نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ابھی اور بہت کچھ یاد آئے گا، رُکو تو ذرا۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آڈیو ویڈیو لیک کے کھیل میں انصافی دوست پیپلزپارٹی کی محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی اور (ن) لیگ کا پروپیگنڈہ یاد کروارہے ہیں۔ کاش کسی دن وہ عمران خان کے محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف 1994ء میں بولے گئے ان الفاظ کو بھی یاد کرلیں جنہیں سن کر کسبیوں نے بھی انگلیاں دانتوں میں دبالی تھیں۔
پچھلے چار برسوں میں جس شدومد کے ساتھ سوشل میڈیا پر انصافی پیجز اور مجاہدین زیرتعمیر ریاست مدینہ ’’ٹو‘‘ نوازشریف کی بیٹی مریم نواز کی عزت اچھالتے رہے، مریم اورنگزیب کو کیا کہتے ہیں یہ۔ محترمہ شیری رحمن اور سیدہ شہلا رضا کے لئے ان کے ’’پاکیزہ‘‘ خیالات کیا رہے اور ہیں ان پر بحث یا انہیں یاد دلانا فضول ہے۔
مروجہ سیاست کے رنگ ڈھنگ نرالے ہیں۔ جب تک ہاتھ اپنے گریبانوں تک نہ پہنچیں اور بات اپنی چاردیواری سے نہ ٹکرائے سبھی کو لگتا ہے کہ ہم جوکررہے ہیں وہ درست ہے۔ مثلاً متاثرین عمران خان کے نزدیک عمران خان کا مخالفین کو گیارہ سالہ اوئے توئے بے شرم چور، بھگوڑے، ملک پر بوجھ قرار دینے کا پروگرام دیانت و صداقت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔
وزیراعظم کے طور پر وہ جنرل باجوہ کو ’’شدید‘‘ جمہوریت پسند اور اپنی پالیسیوں کی کامیابیوں کا بڑا معاون قرار دیتے تھے اب کہہ رہے ہیں باجوہ ملک دشمنوں سے بھی بڑا ملک دشمن ہے۔ اصولی طور پر صرف باجوہ نہیں ہر وہ شخص وردی پوش یا بغیر وردی والا ملک دشمنوں سے زیادہ خطرناک ہے جس نے ایک طاقتور ٹولے کی ڈکیتیاں چھپانے کے لئے یہ پروپیگنڈہ کروایا گیا کہ صرف سیاستدان چور ہیں۔
سیاستدانوں میں اچھے بھلے اور غلط لوگ ہوں گے یقیناً ہوں گے لیکن کیا صرف سیاستدان غلط، چور اور بے شرم ہیں؟
جس شخص کی بیٹی کی شادی میں 36نئی گاڑیاں ٹھیکیدار سلامی میں دیں وہ دانشور ہے۔ جس کے بھائی کا مال دبئی لے جانے والی پکڑی جائے اور وہ ایک دھانسو صحافی اور اس وقت کے وزیر داخلہ کے ذریعے ملبہ آصف علی زرداری پر ڈالوادے وہ کیا ہے۔ وہ شخص کیسے ایماندار ہوگا جو اپنے محکمہ کا سربراہ بنتے ہی یوکرائن سے اسلحہ کی ڈیل رحمت شاہ آفریدی سے لے کر اپنے سالے کو دے دے ۔ اُسے کیا کہنا ہے؟
آپ کہیں گے لوگوں کے نام کیوں نہیں لکھے۔ کیوں لکھو، آپ آنکھیں کھول کر چار اور کی صورتحال کا جائزہ کیوں نہیں لیتے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین اور پرانے محب وطن خاندان آجکل محافظان کے گلے پڑے ہوئے ہیں لیکن ساعت بھر کے لئے رکیں پچھلی نصف صدی کا ایک تجربہ بتائیں جس نے ’’بیک فائر‘‘ نہ کیا ہو۔
میرے کچھ دوست اور قارئین شکوہ کرتے ہیں کہ صرف عمران خان کی مخالفت کیوں؟ لیکن یہ دوست اور قارئین کبھی اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ کیا انہوں نے کبھی عمران خان کی حمایت کرنے والے صحافیوں، یوٹیوبرز اور اینکروں سے پوچھا کہ عمران کے سیاسی مخالفین کی کردار کشی کیوں؟
یہ سوال اس لئے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ عمران کے بعض حامی کھلے عام اعتراف کرچکے کہ ہمیں تو ایجنسیوں نے (ن) لیگ اور پی پی پی کے لوگوں کی کرپشن کی فائلیں دیکھائی تھیں۔ ایجنسیوں کے ’’دھندے‘‘ پر سیاست اور پروپیگنڈہ کرنے والے کم از کم ہم ایسے قلم مزدوروں کو نہ بتائیں سمجھائیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔
کرپشن اور اقربا پروری کے خلاف عمران کی 26سالہ جدوجہد کا نتیجہ یہ ہے کہ خود ان کا ہی نہیں اہلخانہ، دوستوں اور عزیزوں کے دامن بھی کرپشن کے داغوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
یہ بازاری الزام ہیں۔ لگانے والے اندھے حمایتی۔ سب سفید جھوٹ ہے۔ نیوٹرل کا پھیلایا ہوا گند ہے۔ واہ سبحان اللہ۔ اکتوبر 2011ء سے اب تک عمران اور اس کے حامی مخالفین کے خلاف ایجنسیوں کی فراہم کردہ گندگی اچھالتے پھرتے ہیں اس پر سر دُھنا جائے کیا؟
کڑوا سچ یہ ے کہ مخالفین کے خلاف جس بازاری لب و لہجہ اور سوقیانہ پن کا مظاہرہ عمران خان نے کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے حامی انہیں ایک اوتار کی طرح پارسا سمجھتے ہیں۔ سمجھنا بھی چاہیے ہندو پاک کے سماجوں خصوصاً مسلم سماج کی پرانی متھ ہے چور سے قطب بنانے کی۔
یہ ایک مثال ہے الزام ہرگز نہیں۔ کیونکہ ان سطور میں ہمیشہ عرض کیا کہ الزامات پر میڈیا ٹرائل سے بہتر جگہ عدالت ہے۔ یہ بھی عرض کرتا رہا کہ اگر کسی کرپشن کیس کا دس بارہ سال میں فیصلہ نہیں ہوتا تو کیس بنانے والے، تفتیشی اور عدالت مساوی طور پر ذمہ دار ہیں۔ لیکن کیا کریں یہاں باوا آدم ہی نرالا ہے۔
چلیں بات کو اچھی طرح سمجھانے کے لئے عشرہ بھر قبل کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔
’’چند برس قبل پولیس مقابلے میں ساتھیوں سمیت مارے گئے ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کی درخواست ضمانت سپریم کورٹ میں زیرسماعت تھی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری تھے ان کا ہی بنچ نمبر ایک درخواست کی سماعت کررہا تھا۔ جناب افتخار چودھری تک کسی ذریعے سے رسائی حاصل کی ان کی خدمت میں عدالت سے ضمانت مانگنے والے دہشت گرد کا لکھا ہوا کتابچہ ’’انتقام حق‘‘ اور اس کے خلاف ملک بھر میں درج ایف آئی آر کی نقول کے ساتھ کچھ شواہد پیش کئے۔ مزید تفصیلات زبانی عرض کیں۔ یہ بھی عرض کیا کہ موصوف نے ایک سو انسانوں کو صرف اس لئے قتل کیا کہ ان کے بقول یہ قتل جہاد کا درجہ رکھتے تھے اور جہاد آخری سانس تک جاری رہے گا‘‘۔ افتخار محمد چودھری نے ساری گفتگو کے بعد ایک بار ملاقات کے لئے لانے والے صاحب کی طرف دیکھا پھر ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا
’’آپ ایک وکیل کے ذریعے اس کیس میں پارٹی بننے کی درخواست دیجئے ” عرض کیا اخبار نویس کا کام معلومات جمع کرنا، خبر دینا، تجزیہ کرنا ہے
چونکہ اس کیس میں رانا ثناء اللہ خان ضمانت حاصل کرنے کے لئے درخواست دائر کرنے والے کے سفارشی ہیں اور دو بار آپ سے ملاقات بھی کرچکے اس سلسلہ میں تو ہم نے بھی مناسب سمجھا کہ آپ سے مل کر مقدمہ کا دوسرا رخ آپ کے سامنے رکھا جائے۔ بہرحال اس ملاقات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے بنچ نے سو قتل کرنے والے دہشت گرد کی ضمانت لے لی‘‘۔
یہ رہا ہے اس ملک میں انصاف کا معیار۔ لیکن اس معیار کے ذمہ دار تنہا منصفین نہیں ہیں دوسرے حصے دار بھی ہیں اس صورتحال کے ۔ بس ہم اور آپ دوسرے حصہ داروں کا نام لیتے ہوئے ڈرتے ہیں۔
یہ ڈر راتوں رات پیدا نہیں ہوا بلکہ نصف صدی میں کاشت ہوا ہے ۔ بالکل ویسے جیسے نصف صدی سے منظم انداز میں اہل سیاست، جمہوریت، پارلیمانی نظام کے خلاف پروپیگنڈہ ہورہا ہے۔ اس نصف صدی کے دوران اسٹیبلشمنٹ نے مقاصد کے حصول کے لئے جتنی بھی لسانی، فرقہ وارانہ مسلح تنظیمیں بنوائیں وہ عین اسی طرح بالآخر اسٹیبلشمنٹ کے گلے پڑیں جیسے انصافی اور ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین اب گلے پڑے ہوئے ہیں اور خود اسٹیبلشمنٹ والوں کے بعض حاضر ریٹائر خاندانوں میں بھی ’’بھونچال‘‘ ہے اس معاملے پر۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ اگر عمران ان کی اہلیہ دیگر عزیزوں، چند دوستوں اور کابینہ کے ارکان پر لگائے جانے والے الزام خودساختہ اور ایجنسیوں کے گھڑے ہوئے ہیں تو ان الزامات کا کیا کرنا ہے جو بقول عمران خان انہیں خود دو بڑی ایجنسیوں نے بتائے؟
خفیہ ایجنسیاں کسی بھی ملک کی ہوں وہ جب فرد اور گروہ کو اپنی ضرورتوں کے لئے استعمال کررہی ہوتی ہیں تو فرد اور گروہ چوتھے آسمان پر پرواز کررہے ہوتے ہیں لیکن جب ضرورت ختم ہونے پر ان کے لئے عنایات و رسائی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے جو ہمارے سامنے ہے۔
برسوں سے میں ان سطور میں عرض کررہا ہوں سیاستدان کہلانے والوں کو اپنے معاملات خود طے کرنا چاہئیں اور سیاست بھی اپنے زور بازو پر۔ پڑھنے والے اس امر سے آگاہ ہیں کہ تحریر نویس نے اپریل کے بعد سے مسلسل کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دینے والے ریاست بچائو کا چورن جتنا مرضی بیچ لیں، تاریخ میں مجرم ہی قرار پائیں گے کیونکہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو اس کی اپنی بنائی ریت کی عمارت کے نیچے دبنے سے محفوظ کرلیا۔
مکرر عرض کرتا ہوں عمران خان پہل کریں ان ساری آڈیوز اور الزامات کو عدالت میں چیلنج کردیں حکومت کے پاس ثبوت ہوں گے تو عدالت میں لائے گی نہیں ہوں گے تو رسوا ہوگی۔ مشورہ مفت ہے ماننا نہ ماننا ان کی مرضی ہے البتہ واویلے کی ضرورت نہیں نہ یہ کہنے کہی کہ یہ سب نیوٹرل کا کیا دھرا ہے کیونکہ آپ بھی تو نیوٹرل کا دیا شکار کھاتے، دہن کو لذتیں فراہم کرتے رہے ہیں

یہ بھی پڑھیں:

About The Author