رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت کم ہوتا ہے کہ آپ کسی ادیب کی ایک کتاب پڑھیں اور پھر اس کی سب کتابیں ڈھونڈتے رہیں۔ میرے ساتھ کئی مواقع پر ایسا ہو چکا ہے۔ برسوں پہلے نعیم بھائی نے ماریو پوزو کا شاہکار ناول دی گاڈ فادر پڑھنے کو دیا تو پھر پوزو کے سب ناولز ڈھونڈ کر پڑھے۔ پائلو کوہلو کا ناول The Winner Stands Alone پڑھا تو باقی ناولز پڑھے۔ الکیمسٹ جوانی کے دنوں میں میرے سر کے اوپر سے گزر گیا تھا۔ برسوں بعد پھر پڑھا تو اس کی عظمت سمجھ میں آئی۔ عبداللہ حسین کا ”باگھ‘‘ پڑھا تو بات اداس نسلوں تک جا پہنچی۔ قرۃ العین حیدر کا ”کارِ جہاں دراز ہے‘‘ مجھے ”آگ کا دریا‘‘ تک لے گیا۔ ترکی کی ادیبہ الیف شفق کے ناول The Forty Rules of Love نے میرے سوچنے کا نظریہ ہی بدل دیا۔
حفیظ خان کا ناول ”انواسی‘‘ پڑھا تو ایسا عاشق ہوا کہ ان کے دیگر ناولز ڈھونڈے۔ میرے بس میں ہوتا تو انواسی ناول پر ایک پورا سیزن پروڈیوس کرتا۔ کمال کہانی لکھی ہے۔ علی اکبر ناطق کا ناول ”نولکھی کوٹھی‘‘ بھی کلاس کا ناول ہے۔ اس فہرست میں پچھلے دنوں اس وقت اضافہ ہوا جب اصغر ندیم سید کی خاکوں کی کتاب ”پھرتا ہے فلک برسوں‘‘ پڑھی۔ میرا خیال تھا ہمارے ملتان کے ڈاکٹر انوار احمد کے خاکوں کی کتاب ”یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ‘‘ لکھنے کے بعد کوئی اور کیا خاکے لکھے گا لیکن اصغر ندیم سید نے میرے اس خیال کو اپنی نئی کتاب سے غلط ثابت کیا۔ لاہور کی پچھلے پچاس سال کی شاعری‘ شاعر‘ ادب‘ ادیب‘ سوشل لائف اور سیاسی رنگوں کو سمجھنا ہو تو درجنوں کتابوں کے بجائے اصغر ندیم سید کی یہ خاکوں کی کتاب پڑھ لیں۔ ایک سو نوے صفحات میں کیا شاندار انداز میں پچاس سال کو پندرہ غیرمعمولی کرداروں میں سمو دیا گیا ہے۔ میں نے اصغر ندیم سید کی اس کتاب میں جاوید صدیقی کے بارے میں پڑھا تو معلوم ہوا وہ بھارتی ادیب و سکرین رائٹر ہیں اورکئی بلاک بسٹر فلمیں لکھ چکے ہیں۔ ان کے لکھی خاکوں کی دو کتابیں ”روشن دان‘‘ اور ”لنگر خانہ‘‘ بہت نام پیدا کر چکی ہیں۔
جاوید صدیقی نے ”شطرنج کے کھلاڑی‘‘ اور ”امراؤ جان ادا‘‘ جیسی فلموں کے ڈائیلاگز لکھے تھے۔وہ سو کے قریب فلموں کے ڈائیلاگز اب تک لکھ چکے ہیں۔ خاکوں کی کتابیں میری ہمیشہ سے کمزوری رہی ہیں۔ میرے پاس کافی موجود ہیں جن میں غیرمعمولی لوگوں کی کہانیاں قید ہیں اور کوشش کرتا ہوں ہر رات کم از کم ایک خاکہ پڑھ کر سوؤں۔ آج کل کوثر نیازی کی کتاب ”جنہیں میں نے دیکھا‘‘ پڑھ رہا ہوں۔ خیر جاوید صدیقی کے بارے پڑھ کر عجیب سی سنسنی نے جکڑ لیا۔ اب اُن کی کتابیں پاکستان میں کہاں سے ملیں گی۔ بھارت سے تو ان حالات میں ملنا بہت مشکل تھا۔ بھارت میں اردو ادب دوست انیس الدین صاحب سے بھی رابطہ کیا کہ جاوید صدیقی کی کتابیں کیسے مل سکتی ہیں۔ پھر میرے ذہن میں لاہور کے پبلشر دوست افضال احمد کا نام آیا۔ انہوں نے اگلے دن بھجوا دیں۔
میرا خیال تھا اصغر ندیم سید کی ایک سو نوے صفحات کی کتاب میں جتنا مواد لاہور کے ادیبوں‘ شاعروں‘ صحافیوں اور سوشل لائف بارے لکھا گیا تھا‘ اس کے بعد کوئی ادیب متاثر نہیں کر پائے گا لیکن جاوید صدیقی کی کتاب ”روشن دان‘‘ نے مجھے غلط ثابت کیا۔ ایک سو بانوے صفحات کی اس کتاب میں ایسا گم ہوا کہ سب بھول گیا۔ سردی کے اس اداس موسم میں ویسے بھی اٹھنے کو دل نہیں کرتا اور اوپر سے ویک اینڈ پر یہ کتاب مل گئی۔ جوں جوں اس کے صفحات کم ہورہے تھے‘ مجھے ٹیشن ہونا شروع ہوگئی کہ اب جب یہ ختم ہوگی تو پھر کیا کروں گا؟ فوراً ہی دوسری کتاب ”لنگر خانہ‘‘ تلاش کرنا شروع کی تو اللہ بھلا کرے نوجوان راشد اشرف کا‘ جنہوں نے کراچی سے وہ کتاب شائع کی تھی‘ مجھے بھجوا دی۔جاوید صدیقی بھارتی ریاست رام پور کے ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جہاں لکھنے پڑھنے کا رواج کچھ زیادہ ہی تھا۔ جاوید صدیقی پہلے صحافت میں داخل ہوئے‘ پھر اسے چھوڑ کر فلم انڈسٹری میں سکرین رائٹر کے طور پر زور آزمائی کا فیصلہ کیا اور پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ مدت بعد جاوید صدیقی کے دل میں پتا نہیں کیا سمائی کہ سب کچھ چھوڑ کر قلم اٹھایا اور اپنی ساری زندگی ان چند کرداروں کے ذریعے کھول کر سامنے رکھ دی۔ خصوصاً اُن کی شادی کا قصہ تو آپ کو ایسا گرفت میں لے کہ آپ باہر نہ نکل سکیں یا پھر سلطانہ آپا کا کردار۔ یوں لگا جیسے ہر کردار زندہ سلامت آپ کے سامنے آن کھڑا ہو اور اپنی کہانی جاوید صدیقی کے منہ سے سن کر مسکرا رہا ہو۔اُنہوں نے صرف دس کرداروں کے ذریعے اپنی پوری زندگی کو سمو دیا۔ بڑے پاپا کو پڑھیں تو آپ گم سم ہو جائیں کہ کیسے کیسے لوگ رام پور میں موجود تھے۔ میرے لیے حیران کن بات یہ تھی کہ نسیم حجازی کے ناولز بھارتی مسلمان خواتین میں بھی اتنی ہی محبت سے پڑھے جاتے تھے جیسے ہمارے ہاں رواج تھا۔ گرو جی کا کردار آپ کو ایک الگ دنیا میں لے جاتا ہے۔ جاوید صدیقی لکھتے ہیں ”دو سال کی مسلسل کوشش کے بعد آخرکار ابرار علوی (گرو جی) خودکشی کرنے میں کامیاب ہوگئے‘‘۔ اپنے دور کی ہر کامیاب فلم ابرار علوی نے لکھی‘ لیکن صاحب بی بی اور غلام‘ پیاسا‘ کاغذ کے پھول اور پروفیسر جیسی شاہکار فلمیں لکھیں والے کے جنازے میں صرف بارہ لوگ شامل تھے۔ وہ بندہ جس کے ایک ایک ڈائیلاگ پر کبھی لاکھوں ہاتھ سینما ہالوں میں تالیاں بجاتے۔ ابرار علوی کی کہانی ایسے لکھاری کی داستان ہے جس نے فلمی دنیا پر راج کیا اور وقت ڈھلنے پر خود کو تنہا پایا۔
سلطانہ آپا کا کردار ایک اور دنیا کی کہانی سناتا ہے۔ سردار جعفری سے شادی ہوئی تو پتا چلا وہ نوکری ڈھونڈ رہے ہیں۔ آپا نے سب درخواستیں پھاڑ دیں کہ تم صرف شاعری کرو۔ گھر چلانا میری ذمہ داری اور خود ستر سال کی عمر تک نوکری کی۔ جعفری صاحب فوت ہوئے تو تدفین کا بندوبست کیا گیا۔ تب سلطانہ آپا کی آواز ابھری سردار جعفری سانتا کروز قبرستان میں دفن ہوں گے۔ لوگ حیران ہوئے اور بولے وہ تو دوسرے مسلک کا قبرستان ہے۔ آپا بولیں: تو کیا ہوا۔ سردار کے سارے دوست وہیں ہیں۔ زندگی بھر جن کا ساتھ رہا‘ موت کے بعد انہیں الگ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ ممتاز فلم ساز ستیہ جیت رے پر ”لنگر خانے‘‘ میں لکھا گیا خاکہ شاید پھر نہ لکھا جائے گا یا شمع زیدی کا کردار جب وہ سب مل کر لکھنو کی گلیوں میں دن رات ایک کیے ہوئے تھے تاکہ ”شطرنج کے کھلاڑی‘‘ فلم بنا سکیں جس میں سنجیو کمار‘ امجد خان اور سعید جعفری نے لازوال کردار ادا کیے۔ یہ لکھنو کے نوابوں کے زوال کی دردناک کہانی ہے جسے ستیہ جیت رے جیسے بڑے فلم ساز نے ڈائریکٹ کیا اور جاوید صدیقی اور شمع زیدی نے ڈائیلاگز لکھے۔
یہ دونوں کتابیں ختم کر چکا تو عجیب خواہش پیدا ہوئی کہ کیا ممکن ہے جاوید صدیقی کے ان دونوں کتابوں پر دستخط حاصل کروں؟آج تک کبھی کسی ادیب کے حوالے سے یہ خواہش نہ ابھری تھی۔ کراچی سے مہربان عقیل عباس جعفری نے بتایا کہ اتفاقاً جاوید صدیقی کراچی آئے ہوئے ہیں۔ میرا دل مچل گیا۔ میں نے کہا: جعفری بھائی کوئی کرتب کریں۔ وہ بتانے لگے تیرہ جنوری کو وہ ایک مذاکرے میں شریک ہوں گے‘ وہاں ان سے کتابوں پر دستخط لیے جا سکتے ہیں۔ آپ کتابیں بھجوا دیں۔ اچانک یاد آیا کراچی میں ہمارے رضوان خان جو پی آئی اے کے ہمارے مرحوم دوست عمران خان کے بھائی ہیں‘ وہ بھی تو رام پور سے ہیں۔ فوراً رضوان بھائی کو فون کیا اور کہا رام پوری بھائی کوئی جگاڑ نکالیں اور جاوید صدیقی سے کتابوں پہ آٹوگراف لینے کا انتظام کریں۔ رضوان بھائی بولے: کتابیں بھجوا دیں‘ کچھ کرتے ہیں لیکن ہنس کر بولے: یار پہلے تو ہمارے رام پور کے صرف چاقو مشہور تھے۔ میں مسکرا پڑا۔ رام پور کا چاقو ہو یا جاوید صدیقی کا نوکیلا قلم‘ دونوں سیدھے دل میں جا کر کھبتے ہیں اور آپ کا دل نکال کر ہی دم لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر