نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاسی ارسٹوکریسی اور مطالعے سے شغف||سعید اختر

سعیداختر سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے استاد اور دانشور ہیں ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

سعید اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ عرصہ ڈیرہ غازی خان کے پوسٹ گریجوئیٹ کالج میں تعیناتی کے دوران گاھے گاھے دوست میرے ہاتھ میں ہر وقت کوئی کتاب دیکھ کر سردار امجد خان کھوسہ، جو ان دنوں بھی پاکستان نیشنل اسمبلی کے رکن تھے، کی کتاب دوستی کی بات ضرور کرتے۔ اشتیاق رہتا کہ کبھی ان سے ملاقات ہو لیکن ایک طویل معاشرتی فاصلے کی بدولت ایسا ممکن نہ تھا۔ سردار صاحب ڈیرہ غازی خان کے تمن کھوسہ کے سردار ہیں اور من آنم کہ من دانم۔ لیکن دل میں خواہش ضرور رہی کہ کبھی ان سے ملاقات ہو۔

شہر کے وضع دار اور مشہور وکیل طاہر مصطفے قریشی سے پیار کا رشتہ ہے وہ سردار امجد خان کے قریبی دوستوں میں سے ہیں ان سے بھی جب سردار صاحب کا ذکر ہوتا تو میں اپنی ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتا۔ محترم طاہر مصطفے قریشی بھی ان کی کتابوں سے محبت کا ذکر کرتے رہتے۔ پھر کہیں روف کلاسرا نے ذکر کیا کہ سردار امجد خان، موجودہ اراکین اسمبلی میں سے شاید واحد رکن تھے جو نیشنل اسمبلی کی لائبریری سے کتابیں باقاعدگی سے مستعار لیتے غرض ان سے ملنے کی خواہش دل ہی میں رہی۔

اس تمہید کا سیاق و سباق دراصل پاکستان کی aristocracy ( اردو ڈکشنری میں اس لفظ کا ترجمہ اشرافیہ ملتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ اصطلاح اشرافیہ سے کہیں وسیع اصطلاح ہے ) کے زوال کا کھوج ہے۔ پاکستان میں 80 کی دہائی کے اوائل کے سالوں تک aristocracy کا وجود اپنی بھرپور توانائی سے موجود رہا۔ اگر کبھی ملتان میں سیاسی میل جول کے لئے محترم قصور گردیزی کے ہاں جانا ہوتا تو میں کافی دیر ان کی لائبریری میں بیٹھا رہتا ان کی لائبریری میں ایک جہاں بستا تھا۔

انہیں دنوں سردار اکبر خان بگٹی کی لائبریری کی بابت سننے کو ملا اور دوست بتایا کرتے کہ سردار صاحب سے کتابوں پہ گفتگو کرتے ہوئے محتاط ہونا پڑتا ہے کیونکہ وہ وسیع مطالعہ شخصیت تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مطالعے کی دھوم تو ہر جگہ تھی۔ قدرت اللہ شہاب نے تو یہاں تک کہا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو ایوب کابینہ کے وزیر تھے تو پریزیڈنسی کی لائبریری کی کم ایسی کتابیں تھیں جو بھٹو صاحب نے نہ پڑھی ہو۔ وہ کتاب پڑھتے اس کے نوٹس لیتے اور وہ نوٹس اپنے پی اے سے ٹائپ کرواتے کیونکہ ان دنوں ٹائپ رائٹر کی سہولت دستیاب تھی۔

جب سردار شیر باز خان مزاری، جن کی اپنی لائبریری نے ایک جہاں سمو رکھا تھا، کی کتاب Journey to disillusionment پڑھنے کو ملی تو سردار شیر باز خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے کتابوں کے پڑھنے میں مسابقت کا دلچسپ احوال پڑھنے کو ملا۔ دونوں کی کوشش ہوتی کہ نئی کتاب سب سے پہلے پڑھی جائے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس مسابقت میں پرانی کتابوں کی کھوج میں دونوں کی کوشش ہوتی کہ کتاب کو پہلے ڈھونڈا جائے اور بعض دفعہ تو کتاب بیچنے والوں کو ایک دوسرے کی ضد میں زیادہ پیسے دیے جاتے۔

جب خان عبدالولی خان نے کتاب Facts are facts لکھنے کا قصد کیا تو کچھ عرصہ لندن جا بسے کہ وہاں برٹش لائبریری سے استفادہ کیا جائے اور نوٹس لینے کے لئے وہ گھنٹوں لائبریری میں صرف کرتے اور یہ سلسلہ مہینوں جاری رہا۔

ممتاز علی بھٹو نے کافی سال پہلے دی نیوز میں مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو انگریزی ادب کا طالب علم ہوتے ہوئے میں ان کی انگریزی نثر کا دیوانہ ہو گیا۔ وہ مضامین ان کے صاحب مطالعہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ پھر ان کے ٹی وی پہ نشر ہونے والے کچھ انٹرویوز دیکھے جو وہ اکثر اپنی لائبریری میں ریکارڈ کراتے ان کی سلیقے سے رکھی کتابیں دیکھ کر مجھے ان سے حسد ہونے لگا تھا۔ پھر ان کے لندن میں کتابوں کی تلاش کے قصے کچھ احباب سے سننے کو ملے تو ان کی کتاب سے محبت کی تصدیق ہو گئی۔

سردار خیر بخش خان مری، جو پاکستان میں بلوچ نیشنلسٹ سیاست کا سرخیل رہے، کی گفتگو، جو کئی حصوں میں یو ٹیوب پہ موجود ہے، سننے کا موقع ملا تو ان کی عالمانہ گفتگو نے محصور کر دیا۔ جب وہ اپنی دلیل میں ڈھیروں کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں تو دیکھنے اور سننے والا انہیں دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اپنے بابا جی میر غوث بخش بزنجو کی کتاب دوستی کا تو میں عینی شاہد ہوں۔ ممتاز دولتانہ بھی کتابوں کے رسیا تھے اور ان کے صاحب علم ہونے میں کسی کو شک نہیں۔

بات چلی تھی aristocratic سے اور اس طبقے اور اشرافیہ میں فرق سے۔ ارسٹاکریسی کا زمانہ قدیم سے تہذیبوں کے پنپنے سے گہرا تعلق رہا۔ اگر اس طبقے کا سیاسی کردار دیکھنا مقصود ہو تو قدیم رومن سینٹ کی تاریخ کو دیکھ لیجیے۔ لیکن میری توجہ ہمیشہ ارسٹاکریسی کی کسی بھی معاشرے میں ثقافت کی ترویج کے کردار پہ رہی ہے۔ اس طبقے نے آرٹ، موسیقی، تھیٹر، پینٹنگز کے فن کی سرپرستی کی۔ اگر آپ فن کے ان تمام شعبوں کی ثقافتی تاریخ پڑھیں تو ان سب شعبوں کے سرپرست آپ کو ارسٹاکریسی کے طبقہ سے ہی ملیں گے۔ جب کسی معاشرے میں یہ تمام فنون ناپید ہونے لگیں تو وہ معاشرہ زندہ نہیں کہلاتا۔

ماضی کی پاکستان کی سیاسی اشرفیہ کی اکثریت کا تعلق ارسٹاکریسی سے تھا اور وہ ثقافت سیاسی اشرافیہ کے پیرو کاروں میں بھی سرایت کر جاتی۔ ہاں ان سیاسی اشرفیہ کی سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا تھا مگر ان کے ہاں برداشت کا مادہ بھی تھا جو اپنے سیاسی مخالفین کی بات کو اہمیت دیتے۔

کل سردار امجد خان سے مختصر ملاقات رہی۔ اسی وقت انہیں The Economist کے نئے شمارے کا پیکٹ ملا تھا اور جس محبت سے سردار صاحب اس شمارے کی ورق گردانی کر رہے تھے تو مجھے اردو کے مایہ ناز ادیب محمد خالد اختر کے فقرے یاد آ گئے، ”کتاب کے ورق کی خوشبو میری پسندیدہ خوشبو ہے۔“ ورنہ اب تو سیاسی اشرافیہ کا یہ عالم ہے کہ میرا سیٹھی کے کیے نواز شریف سے انٹرویو کی سطریں ہر وقت میرے ساتھ ہوتی ہیں۔ ”جب میں اس وسیع و عریض گھر میں داخل ہوئی تو مجھے پورے گھر میں کوئی کتاب دیکھنے کو نہ ملی۔“ اور احباب ایسا ہی حال بنی گالہ کے گھر کا دیتے ہیں کہ وہاں آپ کو کتاب تو کجا کتاب کا پھٹا کوئی صفحہ بھی دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ یہیں سے پاکستانی معاشرے کے زوال کی کہانی جنم لیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author