہ اور غریب فنکار ہوں اس لئے مجھے آصف علی زرداری سے کوئی ملنے نہیں دیتأ‘‘۔
یہ بھی تو کڑوا سچ ہی ہے۔
شکر ادا کرتا ہوں عملی زندگی میں قلم مزدوری کو ترجیح دی سیاسی کارکن نہیں بنا کیونکہ ہمارے چار اور اب لگانے والے کی لاٹری نکلتی ہے۔ معاف کیجئے گا تمہید کچھ طویل ہوگئی۔
’’رودادِ قفس‘‘ مولا بخش چانڈیو کی داستان اسیری کی ڈائری ہے۔ یہ کتاب برسوں قبل سندھی زبان میں شائع ہوکر پڑھنے والوں میں مقبول ہوئی۔ اب زاہد علی کے اردو ترجمے کے ساتھ فکشن ہائوس لاہور نے شائع کی ہے۔
مولا بخش چانڈیو سندھ وادی کی ملنساری فقیری ایثار اور وفاداری سے گندھے شخص ہیں۔ بحیثیت سیاسی کارکن وہ بچے کھچے سیاسی کارکنوں کی آبرو ہیں۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے انہیں جماعتی عہدوں کے ساتھ منتخب ایوانوں اور وزارتوں کی کرسیوں پر لے جا بٹھایا۔ سیاسی کارکن کی قدر کرنے والی جماعت ہی لڑتے بھڑتے آگے بڑھتی ہے۔
ہم اور آپ پیپلزپارٹی سے جتنا مرضی اختلاف کریں مگر اس جماعت نے سفید پوش سیاسی کارکنوں کو بہرطور عزت بھی دی اور منتخب ایوانوں تک بھی لے گئی۔
’’رودادِ قفس‘‘ اصل میں جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں بننے والے سیاسی اتحاد ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کی روداد ہے۔
12ستمبر 1983ء سے اس روداد کا آغاز ہوتا ہے یہ مارشل لا کے سیاہ دور کے شب و روز تھے
مولا بخش چانڈیو حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ ٹنڈو محمد خان میں ان کا ننھیال ہے۔ سندھی سماج کے اس اُجلے ترقی پسند سیاسی کارکن نے عملی سیاست میں حصہ لینے کے لئے پیپلزپارٹی کا انتخاب کیا۔
ہم آگے بڑھنے سے قبل مولا بخش چانڈیو اور ضیائی مارشل لاء کے ایک فوجی افسر کا مکالمہ پڑھ لیتے ہیں۔
’’میں جیل میں نظر بند تھا ایک صبح مجھے جیل سے حیدر آباد میں ڈی ایم ایل (ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر) کے دفتر لے جایا گیا۔ وہاں موجود ایک فوجی افسر نے پوچھا، آپ کہاں کے ہو؟ جواب دیا، حیدر آباد کا۔
تمہاری گوٹھ کون سی ہے؟ میں حیدر آباد کا ہی ہوں، یہی گوٹھ ہے قصبہ اور شہر بھی۔
اچھا چلو تم اپنا گائوں بتائو؟ میرا جواب پھر وہی تھا حیدر آباد۔ اس پر ایک اور فوجی افسر نے رعب دار آواز میں پوچھا آپ کا تعلق لاڑکانہ سے ہے؟
میں نے نفی میں جواب دیا۔ دادو سے؟ پھر انکار کیا۔ اس نے کہا ہمیں تو رپورٹ ملی ہے کہ آپ دادو کے ہو اور دادو کے ڈاکوئوں سے آپ کے رابطے ہیں۔
” میں نے کہا سائیں ہم سیاسی کارکن ہیں سیاسی کارکنوں سے ہی دوستیاں رکھتے ہیں ڈاکوئوں سے نہیں‘‘۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے۔
ہر قابض لشکر مقامی آبادی کو کمی کمین سمجھتا ہے بہت ہوا تو ڈاکو۔ مطالعہ پاکستان برانڈ تاریخ کے اوراق الٹ کر تصدیق کرلیجئے۔ غزنوی، قاسم، ابدالی اور انگریز وغیرہ نجات دہندہ ہیں۔ ہوشو شہید جیسے زمین زادے باغی ڈاکو۔ لشکروں کی ذہنیت اور ذہنی اپروچ دونوں یکساں ہوتے ہیں۔
اس لئے مارشل لاء کے دوران کسی فوجی افسر نے مولا بخش چانڈیو کو ڈاکوئوں کا رابطہ کار یا ساتھی سمجھا تو یہ کچھ غلط نہیں بلکہ قبضہ گیر سوج کا نمونہ ہے۔
آیئے پھر کتاب کی باتیں کرتے ہیں۔ ’’رودادِ قفس‘‘ کہانی ہے 1983ء میں شروع ہوئی اس تحریک کی جسے ایم آر ڈی کے بڑوں نے "پاکستان بچائو تحریک” کا نام دیا تھا۔ اس تحریک بحالی جمہوریت میں سندھی سماج ہراول دستہ بنا سب سے زیادہ ریاستی قہر سندھ وادی پر نازل ہوا۔ گرفتار شدگان میں (مجموعی تعداد) سے نصف کا تعلق صوبہ سندھ سے تھا۔ تحریک کو کچلنے کے لئے ٹینک تک استعمال ہوئے۔
’’رودادِ قفس‘‘ میں ا نہی دنوں کا حال احوال ہے۔ وہ دن جب فوجی آمریت کے جبڑے میں پاکستان پھنسا ہوا تھا۔ وہ دن جب رجعت پسند صالحین نے فخر کے ساتھ ان سیاسی کارکنوں کی مخبریاں کیں جو ان کے "خیال” میں اسلام پاکستان اور پاک فوج کے دشمن تھے اور اس دشمن داری کے لئے انہیں سوویت یونین اور بھارت سے مدد ملتی تھی۔
ایم آر ڈی کی تشکیل کے وقت اس میں شامل متعدد جماعتیں قبل ازیں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف امریکی معاونت سے بننے والے پاکستان قومی اتحاد کا حصہ تھیں۔ جمعیت علمائے اسلام مفتی محمود گروپ، سردار قیوم کی مسلم کانفرنس، سردار شیرباز مزاری کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی نیپ پر پابندی لگنے کے بعد متبادل سیاسی جماعت کے طور پر قائم ہوئی تھی) نوابزادہ نصراللہ خان کی پاکستان جمہوری پارٹی اور ایئرمارشل اصغر خان کی تحریک استقلال۔
ان جماعتوں کے علاوہ ایم آر ڈی میں فتح یاب علی خان کی مزدور کسان پارٹی، رسول بخش پلیجو کی سندھی عوامی تحریک اور معراج محمد خان کی پاکستان قومی محآذ آزادی نامی جماعت بھی شامل تھے ۔
سردار قیوم کی مسلم کانفرنس پی آئی اے کا طیارہ اغوا کئے جانے کے واقعہ کے بعد ایم آر ڈی سے الگ ہوگئی۔ علامہ سید عارف حسین الحسینی شہید کی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ایم آر ڈی کا باقاعدہ حصہ تو نہیں تھی لیکن اس جماعت نے ایم آر ڈی سے عملی تعاون ضرور کیا۔
’’رودادِ قفس‘‘ تاریخ وار لکھی گئی جیل کی ڈائری ہے۔ سیاسی قیدیوں پر جیلوں میں کیا بیتتی، محبتیں، ناراضگیاں، دلچسپ یادیں، سیاسی فہم پر استقامت سے ڈٹ جانا۔
اس کتاب میں ہماری نسل کے لئے محبوب و محترم ہوئے سندھی سیاستدان اور دانشور رسول بخش پلیجو مرحوم کی دلچسپ باتیں، بھول جانے کی عادت کے قصے اور بھی بہت کچھ ہے۔
مولا بخش چانڈیو کی یہ جیل بیتی ان چند کتابوں میں سے جسے سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کو پڑھنے کے لئے کہیں۔ ایک قدم آگے بڑھ کر اگر سیاسی جماعتیں پھر سے سٹڈی سرکلز کا احیا کرسکیں تو یہ کتاب بھی سٹڈیز سرکلز کے نصاب میں شامل کی جانی چاہیے۔
’’رودادِ قفس‘‘ چند برس قبل سندھی زبان میں شائع ہوئی تو سندھی سماج نے اس کتاب کی خوب پذیرائی کی۔ مطالعے کے شوقین جن دوستوں نے حمید اختر کی "کال کوٹھڑی” اور "شیخ ایاز کی ڈائری” پڑھ رکھی ہے ان کے لئے یہ کتاب مزید دلچسپ ثابت ہوگی۔
ایک ایک سطر درد سے گندھی ہے۔ جذبوں کی موجیں ٹھاٹھیں مارتی ہیں۔ سیاسی نظریہ اور سیاسی کارکن کیا ہوتے ہیں، یہ کتاب ان منہ ٹیڑھا کرکے جمہوریت آن مائی فٹ اور وٹ اے ربش الاپنے والی نسل کو ضرور پڑھنی چاہیے جس کا خیال ہے کہ جمہوریت دھندہ ہے اور صدارتی نظام یا مارشل لاء نجات دہندہ ہوتے ہیں۔
یہ بجا ہے کہ عوامی جمہوریت کی منزل ’’ہنوز دلی است‘‘ کے مصداق ہے پھر بھی طبقاتی جمہوریت کے کوچے سے عوامی جمہوریت کے لئے راستہ نکل سکتا ہے۔
شخصی حکومت یا مارشل لاء سے لڑنے بھڑنے کے لئے جس فکری استقامت اور فہمیدہ سیاسی کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ اب ہمارے سماج میں خال خال ہی دستیاب ہیں۔
مولا بخش چانڈیو سیاسی کارکنوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس کی بس اب چند نشانیاں ہی بھرے پُرے شہروں اور قصبوں میں زیارت کے لئے مل سکتی ہیں۔
’’رودادِ قفس‘‘ پاکستانی سیاست کے ان ماہ و سال کی آب بیتی بلکہ جگ بیتی ہے جب بندوق برداروں کی دہشت اسلامی نظام کشید کرنے والوں کے لئے چھتر چھایہ تھی اور پورا نظام جمہوریت کے لئے تارا مسیح بنا ہوا تھا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر