نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

علی منزل….شاکر حسین شاکر کا آئینہ خانہ۔۔۔||سجاد جہانیہ

اس شب بستر پر لیٹ کے ” علی منزل“ اٹھائی اور اس کی ورق گردانی کی تو پتہ چلا کہ یہ ایک نشست میں پڑھنے والی کتاب نہیں ہے۔ یہ تو وہ مے ہے جو جرعہ جرعہ پی جاتی ہے۔ امیر مینائی یاد آئے

سجاد جہانیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ منظر ہیں‘ کچھ یادیں ہیں۔ ناسٹلجیا ہے کہ جس نے خاک کے پردے کی اوٹ میں سوئے لوگوں کو پھر سے کتاب کے صفحات پر بین السطور زندہ کردیا ہے۔ بچپن ہے اور اس کی شوخیاں‘ لڑکپن ہے اور اس کی شرارتیں‘ جوانی اور اس کے آنچل کی رنگین سرسراہٹیں۔ یہ شاکر حسین شاکر کا آئینہ خانہ ہے جہاں ہر طرف یادوں کے عکس ہیں۔یہ ” علی منزل“ ہے۔ وہ حویلی جہاں کبھی وی پی سنگھ کا خاندان رہا اور پھر اسے حاجی برکت علی نے آباد کیا‘ اپنے پانچ بیٹوں کے سا تھ۔ایک سو بانوے صفحات کی یہ کتاب ” علی منزل“ اسی حویلی کی اور اس کے مکینوں کی چھوٹی چھوٹی کہانیوں سے آباد ہے۔ اس ایک حویلی کے اب کئی گھر بن چکے ہیں۔ حاجی برکت علی کے گھرانے کا کوئی فرد ا ب وہاں نہیں رہتا۔ ایسے میں حاجی برکت علی کے ہونہار پوتے شاکر حسین شاکر نے چھوٹی چھوٹی مگر جامع تحریریں یک جا کر کے اس حویلی ” علی منزل“ کو اپنے تخیل اور یادوں کے زور پر پھر سے آباد کیا ہے۔
شاکر حسین شاکر جو خیر سے اب خود نانااور دادا کے مرتبے پر متمکن ہوچکے‘ خطہ¿ ملتان کے نام وَر قلم کار ہیں۔ کتنی ہی جہتیں ہیں ان کی شخصیت کی۔ کمپیئر ، براڈ کاسٹر، ٹیلی وژن میزبان، مقرر، محقق، کالم نگار، تاریخ نویس اور شاعر۔حکومت پاکستان سے تمغہ¿ امتیاز پاچکے تاہم ” علی منزل“ کی صورت میں وہ ایک کہانی گو کی طرح جلوہ گر ہوئے ہیں۔میں نے قصہ گو یا داستان گو کی اصطلاح دانستہ استعمال نہیں کی۔ اس لئے کہ شاکر قصے کو طول نہیں دیتا۔ میر باقر علی کی طرح پوری پوری شب، حجلہ عروسی میں دلہن کا گھونگھٹ اٹھنے کی منظر کشی میں صرف نہیں کرتا۔ وہ فضول خرچ نہیں ہے‘ اسے کم لفظوںاور محدود جملوں میںقصہ کہنے کا فن آتا ہے۔ شاکر کے جملے محسوسات کی ترسیل کرتے ہیں۔ لکھتے ہوئے وہ جن کیفیات کا اسیر ہوتا ہے‘ وہ کیفیات لفظوں کے دوش پر پڑھنے والے تک منتقل کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ سو اُس کو پڑھنے والے کے ہونٹ تبسم کے کھچاﺅاور بصارت نم ہوتی آنکھوں کی بنا پر دھندلاہٹ کا شکار رہتی ہے۔
” علی منزل“ کو پاکستان کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور نے طباعت کے زیور سے آراستہ کیا ہے‘ اور صاحب!کیا خوب آراستہ کیا ہے۔ ایسی خوب روکتابیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ سنگ میل پبلی کیشنز کے مدارالمہام افضال احمد کی شاکر حسین شاکر کے لئے دیرینہ محبت ” علی منزل“ کی طباعت میں نظر آتی ہے۔ کتاب جس روز چھپ کر آئی‘ اسی شام شاکر حسین شاکر نے ایک منفرد نوع تقریب کی طرح ڈالی۔ سویرے گیارہ بجے کے قریب فون آیا کہ ” علی منزل“ چھپ کے آگئی ہے۔ آج شام 4بجے گھر آئیں‘ چائے پئیں گے او رکتاب بھی آپ کو پیش کی جائے گی۔ میں پہنچاتو شاکر حسین شاکر کے پرتکلف ڈرائنگ روم میں بزرگ ادیب پروفیسر صلاح الدین حیدر اور ہمارے نیم بزرگ نیم جواں دوست ناصر محمود شیخ موجود تھے۔ گپ شپ ہوتی رہی اور پھر احباب آتے گئے، کاروان بنتا گیا۔ یہ جبار مفتی چلے آرہے ہیں، ظفر آہیر اور شکیل انجم بھی آن پہنچے ہیں۔ خالد مسعود خاں، پروفیسر نسیم شاہد، شوکت اشفاق، قمر رضا شہزاد، انوار احمد، رضی الدین رضی ، اردو شاعری میں ہائیکو کے موجد پروفیسر ڈاکٹر محمد امین،نام وَر محقق ڈاکٹر مختار ظفر، ضمیر ہاشمی، شفقت عباس ملک، اظہر سلیم مجوکہ، خرم شجرا، اسرار احمد چودھری، سلیم قیصر، محمد زاہد، تحسین غنی، قیصر عباس صابر، شاہد راحیل خان، علی سخن ور، علی رضا خان، ظہیرعباس اور عمران شہزاد ایسے نام وَر لوگ بھی ” علی منزل“ کی پذیرائی کو پہنچے۔
کوئی تقریر نہیں، نہ کوئی تکلف بھری تقریب۔ تمام کا تمام تکلف چائے اور اس کے لوازمات میں اٹھا رکھا گیا۔ سوپ سے آغاز ہوا اور پھر سنیکس کے کورس در کورس۔ کسی فائیو سٹار ہوٹل کی ہائی ٹی تھی گویا….اور پھر فرزندِ شاکر، ثقلین کی باادب سروس۔ ایک ایک کے پاس ایک ایک رکابی شاکر اور ثقلین اپنے ہاتھوں پہنچاتے رہے اور بار بار۔ چائے کے دوران جب ڈاکٹر صلاح الدین حیدر اور ڈاکٹر انوار احمد نے گئے وقت کے بزرگوں کو یاد کرنا شروع کیا تو محفل دو حصوں میں بٹ گئی۔ ڈرائنگ روم میں ” بزرگوں“ کی یہ قدرے سنجیدہ مگر چٹکلوں سے بھرپور مجلس آراستہ تھی جب کہ ڈائننگ ٹیبل کے گرد خالد مسعود خاں کی قیات میں ” جوانوں“ کی منڈلی الگ سے سج گئی….قیصر عباس صابر کے قصے اور خالد مسعود خاں کے چٹکلے قہقہے بکھیرتے رہے۔ بزرگ اور جواں کا ٹائٹل میں نے یونہی نہیں دے دیا۔ اِدھر بزرگوں والے حلقے میں سوپ اور ڈرائی فروٹ سے دو دو ہاتھ کرنے کے باوصف حاضرین گرم کپڑے پہنے بغلوں میں ہاتھ دئیے بیٹھے تھے جبکہ دوسری طرف ڈائننگ روم کا پنکھا چل رہا تھا۔ جوانوں میں سردی کا کیا کام….!! تاہم واضح ہو کہ یہ بندہ¿ِ حقیر ڈرائنگ اور ڈائننگ روم کی سرحد پر براجمان تھا جہاں دونوں جانب کے موسم نے فضا کو معتدل بنا رکھا تھا۔
چائے کا طویل دور ختم ہورہا تھا کہ کتابیں آگئیں اور ساتھ ہی گاجر کا حلوہ بھی…. کتابیں دیتے ہوئے بھی رسمی تکلف سے پرہیز برتا گیا۔ موزوں بیک گراﺅنڈ اور مناسب روشنی والی جگہ تلاش کر کے تصاویر بنانے کے بجائے ہر ایک کو اس کی نشست پر کتاب پہنچا دی گئی۔ دمِ رخصت پورچ میں ایک تصویر بنی جہاں اسرار چودھری، ناصر شیخ اور ثقلین رضا کے مہنگے فون کام آئے اور پینوراما شاٹ سے تمام حاضرین کو ایک ہی فریم میں مقیدکرلیاگیا۔ شاکر کے دوستوں کا‘ ادب اور صحافت کے مہکتے پھولوں کا گل دستہ۔
اس شب بستر پر لیٹ کے ” علی منزل“ اٹھائی اور اس کی ورق گردانی کی تو پتہ چلا کہ یہ ایک نشست میں پڑھنے والی کتاب نہیں ہے۔ یہ تو وہ مے ہے جو جرعہ جرعہ پی جاتی ہے۔ امیر مینائی یاد آئے
نہ لایا ہے شیشہ، نہ جام و سبو
پلاتا ہے ساقی زبانی شراب
یہ تو بتیس راتوں کا مواد ہے۔ سن دو ہزار بائیس کا شہرزاد، شاکر حسین شاکر علی منزل اور اس کے مکینوں کی کہانیاں اپنے مخصوص اسلوب میں کچھ اس طور کہتا ہے کہ شب بھر کی خماری کو ایک کہانی ہی کافی رہتی ہے۔ ایسی جامعیت!! فقط تین صفحات میں آپ حاجی برکت حسین کو کالے منڈی میں تیز قدموں سے چلتا دیکھ رہے ہیں۔ ان کا حقہ تازہ ہورہا ہے اور پھر اُن کے د اعی اجل کو لبیک کہہ دینے تک کی کہانی۔ گویا پوری زندگی کی ایک جھلک ۔ چچا افتخار حسین ابھی نلکا چلوا کر نہارہے ہیں، پھر شادی ہورہی ہے اور ہمارا شاکر اداس ہے کہ تاخیر سے شادی کی بنا پر وہ شہہ بالا نہیں بن سکا اور پھر وبا کے ہاتھوں چچا افتخار حسین کی موت۔ یوں لگتا ہے آپ نے جوانی سے مرگ تک کی زندگی چچا افتخار حسین کے ساتھ گزاری ہے۔ ایسی متنوع کیفیات ہیں ہر کہانی میں کہ قاری کے لئے ایک سے دوسری کیفیت میں فوری منتقل ہونا ممکن نہیں رہتا۔ سو میں علی منزل کے مکینوں کی کہانیاں ایک ایک کر کے پڑھ رہا ہوں۔
میں نے شاکر کو بارہا سٹیج پر بولتے سنا ہے، اُن کی تحریریں بھی پڑھی ہیں۔ ان کے بولنے اور لکھنے کااسلوب ایک ہی ہے۔ بنا بنایا ، گھڑا گھڑایا جملہ بولتے ہیں۔چاہو تو اسے لکھ لو۔ سو پڑھتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے شاکر سامنے بیٹھا کہانی سنارہا ہے۔ اردو زبان کو مقامیت سے روشناس کرانا بھی شاکر کا خاصہ ہے۔ ” پچاس روپے میں خریدا گیا بچپن“ والے مضمون میں انہوں نے لٹو کے بجائے ’ لاٹو‘ کا لفظ استعمال کیا جو بہت بھلا لگتا ہے۔بس یوں جانئے کہ” علی منزل“ ایک شیش محل ہے، ایک آئینہ خانہ جہاں شاکر نے اپنی ماضی کی یادوں والی تصاویر چن چن کر ان کے عکس آئینوں میں سجادئیے ہیں۔ دیکھنے والے کو ان عکس ہائے میں شاکر کے ناسٹلجیا کے ساتھ ساتھ اپنا آپ بھی نظر آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

سجاد جہانیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author