نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تنقیدی شعور اور فلسفہ اصلاح||اسلم اعوان

ان لوگوں کے الفاظ کتنے ٹھیک ہوتے ہیں جو کوئی احمقانہ دعوی کیے بغیر اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے کرتے ہیں، امر واقعہ یہ ہے کہ جنرل باجوہ کی خوبیاں وراثتی اور خامیاں اسی زمانہ کی عطا کردہ ہیں جس میں ہم زندہ ہیں کیونکہ ہر عمل وراثت اور ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن ہمارے میڈیا ماہرین اور نصاحین انتہائی انکساری کے ساتھ اس محاسبہ میں اپنے وجود کو شمار نہیں کرتے، وہ یہی سمجھتے ہیں کہ زندگی محض خارجی طاقتوں کا منفعل نتیجہ ہے۔

اسلم اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آرمی کی چین آف کمانڈ میں تبدیلی فوج کی اگلی نسل کو دفاعی ذمہ داریاں منتقل کرنے کا منظم ذریعہ بنکر فطری طور پر ادارہ جاتی ارتقاء کے عمل کی تکمیل کرتی ہے تاہم جنرل مشرف کے مارشل لاء کی ستم کاریوں کے بعد پچھلے پندرہ سالوں میں غیرمعمولی انداز میں دو آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع ملنے سے سروسز چیف کی تبدیلی کا قانونی عمل تنازعات میں الجھ گیا، چنانچہ ہمارے معروضی حالات میں جیسے ہی کسی آرمی چیف کی مدت ملازمت ختم ہو رہی ہو تو ان کی جگہ کون لے گا کا سوال قیاس آرائیوں کا محور بن جاتا ہے، اس ہفتے جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ اور نئے چیف کی تعیناتی اسی رجحان کی غماز تھی جس نے ادارہ جاتی توازن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اگر ہم اپنی حرماں نصیبی کا وسیع تناظر میں جائزہ لیں تو سیاست میں عمران خان کی آمد کے بعد بے رحمی کے ساتھ سیاسی مخالفین کو جھوٹے الزامات کا ہدف بنا کر جس طرح سیاسی روایات اور سماجی رواداری کی تہذیب کو تہس نہس کیا گیا، اس نے سیاسی کلچر کے علاوہ ہمارے معاشرتی نظم و ضبط کو بھی پراگندہ کر دیا، اب ہم نہایت بے حجابی کے ساتھ سوشل میڈیا پہ بسیار گوئی کے ذریعے حفظ و مراتب کی تقدیس اور باہمی احترام کی ہر حدود کو با سہولت توڑ دیتے ہیں اور جس جوش نے آج کل ہماری زندگیوں کا محاصرہ کر رکھا ہے، یہی ہمارے اخلاقی اور سیاسی نظام کو برباد کر رہا ہے۔

ان دنوں سوشل میڈیا کے تمام ٹرینڈز، مین سٹریم چینلز کے ٹاک شوز اور پرنٹ میڈیا کے تجزیوں میں فوجی قیادت کی مذہبی و نظریاتی وابستگیوں، کارکردگی، عزائم، مالی امور اور خاندانی زندگی کی جزئیات تک کو زیر بحث لانا فیشن میں شامل ہو گیا، حالانکہ یہ تنقید برائے تنقید اذیت پسندی کے سوا کچھ نہیں مگر افسوس کہ تاریخی شعور سے عاری ہماری نوجوان نسل اسی خود فریبی کے ذریعے اپنا کتھارسس چاہتی ہے، یوں لگتا ہے کہ اس لاحاصل پیش دستی کے مضمرات کا ادراک کیے بغیر ہر صاحب گفتار آزادی اظہار کے نام پہ مسلمہ اخلاقی روایات کی تلبیس اور سماجی آداب کی ہر حد عبور کرنے کا تہیہ کیے بیٹھا ہے۔

کسی عمل کے جائز و ناجائز ہونے کی بحث سے قطع نظر سماجی انصاف کے اعلی اصولوں کے انسانی فطرت پہ اطلاق کے طریقے نہایت نازک، دقیق اور متنوع ہیں، جس کی ماہیت کا جامع ادراک ہی ہمیں تلخ الفاظ کے مضمرات سے بچا سکتا ہے، تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، جس میں بہت سارے نیک نیت لوگ صحیح راستے پہ چلنے اور اصلاحات کے وہم میں بھٹک گئے، انہی خوش خصال انسانوں نے بظاہر سماج کی تطہیر کے خبط میں مبتلا ہو کر خود اپنے وجود سمیت پورے معاشرے کو تباہی سے دوچار کر دیا۔

اس حوالہ سے صرف اگر برصغیر میں اٹھنے والی ان پرتشدد تحریکوں کا مطالعہ کیا جائے تو کئی چشم کشا حقائق سامنے آئیں گے، جن کے ظاہری مقاصد میں بنیادی آزادیوں سے لے کر فلاح انسانیت کا پورا ایجنڈا شامل تھا لیکن ایسی یک رخی فعالیت کے نتائج انسانی سماج کے علاوہ خود ان عالم گیر سچائیوں کے لئے بھی تباہ کن ثابت ہوئے جن کی اثابت پہ پوری دنیا متفق تھی۔

حیران کن امر یہ ہے کہ جس معاشرے میں ہم جی رہے ہیں اس میں ملاوٹ، رشوت ستانی، بے انصافی، اپنوں اور غیروں کی حق تلفی، بدعنوانی اور دھوکہ دہی اتنی عام ہے کہ اس قسم کی برائیوں کا حامل شخص معمولی سی شرماہٹ تک محسوس نہیں کرتا، شاید ہی ہمارے معاشرے کا کوئی شخص ان علائم سے بچا ہو لیکن ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے بغیر دوسروں کے عیوب اور خامیوں کو اچھالنے اور اصلاح احوال کے لئے تلوار لے کر لڑنے کے لئے سربکف نظر آتا ہے، یہ باہمی کردار کشی کا ایسا کربناک نفسیاتی سرکل ہے، جس میں ہم سب پھنسے ہوئے ہیں اور دائروں کے اس چکر سے ہمیں نکالنے والا بھی کوئی نہیں۔

بیشک، بے مقصد فعالیت اور محوری گردشوں سے فی الاصل کوئی اصلاح تو ممکن نہیں ہو سکتی البتہ ہم سب ایک دوسرے کو رسوا کرنے کی مشق ستم کیش کو ضرور آزماتے رہیں گے۔ زیادہ تر لوگ بہتری کے لئے نہیں، غیر تعمیری مقاصد کے لئے تنقید کرتے ہیں بلکہ دوسرے کی قیمت پر اپنی عزت نفس کو بڑھانا چاہتے ہیں، عیب ڈھونڈ کر یا بشری کمزوریوں پر غصے میں آ کر اپنی برتری جتلانے کی کوشش کرتے ہیں، علمی ماحول میں بھی لوگ بغیر کسی وجہ کے استدلال یا تجزیے میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی نشاندہی کر کے دوسرے کو مرعوب کرنے کوشش کرتے ہیں، ایسی تنقید کبھی تعمیری نہیں ہو سکتی، ایسی نصیحت، وصول کنندہ اور بھیجنے والے، دونوں کے لئے مہلک ثابت ہوتی ہے، زیادہ تر نفسیاتی ماہرین اس امر پہ متفق ہیں کہ نری تنقید لوگوں کو تبدیلی کی طرف راغب نہیں کرتی بلکہ ایک جوابی ردعمل پیدا کرنے کے علاوہ فریقین کے مابین مواصلت کو بیڑیاں لگا کر مثبت تعلقات میں بھی رکاوٹ ڈالتی ہے۔

ایک صحتمند تنقید دراصل مختلف آراء اور کرداروں میں موازنہ یا اچھائی اور برائی کے مابین فرق کو سمجھنے کی اس شعوری مشق کا نام ہے، جس سے انسانی ذہن کا ارتقاء اور رجال کار کی صلاحیتوں کو جلا دینے کے امکانات پیدا کیے جاتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے کا تنقیدی شعور غیر ہمدردانہ ہے اس لئے ہم حکمت کے ساتھ انسانی کمزوریوں کے مداوا کی بجائے تنقید کے نشتر سے خود اور دوسروں کو مسخ کرنے پہ مائل رہتے ہیں، یعنی اصلاح دراصل زندگی کے بارے میں مربوط زاویہ نگاہ اور ایسا ہمہ جہت شعوری عمل ہے جو ناقد و منقود سمیت پورے ماحول کے تزکیہ کا وسیلہ بنتا ہے، اس لئے اصلاحاتی تدابیر میں وسیع تال میل کے علاوہ سچی ہمدردی اور نفسیاتی توازن کا پایا جانا لازمی ہے۔

اس وقت جو لوگ جنرل باجوہ سمیت اعلی فوجی و سول قیادت کو ظالمانہ تنقید کا نشانہ بنا کر ریاستی نظام کو بے اعتبار اور معاشرے کو انتشار کے حوالے کرنے پہ تلے ہوئے ہیں، اگر وہ اپنے گریبانوں میں جھانک لیتے تو دوسروں پہ سنگ ملامت برسانے کے بجائے انہیں اپنی اصلاح کی فکر دامن گیر ہو جاتی۔ کنفوشس نے کہا تھا ”اگر ریاست بدنظمی کا شکار ہو جائے تو موزوں کام اس کی اصلاح کرنا نہیں بلکہ اپنی زندگیوں کو فرض کی ادائیگی والا بنا لیجیے“ ۔

ان لوگوں کے الفاظ کتنے ٹھیک ہوتے ہیں جو کوئی احمقانہ دعوی کیے بغیر اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے کرتے ہیں، امر واقعہ یہ ہے کہ جنرل باجوہ کی خوبیاں وراثتی اور خامیاں اسی زمانہ کی عطا کردہ ہیں جس میں ہم زندہ ہیں کیونکہ ہر عمل وراثت اور ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن ہمارے میڈیا ماہرین اور نصاحین انتہائی انکساری کے ساتھ اس محاسبہ میں اپنے وجود کو شمار نہیں کرتے، وہ یہی سمجھتے ہیں کہ زندگی محض خارجی طاقتوں کا منفعل نتیجہ ہے۔

بیشک، ہم اپنی بیباک اور ضعیف عقل، عمیق اور تاریک وجدان اور حواس کے بے ربط فیصلوں سے مدد لے کر اپنی فانی زندگیوں کو معنی و مفاہیم عطا کر کے اپنے آخری نصب العین کا کامیابی سے اظہار کر سکتے ہیں کیونکہ آزادیوں کا مہمل احساس زندگی کی انہی تصورات کے ذریعے گستاخانہ توجیہہ کرتا ہے لیکن روح کی رفعت اس وقت مرجھا کر ذلت و خواری میں غرق ہو جاتی ہے جب ہم فانی اور ناپائیدار دلچسپیوں کی لذتوں میں کھو کر لافانی قوتوں کی نشو و نما کو بلائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ انسانی کمزوریوں اور دوسروں کی لغزشوں پہ بھڑک اٹھنے والے جذبات ہماری روح کے ہنگاموں اور فساد کو ظاہر کرتے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ ہم بے مقصدیت میں گندھی اپنی تلخ نوائی کے ذریعے نہیں بلکہ ایک مربوط شعوری عزم کے ذریعے جبریت کی طاقتوں کی تسخیر کر سکتے ہیں۔

 یہ بھی پڑھیے:

کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان

اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان

پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان

افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان

عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک

اسلم اعوان کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author