رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب افراد‘ قومیں اور ملک سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت میں ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوشلزم کی روس اور چین میں تدفین کے بعد اس کی جکڑ میں مزید اضافہ ہو چکا۔ مغرب کے دانشور‘ فلسفی اور سیاسی مدبر تو صدیوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ صرف یہی نظام انسانی فطرت سے مناسبت رکھتا ہے۔ حرص اور غلبہ وہ فطری عناصر ہیں جو انسان میں زر و دولت اکٹھا کرنے کی تحریک پیدا کرتے ہیں۔ اس کے دوسرے پہلو معاشی عدم تحفظ‘ آزادی‘ مسابقت اور آگے بڑھنے کے رجحانات ہیں۔ آزادی کی تعریف اور حقوق کا پیمانہ جائیداد بنانے‘ رکھنے اور اس کے تحفظ سے ہی ترتیب پایا تھا۔ جدید فلسفیوں کے نزدیک بالترتیب تین حقوق لازمی ہیں جو کہ زندگی‘ آزادی اور جائیداد ہیں۔ انسان کی شخصیت‘ اس کی نشوونما اور اندر چھپی ہوئی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار ان تین حقوق کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اصل میں یہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اسی نظام نے سامراجیت اور نوآبادیاتی جنگوں‘ ملک گیری اور ہمارے اوپر مغربی غلبے کو متحرک کیا۔ یہ ایک طویل بحث ہے کہ اٹھارہویں صدی کے کس ماہرِ معاشیات اور فلسفی نے سامراجیت کی وجوہ کے بارے میں کیا کچھ کہا۔ مارکسی فلسفے کو دیکھیں یا غیر مارکسی فلسفیوں کو‘ اپنے ملکوں میں کاروباری کمپنیاں جن میں امرا‘ اشرافیہ اور حکمران گھرانے اپنا اضافی سرمایہ لگا کر دولت بناتے تھے‘ انہیں اتنا منافع مہیا نہیں کر پارہی تھیں کہ جس طرح ہندوستان اور دیگر ملکوں میں سرمایہ کاری کرکے منافع حاصل کیا جا سکتا تھا۔ یہاں پر ایسٹ انڈیا کمپنی اٹھارہویں صدی کے آخر میں آئی۔ اس کی پشت پر برطانوی حکمران طبقے کی حمایت تھی۔ وہ فوج بنا سکتی تھی۔ اس نے ان علاقوں میں سکہ جاری کرنے کا اختیار بھی حاصل کرلیا جہاں اس نے اپنی طاقت سے جھنڈا لہرا لیا اور اس کی نوکر شاہی اور فوج کی قیادت کے لیے برطانوی اشرافیہ کے نوجوان بھرتی کیے جاتے تھے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی پوجا کرنے والوں کی دنیا میں کمی نہیں۔ اسی طرح اس کے مخالفین بھی بہت زیادہ ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ صنعتی دور اسی نظام کی پیداوار ہے ۔ آج کا جدید زمانہ‘ جس کے کرشمے آپ اپنی سہولیات‘ صحت‘ سائنس ‘ تعلیم اور مواصلات کے میدان میں دیکھتے ہیں‘ اسی کی پیداوار ہیں ۔ سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی اور آزادیٔ فکر اور عمل کی چمک اتنی تھی کہ مارکسی سوشلزم‘ جس کی روح انسانیت اور فرد کی فلاح اور حقیقی معاشی آزادی تھی‘ اس کے سامنے ماند پڑکر دم توڑ گیا۔ غالب سرمایہ دارانہ نظام کے احاطے میں اس کی بقا ناممکن تھی۔ روس بغیر کسی بیرونی مداخلت کے 25 دسمبر 1991ء کے بعد ٹوٹ گیا۔ چین معاشی قبلہ پہلے ہی درست کر چکا تھا۔ کمیونزم کے نام پر صرف پارٹی ہی رہ گئی‘ باقی سب کچھ سرمایہ دارانہ نظام نے ہضم کر لیا۔ چینیوں کو یہ نظام ایسا راس آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکے ہیں۔ اب چینی کمیونسٹ پارٹی جو ہمیں ہمارے طالب علمی کے زمانے میں سوشلزم کا درس مائوزے تنگ کی ریڈ بک اور اس کی مخصوص ٹوپی پہنا کر دیتی تھی‘ اب اصرار کرتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہماری فلاح ہے۔ چونکہ وہ ریڈ بک کسی زمانے میں اس درویش نے ازبر کی تھی اور مائو کیپ پہن کر پکا سرخا ہونے کی مشق بھی کرتا تھا‘ دونوں کبھی کبھار ماضی کی یاد تازہ کرنے کے لیے سنبھال کر رکھے ہیں۔ اب ہم بھی آپ کی طرح سرمایہ دارانہ نظام میں جیتے‘ سانس لیتے اور گزر اوقات کرتے ہوتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔ تضادات سے کسی کی زندگی بھی خالی نہیں۔ ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ ہم اکثر سرمایہ داری کی برائیاں کرتے ہیں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جدید ترقی اسی کی بدولت ہے۔
سرمایہ داری کے ہم نظریاتی طور پر مخالف رہے ہیں۔ اب بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ اگر ہم نسبتاً کامیاب رہے ہیں‘ آسودہ حال ہیں تو یہ کوئی دلیل نہیں کہ یہ نظام سب کے لیے یکساں سماجی اور مالی فائدے یقینی بناتا ہے۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ فائدہ مند ہو سکتا ہے‘ مگر ہم نے تاریخی حوالوں اور موجودہ دور کی طبقاتی تفریق کے حوالے سے دیکھا ہے کہ عملی طور پر یہ کامیاب لوگوں کو مزید کامیاب اور ناکاموں کو مزید نیچے گرائے رکھتا ہے۔ یہ ذاتی صلاحیتوں سے کہیں زیادہ سماجی اور معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے ہے۔ سرمایہ داری میں بھی کچھ دانشور سماجی انصاف کی بات کرتے ہیں کہ جن کے پاس دولت ہے‘ ان سے بھاری ٹیکسوں کی صورت وصول کرکے غریب افراد کے لیے صحت‘ تعلیم‘ خوراک اور رہائش کی سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ بھی کچھ بن جائیں۔ ان کی خداداد صلاحیتیں بھی جلا پا سکیں۔ زیادہ تر نظریے اس ضمن میں دولت کے ارتکاز کو روکنے کے نہیں بلکہ غریب اور پسماندہ طبقات کے لیے کچھ گنجائش پید اکرنے کے لیے ہیں۔ ان افراد اور کمپنیوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں جو دنیا کی 80 فیصد سے زیادہ دولت کے مالک ہیں۔ یہ نظام سب کو دوڑ کی ایک ہی قطار میں کھڑا کردیتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ آپ بھاگنا شروع کردیں اور ایک دوسرے سے آگے نکلیں۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بے شک دھکا دے لیں‘ کہنی ماریں‘ چالاکی برتیں اور کرپشن بھی کرگزریں‘ سب جائز ہے ۔
سرمایہ داری پر ہمارا سب سے بڑا اعتراض اسی دوڑ پر ہے ۔ نہ تو یہ سب کو ایک ہی ہموار میدان میسر کرتا ہے اور نہ ہی سب لوگ بھاگنے کے قابل ہوتے ہیں۔حکم یہ صادر کرتا ہے کہ دیکھیں آپ میں صلاحیت تھی نہ تحریک‘ اپنی ناکامی‘غربت اور افلاس کے آپ خود ذمہ دار ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ صرف معاشی نہیں‘ سماجی اور سیاسی نظام بھی ہے۔ آج کے دور میں فکری افلاس اتنی ہو چکی ہے کہ کچھ مغربی دانشور یہ کہتے ہیں کہ اس کے متبادل کوئی نظام نہیں‘ اس میں خرابیاں ہیں تو ان کو دور کریں۔ ہم سویڈن‘ ڈنمارک اور ناروے کی مثال دیتے ہیں یا فلاحی ریاست کی بات کرتے ہیں تو وہ استثنا کا سہارا لیتے ہیں۔ گزشتہ چار سو سال سے مرتب عالمی نظام نے ہر ملک میں غالب طبقوں کو آگے بڑھایا ہے جو اس وقت معاشروں کے تمام پہلوؤں کواپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں۔ مارکس نے اس دائمی حقیقت کی بات اُس زمانے میں کی تھی جب یہ نظام ابھی اوائل میں پروان چڑھ رہا تھا کہ زمانے میں غالب طبقات کے نظریات ہی غالب رہے ہیں۔ یہ نظریات سماجی بھی ہیں‘ سیاسی بھی اور معاشی بھی۔ ان لوگوں کی ثقافت‘ ان کی سچائیاں ان کی طاقت کے سہارے ہمارے اوپر آج بھی حکمرانی کر رہی ہیں۔ تو پھر وہ آزادی کیسے حاصل کی جائے جو کہ انسان کی فطرت میں ہے؟ انتونیو گرامچی‘ عظیم مفکر‘ جو اپنی جوانی ہی میں اٹلی کی قید و بند میں تقریباًایک صدی پہلے دم توڑ گیا تھا‘ نے اس کا جواب آزادی ہی میں ڈھونڈا تھا کہ لوگ سرمایہ داری سے اجتماعی طور پر باہر نہ بھی ہوں‘ آپ خود اس سے آزاد ہو جائیں۔اس کی عملداری میں نہ لڑیں‘ فکری مزاحمت جاری رکھیں۔ میرے نزدیک عام لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ نام نہاد شرفا‘ زر و دولت کا انبار لگانے والے حکمرانوں کا مصاحب بننا اول درجے کی غلامی ہے۔ اپنی زندگی اپنی سوچ‘ آزادیٔ فکر اور سادگی کے ساتھ گزار دی جائے تو حقیقی آزادی کی روح جو ہمارے اندر پہلے سے موجود ہے‘ زیادہ طاقتور اور متحرک ہو جائے گی۔ بڑے لوگوں کو بڑے عہدے کی لالچ‘ زیادہ پیسہ جمع کرنے کی حرص میں دوسروں سے رعایت لیتے اور کوئی سہولت مانگتے دیکھتا ہوں تو ترس آتا ہے ان کی غلامی پر۔ سرمایہ داری نظام میں صرف اور صرف ذات‘ خود انحصاری‘ خود کفالت اور سادگی ہمیں آزادی‘ اطمینان اور سکون کی دولت عطا کر سکتی ہے۔ مغرب اور مشرق‘ ماضی اور حال میں یہی سلیقہ کامیاب لوگوں کا دیکھا ہے۔ آپ بھی شامل ہو جائیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ