سعید اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد خالد اختر اردو کے معروف ادیب ہیں۔ ان کا تعلق بہاولپور سے تھا۔ انگریزی ادب ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ وہ کہتے ”رابرٹ لوئس سٹیونسن میری پہلی اور آخری محبت ہے۔“ وہ سوچتے انگریزی زبان میں تھے اور لکھتے اردو زبان میں تھے۔ ان کی اس عادت نے اردو زبان کو ایک نیا آہنگ بھی دیا۔ انہیں ادیبوں کا ادیب کہا جاتا ہے۔ ان کی تصانیف میں ان کا ناول چاکیواڑہ میں وصال سرفہرست ہے جسے اس کے اسلوب کے باعث فیض احمد فیض نے اردو کا اہم ترین ناول قرار دیا تھا۔
محمد خالد اختر کی دیگر تصانیف میں 2011 ء، کھویا ہوا افق، مکاتب خضر، چچا عبدالباقی، لالٹین اور دوسری کہانی اور یاترا کے نام شامل ہیں۔ بیس سو گیارہ کہیں 1950 کے عشرے میں لکھی گئی۔ یہ ان کا پہلا شائع شدہ ناول تھا۔ جیسا کہ خود اس ناول کی پہلی اشاعت کے دیباچے میں لکھتے ہیں، ”میری فینتاسی ایک ہلکی چیز ہے، ایک لمبا قہقہہ جس میں مصنف اگر ہر وقت نہیں تو زیادہ وقت ہنس رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ مستقبل کے متعلق میرا تخیل لاجیکل ( منطقی) نہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ میری یہ فینتاسی ایک فارس ( farce) بن کے رہ گئی ہے۔ ایک بے ہنگم اور بدراہ سی فارس۔“ مصنف اپنی تحریر کے متعلق کچھ بھی کہیں ایسا ناول شاید کنہیا لال کپور کی اردو میں لکھی فینتاسی، جس کا میں نام بھول رہا ہوں، کے بعد اردو کے فینتاسی کے باب میں میں بڑا اضافہ ہے۔ ناول 2011 کا محل وقوع ہمارا پیارا ملک ہے جسے اس ناول میں ”ماضنین“ کا تخیلاتی نام دیا گیا ہے۔ اور ایسا شاید اس لیے کہ اس ملک کے باشندے اپنی کسی گمشدہ ماضی کی تہذیب کی یادوں میں کھوئے رہتے ہیں۔
جس ملک کا مستقبل کے متعلق کوئی وژن نا ہو اس کی تاریخ فارس ( farce) ہی رہتی ہے۔ ملک ماضنین کے حکمران مضحکہ خیز ہیں۔ یہ ناول ہمارے ملک کی حکمران اشرافیہ پر بہت بڑا طنز ہے۔ ناول کے پڑھنے والے کو یہ بات پریشان کیے رہتی ہے کہ ہم شیطانی دائرے کے کردار ہیں اور نہیں جانتے کہ اس سے کیسے نکلیں۔ ناول کی ایک سطر کی کہانی یوں ہے کہ ایک تخیلاتی ملک یوکنا پوٹاواہا کا صدر پوپو پالنہار چوکا مانیفو ملک ماضنین کے حکمران کا بو کے دعوت نامے پر ماضنین سرکاری دورے پہ آتا ہے۔
ناول کا انداز رپوتاژ کا ہے۔ صدر پوپو ملک ماضنین کے باسیوں کوچار درجوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ”فارغ البال، متوسط الحال، متوسط الحال تر۔ مگر اس کے علاوہ اور کلاس بھی ہے یہ کھلی ہوا کے عاشق ہیں۔ یہ کھلی ہوا میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ شہر کی سڑکیں، چوراہے، پل ان کے اپنے ہیں۔ یہ لوگ بھوکے ہیں اور کئی نیوڈسٹ اور نیچر لسٹ ہیں۔ “ اپنے دورے کے دوران صدر پوپو کی ملاقات وزیر جہالت سے بھی ہوتی ہے۔ ”[ماضنین] کا تعلیمی سلیبس بے حد سادہ اور ٹو دی پوائنٹ کر دیا گیا ہے اور ایک آدمی خواہ ساری عمر ہی تعلیم میں صرف کردے، وہ جاہل ہی رہتا ہے۔
تاریخ اسی اصولوں پہ لکھی گئی ہے اس میں بڑے کابووں اور چھوٹے کابووں کے عہد حکومت اور ان کے اہم کارناموں وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے۔ “ مسٹر پوپو کو وزیر جہالت یہ بھی بتلاتا ہے کہ وہ وزیر صنعت بھی ہے۔ وزیر جہالت و صنعت فخر سے بتا تا ہے کہ اس کے خیال میں، ”پچھلی دنیا کی سب بیماریوں اور مصیبتوں کی جڑ تعلیم پر زور تھا۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تدریجا اور خوشگوار طریق پر اور ان کو جتائے بغیر ایک وسیع جہالت کی طرف لایا جائے۔ حکومت کی ساری مشینری اسی ایک مقصد کے حصول کے لئے کام کر رہی ہے۔ اور ہمیں جو کامیابی ہوئی ہے وہ ہماری توقعات سے بڑھ کر ہے۔ ہمارا آخری مقصد جہالت ہے اور ہماری ہمت اس سے بندھتی ہے کہ وہ جو کھلی ہوا کے عاشق ہیں جن کی تعداد بیس کروڑ ہے نہ ایک لفظ لکھ سکتے ہیں اور نہ پڑھ سکتے ہیں۔ “ وزیر جہالت کیونکہ وزیر صنعت بھی ہیں فخر سے بتاتے ہیں کہ، ”ملک میں آٹا پیسنے کی پانچ چکیاں اور تین گھاس کاٹنے کی مشینیں درآمد کی جا چکی ہیں۔ تم شاید کھلی ہوا کے عاشق کے متعلق سوال کرنے لگے ہو کہ وہ اسی طرح بھوکے ہیں۔ ان کو ہم پچھلے سال مجلس کی قرار داد کی رو سے حقوق ملکی سے محروم کرچکے ہیں۔ “ اگر ملک ماضنین کے حالات اور ہمارے ملک کے حالات میں مشابہت ہے تو اسے محض اتفاق نہ سمجھئے یہاں یہی ہوتا آیا ہے۔
بیس سو گیارہ پڑھنے کے بعد تو ان مسائل کی حقیقت اور واضح ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں سب سے اہم موضوع یہ ہے کہ اگلا آرمی چیف کون ہو گا اور ماضی کا ایک کھلاڑی کیسے لوگوں کو حقیقی آزادی دلانے چلا ہے؟ جب کی بیس کروڑ سے زائد لوگ دو کروڑ کو چھوڑ کے دو وقت کی روٹی کے لئے سرگرداں ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر