نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بہادر ہوں نہ شہادت کا خواہش مند ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلی شب بلکہ سپہر سے جی اچھل مچل رہا ہے کہ امریکہ میں مقیم احمد نورانی نے لالہ باجوہ فیملی اور ان کے سمدھی کے خاندان کے اثاثوں کے حوالے سے جو خبر بریک کی ہے اس پر تفصیل سے لکھا جائے۔

فقیر راحموں بھی ہلہ شیری دے رہا ہے۔ کالم لکھنے سے قبل چائے کے کپ کے ساتھ 2سگریٹ پھڑکائے۔ دماغ کی کھڑکیاں کھلیں دو باتیں یاد آئیں۔

پہلی یہ کہ 1990ء کی دہائی میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کی صاحبزادی کی شادی کے حوالے سے کچھ تفصیلات کالم میں لکھیں مختصراً یہ کہ صاحبزادی کو 30سے زائد نئی گاڑیاں سلامی میں ملی تھیں جبکہ کراچی کے دو معروف جیولرز میں سے ایک نے سو تولے اور دوسرے نے ڈیڑھ سو تولے سونے کے سیٹ تحفہ میں دیئے تھے ۔

اس تقریب میں شرکت کے لئے مدعو کئے جانے والی کراچی کی اشرافیہ کی فہرستیں جناب بیگ کے حکم سے دو محکموں نے فراہم کی تھیں۔

ان برسوں میں پشاور میں مقیم تھا وہیں کے اخبار میں قلم مزدوری جاری تھی۔ کالم کی اشاعت کے بعد بڑی پیشیاں بھگتیں، تندوتلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ معاملہ گڑبڑ ہوجاتا اگر ایک عزیز نے مدد نہ کی ہوتی۔

دوسرا واقعہ مجاہد حسین کی کتاب ’’پاکستان کو لوٹنے والے‘‘ میں موجود ’’فاتح جلال آباد‘‘ جنرل حمید گل کی نارووال والی اراضی کی تفصیلات کو دو نئے نکات اور ان کی صاحبزادی کی واران ٹرانسپورٹ کمپنی کے لئے حاصل کردہ قرضے اور اس کی عدم ادائیگی کے حوالے سے دو کالم لکھے پھر رولا پڑگیا ایک عدد نوٹس بھی ملا۔

تب تیسرے کالم میں دو قصے لکھنے پڑے اولاً جلال آباد ایڈونچر کا منصوبہ اور ثانیاً حمید گل کی طرف سے جنرل ضیاء الحق کو بھجوائی گئی افغانستان کو تیسرا صوبہ بنانے کی تجویز والا۔

پھر یہ ہوا کہ ہمارے دوست آصف قیوم (صوبہ سرحد کے دو وزرائے اعلیٰ میجر ر آفتاب احمد خان شیرپاو اور مرحوم نصراللہ خان کے سیکرٹری بھی رہے۔ بعدازاں این پی ٹی میں چلے گئے پشاور کے دو بڑے اخبارات میں جنرل منیجر بھی رہے ) کے توسط سے جنرل (ر) حمید گل سے ملاقات ہوئی حضرت بہت بپھرے ہوئے تھے۔

موصوف پائوں زمین پر ہی نہیں رکھ رہے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ ان کی عزت اچھالی گئی۔ صاحبزادی کو بلاوجہ موردالزام ٹھہرایا گیا۔ بہرحال ایک لمبی چوڑی بحث کے بعد عرض کیا آپ خوشی سے عدالت جائیں میں سامنا کروں گا لیکن پتہ نہیں کیوں عدالتی کارروائی کی نوبت نہ آسکی۔

تمہیں طویل ہوگئی۔ احمد نورانی کی سٹوری یقیناً جاندار ہے حوالہ جات موجود ہیں۔ حوالہ جات غلط ہوتے تو ٹیکس تفصیلات لیک ہونے پر وزیر خزانہ نوٹس نہ لیتے۔ 24گھنٹے میں رپورٹ طلب کی گئی ہے ۔ عین ممکن ہے جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے معاملہ ’’حل‘‘ ہوچکا ہو ۔

ساعت بھر کے لئے رکئے مجھے وہ نوجوان رانا نعیم یاد آرہا ہے، 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا تھا ۔ محمد خان جونیجو کی کابینہ میں دفاعی امور کا وزیر مملکت تھا۔ اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس نے دفاعی بجٹ کے آڈٹ اور اس پر قومی اسمبلی میں بحث کے حوالے سے بات کی۔

تقریب کے مہمان خصوصی صدر جنرل ضیاء الحق اپنی نشست سے اٹھے۔ نوجوان وزیر مملکت کو روسٹرم سے ہٹاکر خود کھڑے ہوئے اور بولے

’’سنو نوجوان ہم نے شراکت اقتدار کی ہے انتقال اقتدار نہیں، بڑی بڑی باتیں کرنے سے پہلے سوچ سمجھ لیا کرو‘‘۔

1988ء کے انتخابات میں اس نوجوان کے پاس پیپلزپارٹی کا ٹکٹ تھا۔ آئی جے آئی کے امیدوار سے ہار گیا۔ ہار گیا یا ہروایا گیا؟ سچ یہ ہے کہ ہروایا گیا۔

ہم اور آپ جس ملک میں مقیم ہیں یہ کہنے کو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، بس نام کی حد تک۔ یہ لُولی لنگڑی نمائشی اشرافیائی جمہوریت بس کھلا دھوکہ ہے۔جمہوریت کے نام پر، پڑھنے والے اس امر سے آگاہ ہیں کہ ہمیشہ یہ عرض کیا کہ اشرافیائی (طبقاتی) جمہوریت کے کوچے سے عوامی جمہوریت کی طرف بڑھنے کے لئے راستہ نکالا جاسکتا ہے اس لئے اوکھے سوکھے اسے برداشت کیجئے۔

برداشت کرنے کے علاوہ آپ کر بھی کیا کرسکتے ہیں۔ یہاں ایک معزز ادارے کے عزت مآب حضرات کے قرعہ اندازی کی برکت سے کارنر پلاٹ نکل آتے ہیں۔

برکتوں کا ہی چکر ہے سارا ہم اور آپ برکتوں سے محروم لوگ ہیں اس لئے جلتے بھنتے رہتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کے آخری برسوں میں راولپنڈی کی سبزی فروٹ منڈی میں ایک بم دھماکہ ہوا تھا ایک بڑے میڈیا ہائوس نے تیار شدہ ایڈیشن ضائع کرکے نیا ایڈیشن شائع کیا بدلے میں کاغذ کا کوٹہ حاصل کیا۔ تب نیوز پرنٹ کا پرمٹ ملا کرتا تھا۔

بڑے میڈیا ہائوس اس پرمٹ کی بنیاد پر بیرون ملک سے کاغذ منگوایا کرتے تھے سینکڑوں چھوٹے اخبارات و جرائد اے بی سی کی بنیاد پر نیوز پرمنٹ کا جو کوٹہ حاصل کرتے وہ پرمٹ کاغذ مارکیٹ میں فروخت کردیا جاتا۔ روزی روٹی چلانے کا یہ بھی ایک طریقہ ہوا کرتا تھا۔

کہتے ہیں بچھو سے کسی نے پوچھا تمہارا سردار کون ہے اس نے جواب دیا جس کی دم پر ہاتھ رکھو وہی سردار ہے۔ یہاں سب بچھو ہیں اور سب سردار۔

کرپٹ صرف سیاستدان ہیں۔ کسی دن ہمت کیجئے اسلام آباد سے یہ معلومات جمع کیجئے کہ پچھلے کم از کم چالیس برسوں کے دوران کس کس بیوروکریٹ کی بیگم ۔ دختر و صاحبزادہ کون کون سی این جی او میں اچھے منصب پر رہا۔ ان دنوں فاطمی نام کے ایک صاحب شہباز شریف کے معاون ہیں۔ (ن) لیگ کے پچھلے دور میں نوازشریف کے امور خارجہ کے مشیر تھے۔ ان کی اہلیہ کی این جی او کا رولہ بہت مشہور ہوا تھا۔ پلاٹ کسی مقصد کے لئے لیا گیا اور کمرشل بنیادوں پر تعلیمی ادارہ قائم کرلیا گیا۔

پچھلے صرف 40برسوں کے دوران کس کس بیوروکریٹ، جنرل، جج اور کسی اور ملازم کے بچے غیرملکی تعلیمی اداروں میں پڑھنے گئے۔ کوئی مجاہد صحافی صرف اس کی تفصیلات حاصل کرلے تو چودہ کی بجائے سترہ طبق روشن ہوسکتے ہیں۔

معاف کیجئے گا بات کدھر سے کدھر نکل گئی۔ ہمارا مقصد کسی شخص یا طبقہ کی توہین ہرگز نہیں۔ طبقاتی جمہوریت والے نظام میں بڑے طبقات کے مفادات کا ہی تحفظ ہوتا ہے۔ کیڑے مکوڑوں یعنی رعایا کی کوئی حیثیت نہیں۔ رعایا تو اطاعت کے لئے ہوتی ہے۔

ایک وقت تھا جب اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے والوں کو منہ بھر کے گالیاں دی جاتی تھیں۔ بعض محب وطن تو یہ بھی کہا کرتے تھے، اتنے غیرت مند ہوتو دفع ہوجاو اس ملک سے۔ خود ہمیں پہلے اور اب بھی کئی بار یہ سننا پڑتا ہے ’’تم ایران دفع کیوں نہیں ہوجاتے‘‘۔ اس کے ساتھ ایک جملہ اور بھی ہوتا ہے وہ یہاں لکھنے میں اخلاقیات مانع ہیں مگر امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ سارے مجاہدین حب الوطنی محافظ ناموس مسلح افواج ففتھ جنریشن وار کے کمانڈو آجکل (پچھلے سات ماہ سے) جو کہہ لکھ رہے ہیں جس طرح کے نعرے لگارہے ہیں اس طرح کی باتیں کرنے یا یوں کہہ لیجئے صرف سوال کرنے والے بلوچوں، سندھیوں اور پشتونوں کے ساتھ یہاں کیا ہوتا ہے یہ راز ہائے درون سینہ ہرگز نہیں۔

آج کل یہ ’’نو انقلابیان‘‘ اٹھتے بیٹھتے طعنہ دیتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے نمک خوار ہوگئے ہو، ہنسی آتی ہے۔ اس کی وجہ صرف ان ’’نوانقلابیان‘‘ کے قائد محترم کے روزانہ کی بنیاد پر بدلتے بیانات ہیں ابھی ایک بیان کے فضائل، دفاع کا فرض ادا کررہے ہوتے ہیں کہ ہزار زاویہ الٹے موقف کے فضائل بیان کرنا پڑتے ہیں۔

اس پر دعویٰ یہ ہے کہ ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘۔ باردیگر معاف کیجئے باتیں گڈمڈ ہوجاتی ہیں۔ موسم اور حالات ہی ایسے ہیں۔ ہم بھی گوشت پوست کے انسان ہیں گندم چاول کھانے والے موسموں کےاثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ کیا صرف سیاست کے سینے میں ہی دل نہیں ہوتا۔ انصاف، حب الوطنی ، ایگزیکٹو، میڈیا، مولوی صاحبان اور دوسروں کے سینے میں دل ہے؟

ہر شخص اور طبقہ غرض مند ہے۔ بس بڑے اور چور (ماسوائے "عمران خان” ) سیاستدان ہیں۔

پچھلے دو دن سے سوشل میڈیائی مجاہدین مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے ایک بیان کے چند الفاظ بطور ’’قول‘‘ شیئر کررہے ہیں۔ میں اتنا بہادر نہیں ہوں کہ اسے ان سطور میں نقل کرسکوں۔

ہاں اگر مجھے امریکہ یا کینیڈا کی شہریت مل جائے، فقیر راحموں اور لائبریری کو لے کر یہاں سے نکل جائوں تو پھر میں بھی آپ کو ایسی ایسی کہانیاں سناسکتا ہوں کہ آپ عش عش کراٹھیں گے۔

یہاں رہتے ہوئے سارا حساب سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ مجھے جہاد کا شوق ہے نہ شہادت کا نہ ہی اس بات کا کہ بہادر صحافی کہلائوں۔

ضرورت بھی کیا ہے ان بکھیڑوں میں پڑنے کی۔ یہی وجہ ہے کہ فقیر راحموں کے اکسانے کے باوجود احمد نورانی والی رپورٹ پر کالم لکھنے سے گریز کررہا ہوں۔

ادھر قائد انقلاب عمران خان نے ایک برطانوی اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں دو باتیں کی ہیں پہلی یہ کہ بی جے پی کے ہوتے ہوئے بھارت سے دوستی ناممکن ہے دوسری یہ کہ ملک کے 12کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالنا پہلی ترجیح ہے۔

اللہ جانے ان دو باتوں کو پڑھ کر ہنسی کیوں آرہی ہے۔ کاش کسی دن خان صاحب اوئے توئے کے بغیر اپنے پونے چار سال کے دور کی کارکردگی بھی بیان کریں، امید پر دنیا قائم ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author