نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قاتلانہ حملہ، فرانزک رپورٹ اور وائٹ پیپر ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران خان پر وزیرآباد میں ہونے والے قاتلانہ حملے کی فرانزک رپورٹ کے مطابق انہیں 4گولیاں نہیں دھاتی ٹکڑے لگے۔ پنجاب کے مشیر داخلہ عمر چیمہ کہتے ہیں رپورٹ نامکمل ہے۔ فرانزک رپورٹ کے مطابق عمران خان کو تین گولیوں کے ٹکڑے اور ایک دٓھاتی ٹکڑا لگا۔

مکمل گولی لگنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، قاتلانہ حملے کے وقت جاں بحق ہونے والے پی ٹی آئی کے کارکن معظم کو لگنے والی گولی ایم ایس جی رائفل کی تھی۔

قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزم نوید کے پسٹل سے 12گولیاں چلائی گئیں۔ معظم کو پیچھے سے کنٹینر کی طرف سے گولی لگی۔ 12گولیاں نوید کے پسٹل سے اور 2ایم ایس جی رائفل سے فائر ہوئیں۔ تین اطراف سے فائرنگ کا ثبوت نہیں ملا۔

عمر چیمہ کا اصرار ہے کہ رپورٹ نامکمل ہے اصل رپورٹ جے آئی ٹی چالان کے ساتھ عدالت میں جمع کرائے گی۔ قاتلانہ حملہ کے دوران کارکن کی ہلاکت پر ان سطور میں عرض کیا تھا کہ معظم کو لگنے والی گولی رائفل کی تھی جبکہ نوید کے پاس پسٹل تھا۔ معظم کو سر کے پچھلے حصے میں گولی اس وقت لگی جب ہجوم میں بھگدڑ مچ چکی تھی۔

گولیاں لگنے کے حوالے سے عمران خان کا دعویٰ ذہن میں لائیں ان کا کہنا تھا ’’4گولیاں مجھے لگیں، 6میرے ایک باڈی گارڈ کو، 2گولیاں لگنے کا دعویٰ احمد چٹھہ کے حوالے سے کیا گیا، 4گولیاں سندھ کے سابق گورنر عمران اسماعیل کے کپڑوں سے نکلیں‘‘۔

یہ کل 16گولیاں بنتی ہیں۔ فرانزک رپورٹ پر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کی بحث سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ عمر چیمہ کا موقف اگر درست ہے کہ رپورٹ نامکمل ہے تو وہ مکمل رپورٹ سامنے لاکر عوام کو حقائق سے آگاہ کریں۔

دوسری بات یہ ہے کہ وقوعہ ہوا اس سے کسی کو انکار نہیں۔ وقوعہ کی تفصیلات، زخمیوں کی تعداد اور گولیاں لگنے کی رفتار ان پر پہلے دن سے سوالات موجود ہیں۔ ملزم نوید کے 30بور کے پستول سے 12گولیاں چلی ہیں تو وہ جن زخمیوں کو لگیں ان کا ذکر رپورٹ میں یقییناً ہوگا۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایم ایس جی رائفل کس کے پاس تھی ؟ ۔

یہ بھی درست ہے کہ گولیوں کی تعداد اور اطراف سے ہوئی فائرنگ ہر دو کے حوالے سے عمران خان کے بیانات میں تضادات سامنے آئے ۔ اس تضاد سے وقوعہ کی سنگینی کم نہیں ہوجاتی۔ اس سارے معاملے میں جو باتیں دعوئوں کو مشکوک بناتی ہیں ان سب میں ایک تو خود عمران خان کے بیانات ہیں۔ ثانیاً پنجاب کی وزیر صحت محترمہ یاسمین راشد کے بعض اقدامات۔ مثلاً وہ جناح ہسپتال سے عمران خان کے میڈیکل کے لئے جو ٹیم لے کر گئیں وہ قانونی تقاضے پورے کئے بغیر لے جائی گئی۔

ثالثاً وقوعہ کے بعد عمران خان کی سامنے آنے والی چند ویڈیوز ہیں 4گولیاں ٹانگ میں لگی ہوں تو زخمی مریض کی حالت کیا ہوگی اس بارے طبی ماہرین زیادہ بہتر بتاسکتے ہیں۔

رپورٹ کہتی ہے کوئی سنائپر نہیں تھا پی ٹی آئی اور صوبائی مشیر داخلہ بضد ہیں سنائپر نییں بلکہ سنائپرز تھے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کی حکومت ہے۔ جس طرح یہ ایک رپورٹ کو نامکمل اور اپنے دعوئوں کو درست قرار دے رہے ہیں بالکل اسی طرح دوسرے بھی ان کے موقف کو سرکاری دبائو پر گھڑا موقف قرار دے کر مسترد کریں گے۔

اس سیاسی بیان بازی میں دو فائر کرنے والا وہ شخص چھپ جائے گا جس کی ایم ایس جی رائفل کی چلائی دو میں سے ایک گولی مقتول معظم کو لگی۔

نامکمل رپورٹ کا دعویٰ عمر چیمہ کا ہے۔ رپورٹ حاصل کرنے والے صحافی اس کے درست ہونے پر مُصر ہیں۔ اس نئی بحث کے آغاز کے ساتھ ہی ایک بار پھر حملہ کے بعد اٹھائے گئے سوالات میں سے ایک اہم سوال (یہ سوال پی ٹی آئی کے اعجاز چودھری اور چند دیگر کے دعوئوں پر اٹھا تھا) پھر جواب طلب ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر قاتلانہ حملے سے 24گھنٹے قبل تحریک انصاف اور پنجاب کے بڑوں اور خود عمران خان کو بھی معلوم ہوچکا تھا کہ وزیرآباد اور گجرات کے علاقے میں ان کے لانگ مارچ پر حملہ ہوسکتا ہے تو 24گھنٹے یا 16گھنٹے کا وقت ہونے کے باوجود عمران خان اور لانگ مارچ کے حفاظتی انتظامات کے لئے نیا سکیورٹی پلان کیوں نہ وضع کیا گیا؟

یہاں ایک بات اور بھی یاد کرادوں کہ حملے اور منصوبہ سازوں کے ناموں کے حوالے سے عمران خان کے الزام سے قبل یہ بھی کہا جارہا تھا کہ یہ حملہ منصوبہ بندی کا حصہ ہے اور اس کا مقصد کچھ عسکری حکام کو دبائو میں لانا ہے۔

سادہ الفاظ میں یہ کہ جس طرح عمران خان ایک بڑے فوجی افسر کو موردالزام ٹھہرارہے تھے اسی طرح ان کے کچھ ناقدین اس بڑے افسر اور اس وقت بہاولپور میں تعینات جنرل (ر) فیض حمید کے درمیان موجود اختلافات کو بیان کرکے یہ تاثر دے رہے تھے کہ منصوبہ بندی کرنے والوں کا مقصد ہی یہی تھا کہ ریاست کے ایک بڑے محکمے کو دبائو میں لایا جائے۔

اب اگر دونوں طرف کے دعوئوں پر بات کی جائے تو یہ درست تھے یا غلط، اس کا فیصلہ کیسے ہوگا؟

یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر ان دنوں یہ کہا جاتا رہا کہ ملک کی تین بڑی ایجنسیوں کے نمائندوں اور دیگر ماہرین پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی جائے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی اور پنجاب حکومت اس تجویز کے خلاف تھے جبکہ وفاقی حکومت پنجاب حکومت کی جے آئی ٹی کو اس لئے مسترد کررہی تھی، سی پی او لاہور ایک معطل شدہ (اب سپریم کورٹ نے سروس ٹربیونل کے فیصلے کو معطل کردیا ہے) پولیس افسر ہیں جنہیں ان کی سیاسی وفاداریوں پر قانون کے مطاق خدمات واپس لے لی گئی ہیں۔

اسے جے آئی ٹی کا سربراہ بنانا سیاسی مقاصد کے حصول کا ایک طریقہ ہے۔

وزیرآباد حملے کے بعد کے دعوئوں اب فرانزک رپورٹ اور پھر اس کے درست و نامکمل ہونے پر اصرار یہ سارے معاملات کیا پورا سچ سامنے آنے دیں گے؟ یا پھر یہ بھی ارشد شریف کے قتل کو سیاسی رنگ دے کر اصل معاملات سے توجہ ہٹانے جیسا معاملہ ہی ہوگا۔

بادی النظر میں یہ سوال بہت اہم ہے۔ اس سے صرفِ نظر مشکل ہوگا۔

کالم کے اس حصے میں یہ جان لیجئے کہ توہین الیکشن کمیشن کے مقدمے میں گزشتہ روز تحریک انصاف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ عمران خان کی صحت سفر کرکے اسلام آباد میں پیش ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ فواد چودھری کی والدہ بیمار ہیں اور اسد عمر کی فلائٹ تاخیر کا شکار ہوئی اس لئے سماعت ملتوی کردی جائے۔

سماعت 17جنوری تک کے لئے ملتوی کرتے ہوئے ا لیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ’’تاریخ تاریخ کھیلنے سے معاملہ حل نہیں ہوگا‘‘۔ ویسے عمران خان کی صحت نے انہیں اس وقت کیسے سفر کی اجازت عطا کردی جب وہ 26نومبر کے جلسہ سے خطاب کرنے لاہور سے راولپنڈی پہنچے تھے؟

سپریم کورٹ نے گزشتہ روز توہین الیکشن کمیشن کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے اعتراضات کا بھی جائزہ لے۔ یہ بھی کہ سندھ اور لاہور ہائیکورٹس نے فیصلہ کرنے سے روکا ہے کارروائی کرنے سے نہیں۔

بہرطور الیکشن کمیشن نے 17جنوری تک سماعت مکمل کرتے ہوئے عمران خان، فواد چودھری اور اسد عمر کو آخری مہلت دی ہے۔ تحریک انصاف کے لئے حکم امتناعیوں کی جس طرح ’’بہار‘‘ لگی ہوئی ہے اس پر اسکے ناقدین جو کہہ رہے ہیں یہ سب کہنے سے بہتر ہے کہ حکم امتناعیوں کو چیلنج کیا جائے۔

ادھر تحریک انصاف نے گزشتہ روز اتحادی حکومت کی آٹھ ماہ کی کارکردگی پر وائٹ پیپر بھی جاری کیا ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹکیسٹائل سیکٹر کے 15لاکھ ملازمین بیروزگار ہوئے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے اعدادوشمار درست ہیں۔

یہ بھی کہا گیا کہ لاکھوں افراد ملک چھوڑ گئے۔ تین دن قبل پی ٹی آئی نے ساڑھے 7لاکھ افراد کے ملک چھوڑ جانے کو صلاحیتوں کا قتل قرار دیا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ اولاً تو ٹریولنگ ہسٹری کو من پسند انداز میں پیش کیا گیا۔

ثانیاً یہ کہ اگر واقعی ساڑھے سات لاکھ ’’ہنرمند‘‘ افراد 8ماہ میں ملک چھوڑ گئے ہیں تو یہ دیکھنا ہوگا کہ امیگریشن کے قوانین کے تحت ان افراد نے کب بیرونی اداروں سے ملازمت کے لئے رابطہ کیا تھا۔

عمران خان نے کہا ہے کہ معاشی دلدل سے نکلنا ہے تو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ بہت مناسب ہوتا اگر عمران خان یہ وضاحت بھی کردیتے کہ ان کے دور حکومت میں آئی ایم ایف سے جو معاہدہ ہوا تھا انہوں نے اس سے محض لوگوں کی واہ واہ کے لئے انحراف کرتے ہوئے بجلی اور پٹرولیم پر سبسڈی کیوں دی؟ معاہدہ سے ان کے انحراف پر آئی ایم ایف نے پہلے قسط روکی تھی بعدازاں ان کی حکومت سے مذاکرات معطل کردیئے۔

مندرجہ بالا سوال کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ اب سب اچھا ہے یا ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں رواں دواں ہیں، حالات پہلے سے خراب ہیں۔ خود عمران خان کے دور میں بھی گسٹاپو ٹائپ پروپیگنڈہ زیادہ اور اصلاح احوال کیلئے کام کم ہی ہوا پھر بھی اتحادی حکومت کو پی ٹی آئی کے وائٹ پیپر کے جواب میں اعدادوشمار کے ساتھ وضاحت کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author