حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( شہید سید محسن نقوی چند یادیں کچھ باتیں )
’’ریزۂ حرف‘‘ کے پیش لفظ میں سید محسن نقوی لکھتے ہیں
’’میں سخاوتِ حلقۂ دوستاں سے زیادہ ملامت صفِ دشمناں کا مقروض ہوں کہ یہی قرض مجھے ہر لمحہ اپنے آپ ایذا پسندی اور آفاقی دل شکستگی سے روشناس کرات ہے‘‘۔
مجھے یقین ہے کہ ’’عصری استحصال‘‘ کی مسموم آندھی وقتی طور پر تو کسی صاحب فن کی ذہنی شکست اور فکری ریاضت کی شاخِ شاداب کو بے ثمر کرسکتی ہے مگرا دب میں بھی ’’حساب کا دن ‘‘ معین ہے۔ حساب کا دن جو بے رحم ساعتوں کے اٹل فیصلوں سے عبارت ہے‘‘۔
سچ یہی ہے کہ مضافات کے قصبوں اور شہروں سے اٹھے اہل علم و ادب اور آوازوں کے لئے خود کو منوانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ادبی دھڑے بندیاں، پسندوناپسند اور واہ واہ کی گھمن گھیریوں میں زندہ وہی رہتے ہیں جو اپنے عصر اور زمین سے جڑے ہوں اور یہ بھی جانتے مانتے ہوں کہ زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ ’’بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں ‘‘۔
سید محسن نقوی کے شعری سفر کا آغاز ’’بند قبا‘‘ سے ہوا۔ یہ مجموعہ اوائل جوانی کے دنوں کی یادگار ہے۔ ان کی زندگی میں درجن بھر کےقریب شعری مجموعے شائع ہوچکے تھے شہادت کے بعد ’’حق ایلیا‘‘ اور ’’میراث محسن‘‘ شائع ہوئے افسوس کہ رزق سے بندھی ہماری ہجرتوں کے باعث ان کے خطوط مجھے تلاش کے باوجود نہیں ملے۔ مل جاتے تو یہ بیس بائیس خطوط ادب، تاریخ اور تحقیق و حق آگہی کی متوالی آئندہ نسلوں کے لئے اثاثہ قرار پاتے۔
ہر چند دن بعد کچھ بندھے ہوئے لفافے اس آس پر کھولتا پرولتا ہوں کہ شاید اس میں محسن بھائی کے خطوط مل جائیں گے جو انہوں نے 1986ء سے 1995ء کے درمیانی برسوں میں اس قلم مزدور کو لکھے تھے جو انہیں عزیز جاں رہا ۔
میرے لئے بھی وہ ایک بڑے بھائی اور شفیق بزرگ تھے۔ ہمارے شاعر دوست شعیب ہمیش نے ایک دن ہم سے کہا ’’شاہ جی، اگر آپ شہید محسن نقوی کے ساتھ اپنے تعلق کے سانجھے برسوں محفوظ خطوط اور کلام کو ترتیب دے کر ایک کتاب لکھ دو تو اردو ادب کے طالب علموں کو مزید تحقیق کے لئے بہت سہولت ہوجائے گی۔
یہ فرمائش نما مشورہ کچھ غلط نہیں تھا کاش سال 1997ء میں شعیب ہمیش کی بات مان لی ہوتی۔ اس طور یہ محفوظ اثاثہ ہجرتوں کی بھینٹ چڑھنے سے محفوظ رہ جاتا۔
ان کی ایک مشہور زمانہ نظم ’’چلو کے پھر تشنگی کا انتقام لیں فرات سے‘‘۔ ہفت روزہ ’’رضاکار‘‘ لاہور میں شائع کی تھی۔ تب انقلاب زدہ ایک نوجوان نے رات گئے پریس پہنچ کر پرنٹنگ پلیٹ سے ان کا نام کھرچ دیا۔
اگلی صبح جب ’’رضاکار‘‘ دفتری کے ہاتھوں ترتیب پاکر دفتر پہنچا تو محسن بھائی کی نظم تو موجود تھی لیکن اس پر ان کانام نہیں تھا۔
کاش وہ سابق انقلابی (سابق اس لئے کہ آج کل وہ کچھ کچھ لبرل کچھ کچھ جمہوریت پسند ہے) یہ بھونڈی حرکت نہ کرتا۔ نظم سے ان کا نام اتارے جانے پر ایک تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔
جعفر علی میر ابھی حیات تھے انہوں نے اپنے ہفت روزہ جریدے میں مجھے خوب رگیدا لمبا چوڑا مضمون لکھا۔ ’’رضاکار‘‘ کی اگلی اشاعت میں ہم نے بھی انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ پھر محسن بھائی کا فون آیا، بولے راجی (وہ مجھے ہمیشہ میرے نک نیم سے مخاطب کرتے تھے) گھر جاتے ہوئے پہلے میرے پاس آنا۔
میں ان دنوں ماڈل ٹائون کے این بلاک والے فلیٹس میں رہتا تھا۔ محسن بھائی اپنے آباد کردہ ’’ریزہ نجف‘‘ نشتر بلاک اقبال ٹائون میں ۔
عصر کے بعد ان کے ہاں پہنچا تو جعفر علی میر پہلے سے ہی ڈرائنگ روم میں براجمان تھے۔ مجھے دیکھتے ہی محسن بھائی بولے، جعفر علی میر یہ راجی میرا بھائی ہے انقلابیوں میں پھنسا ہوا ہے نظم سے نام اتارے جانے میں اس کا قصور نہیں انقلابی برداشت نہیں کرپائے کہ محسن نقوی کا نام رضاکار میں شائع ہو۔ پھر بھائی جان کے حکم پر جعفر علی میر نے اٹھ کر مجھ سے معذرت کی یوں وہ کالموں کالمی والی لڑائی بند ہوگئی۔
میں ان کے لئے ویسا ہی چھوٹا بھائی تھا جیسے ماں جائے ہوتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے میں رہنمائی کرتے۔ کچھ انٹ شنٹ لکھ دیتا تو ٹیلیفون پر یا خط کے ذریعے خاصی کلاس لیتے اور رہنمائی کرتے۔ بسا اوقات فون کرکے کہتے ’’راجی فلاں کتاب فلاں پبلشر نے شائع کی ہے اسے ضرور پڑھو‘‘۔ ان کی رہنمائی پر درجنوں کتب خریدیں اور پڑھیں۔
جب بھی ملاقات ہوتی اچھے ممتحن کی طرح امتحان لیتے ہم اس کتاب پر مکالمہ کرتے۔ مجھے کبھی بھی اس اعتراف سے گریز نہیں ہوا کہ آج جوکچھ ہوں اس میں محسن بھائی کا بہت عمل دخل ہے۔ مجھ نکمے کی انہوں نے بہت رہنمائی کی۔ یہاں تک کہ میری امڑی جان سے اجازت لے کر شیخوپورہ میں مقیم سونی پتی زیدی سادات کے ہاں میرا رشتہ لے کر گئے پھر یہ رشتہ بن گیا، ابھی تک قائم ہے۔
محسن بھائی بڑے شاعر تھے، ادیب یا خطیب؟ میری دانشت میں وہ ہر میدان کے شہسوار تھے انہوں نے خود کو منوایا اتنا منوایا کے ہر سو اعتراف ہوا۔
لگ بھگ اٹھارہ انیس ماہ انہوں نے پی ٹی وی لاہور سے ایک ہفتہ وار ادبی پروگرام کی میزبانی بھی کی۔
ہمارے ایک مشترکہ دوست مرحوم سید شرافت نقوی اس پروگرام کے پروڈیوسر تھے۔ دونوں کی جوڑی بھی کمال کی تھی اور پروگرام بھی مقبول ہوا۔ میری کتاب ’’قیدی کے خطوط، دل و جاں کی بستاں ‘‘ پر انہوں نے پی ٹی وی کے ادبی پروگرام میں تبصرہ کیا، دعائیں بھی دیں۔
نشتر بلاک میں ان کی اقامت گاہ ’’نجف ریزہ‘‘ کا ڈرائنگ روم ان کی لاہور میں موجودگی کے دنوں میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ممتاز لوگوں سے بھرا رہتا۔ ظفر نقوی، مبین ملک، ان کی اہلیہ انجمن، ڈاکٹر سلیم اختر، کرکٹر عبدالقادر مرحوم، نوجوان (اس وقت) شاعر رضی حیدر، ظفریاب حیدر سمیت بہت سارے لوگ تقریباً روزانہ آتے ان میں پیپلزپارٹی کے مقامی دوست بھی شامل تھے۔
میں ابھی ’’رضاکار‘‘ میں ہی تھا کہ ان کا حکم ہوا کہ کل سے مساوات کے لئے کالم لکھنا۔ اگلے دن سے مساوات کے لئے کالم لکھنا شروع کیا پہلے پہل ہفتہ میں تین کالم لکھتا تھا پھر ’’رضاکار‘‘ سے الگ ہوکر ’’زنجیر‘‘ سے منسلک ہوا تو ہفتے میں پانچ چھ کالم لکھنا پڑتے تھے۔
مساوات میں ہی انہوں نے ایک دن اردو کے معروف ترقی پسند ادیب حمید اختر صاحب ( اس وقت مساوات کے چیف ایڈیٹر تھے ) کے حضور پیش کرتے ہوئے کہا یہ میرا راجی ہے چھوٹا بھائی اسے آپ کی شاگردی میں حاضر کررہا ہوں۔
اب امتحان مزید سخت ہوگیا۔ کالم پہلے محسن بھائی پڑھتے تھے پھر وہ حمید اختر صاحب کو بھجوادیتے۔
قلم مزدوری کے ان دنوں میں دونوں کی ڈانٹ ڈپٹ رہنمائی اور تصیح اگلے برسوں میں بہت کام آئی۔
محسن بھائی کیا شاندار انسان تھے۔ خوش لباس، خوش گفتار، چنے کی دال اور گوشت ان کا پسندیدہ کھانا تھا۔ بلیک کافی شوق سے پیتے۔ دوستوں کی محفل آباد ہوتی اچانک کہتے یارو بس پانچ دس منٹ۔ پھر ایک نئی غزل یا نظم ڈرائنگ روم میں موجود دوستوں کو سناتے۔
ان آباد محفلوں کے درمیان لکھی گئی ایک غزل میں محسن بھائی کہتے ہیں
ڈس لیں گی خود شاخیں سبز پرندوں کو
صحرائوں کی ویرانی پر کھولے گی
چل دیں گے جب لشکر لوٹ کے لاشوں کو
دھول کی چادر اوڑھ کے دھرتی سولے گی
اپنی بدقسمتی کو اکثر کوستا رہتا ہوں ان کے ہاتھ سے تحریر کردہ اس غزل سمیت کئی غزلوں اور نظموں کے عکس برسوں محفوظ رکھے پھر ہجرتوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔
بچھڑا تو دوستی کے اثاثے بھی بَٹ گئے
شہرت وہ لے گیا مجھے رسوائی دے گیا
یا یہ کہ
رہگزار نجف ہی کافی ہے
ہم فقیروں کی رہبری کے لئے
محسن بھائی اس ملک میں تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی بھڑکائی فرقہ وارانہ دہشت گردی کا نشانہ بن کر دنیا سرائے سے رخصت ہوئے۔
1990ء کی دہائی میں اس بدخت فرقہ وارانہ دہشت گردی نے محسن بھائی سمیت بہت سارے پیارے چھین لئے۔ مون مارکیٹ دبئی چوک لاہور میں ان کی شہادت کے بعد ان کا ایک شعر بہت معروف اور زبان زد عام ہوا۔
یہ شعر ان کے مجموعہ کلام ’’عذابِ دید‘‘ کے بیک ٹائٹل پر موجود ہے۔
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا؟
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سُرخرو کرے!
افسوس کہ یہ نظام ان کے قاتل کو 26سال گزرجانے کے باوجود منطقی انجام تک نہ پہنچاسکا وہ ابھی تک جیل میں عیش کی زندگی جی رہا ہے
محسن بھائی ہمارے درمیان نہیں رہے یہ ایک عمومی بات ہے لیکن سچ یہ ہے کہ وہ ہم سب کے دلوں میں بستے ہیں۔ میں تو اکثر اپنی لائبریری میں بیٹھ کر انہیں یاد بھی کرتا ہوں اور ان سے ڈھیروں باتیں بھی کرلیتا ہوں۔
محسن اپنی موت کا ماتم کیا ہوگا
بین کرے گی رات اُداسی رو لے گی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ