نعیم مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست کی روح جتنی نازک اور مزاج جتنا حساس ہے اتنی ہی اس کی طبیعت بھی ناساز ملتی ہے، مگر کیا کیجئے، اسی جمہوری و غیر جمہوری دھوپ چھاؤں ہی میں زندگی گزار دی ہے، اور نجانے مزید کتنی گزرے۔ جو لوگ جمہوریت کو محبوب یا معشوق کے اعلیٰ درجہ پر رکھتے ہیں، ہمیں ان پر ترس آتا ہے، ترس تو اپنے آپ پر بھی آتا ہے مگر ہم نے پچھلی تین سے زائد دہائیوں میں جتنی ’سیاست زدہ‘ جمہوریت دیکھ لی ہے، اب ہمارے اندر سیاسی ’محبوبیت و معشوقیت‘ کی ایسی کمی واقع ہو گئی جیسے کسی جسم میں آئیوڈین کی کمی اور انسولین کی بے وفائی کا سنگین معاملہ ہو۔
نہیں معلوم سیاست کو کسی ڈی این اے سے زیادہ محبت ہوتی ہے یا ایکو سسٹم سے، لیکن جہاں سیاست ڈارک پیریڈ سے نکل کر روشن خدمت اور عبادت کی راہ پر چل نکلی ہے وہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے، برطانیہ کی وزیر اعظم لز ٹرس نے عہدہ سنبھالنے کے چھ ہفتوں بعد استعفیٰ دے ڈالا، چونکہ کہا نہ چنانچہ، نہ اگر مگر کی بازگشت ہی ملی، بس معاشی پروگرام بحال کرنے میں ناکامی کو دل پر لے لیا اور صداقت کو اصول بنا ڈالا، اور تسلیم کر لیا کہ مارکیٹوں کے سخت ردعمل نے کنزرویٹو پارٹی کو تقسیم کر ڈالا ہے۔ سو دلیل کے فقدان میں ہمارے دیسی اسٹائل کی طرح مخالف پر کسی پیالی میں تنقید کا طوفان نہیں اٹھایا جاتا۔
ہم ہیں کہ جن کے حکمرانوں کے پہلے دو تین سال تو ہوتے ہی ہنی مون کے لئے ہیں، پھر جونہی الیکشن کی آمد ہو تو بن دیکھے اور بن سمجھے بجٹ کو تکلیف اور عوام کو ریلیف دینے کا چکر چلتا ہے!
ایک ذرا غور کہ، تھری آرز ( 3 R ’s) کے تاریخی موجد یعنی 1۔ ریلیف، 2۔ ریکوری، اور 3۔ ریفارمز کا عملی فارمولہ فراہم کرنے والے اور ”نیو ڈیل“ کے تحت پہلے سو دن کا کامیاب پلان دینے والے، روزانہ ریڈیو پر بیٹھ کر براہ راست بینکوں اور مالیاتی اداروں کو گائیڈ کرنے، صحت کے امور ہی نہیں دوسری جنگ عظیم میں قوم کو جھونکنے یا نہ ڈالنے کے حتمی فیصلے کی تلوار بھی اس کے سر پر لٹک رہی تھی، دونوں ٹانگوں سے فالج کے سبب معذور بھی تھا مگر مجبور نہیں تھا، جنگ کے سایوں، ملک کے دیوالیہ ہونے کی، بیروزگاری، اور شورش کی نمود کو کہیں بہانہ نہ بنانے والے روزویلٹ (صدر امریکہ 1933 تا 1945 ) نے کہا تھا ”مانا کہ میں سب سے زیادہ زیرک نہیں ہو مگر اسمارٹ دوستوں اور مشیروں کے چناؤ کو تو یقینی بنا سکتا ہوں! “
ایک جگہ روزویلٹ کہتے ہیں کہ ”آدمی قسمت کے سبب قید میں نہیں جاتا اصل میں اس کا دماغ قید قبول کرنے کے درپے ہوتا ہے! “ ہاں وہ ’قید‘ سے یاد آیا پی ڈی ایم والو مانا کہ ’سرکار عالی مرتبت‘ شبانہ روز آپ کو چور ڈاکو کے القابات سے نوازتے ہیں حالانکہ خود بھی ویسے ہی اسمارٹ ساتھیوں کا خوب تجربہ رکھتے ہیں، لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ، اب آپ بھی آرٹیکل 10 اے کی ڈیو پراسس اور فیئر ٹرائل والی شق فراموش کر دیں، دلیل تو پھر دلیل ہے، محض تنقید اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ بہرحال وہ بیتے دن یاد ہیں جب سرکار قبل از انتخابات پہلے 100 دن اور نیا پاکستان کی بات کرتے، کسی سے سن لیا ہو گا کہ، پہلے سو دن اور نیو ڈیل آف روزویلٹ۔ واقعی گر تھری آرز (ریلیف، ریکوری، ریفارمز) ہوں تو زندگی چار دن کی نہیں سو سال کی ہو جائے! گر آ جاتی کوئی نیو ڈیل ”تھری آرز“ والی تو نیا پاکستان ممکن تھا، مگر لانے والے سو دن میں لا سکتے ہیں نہ لا سکنے والوں کے لئے پونے چار سال کیا، ایک عمر بھی ناکافی ہے بے شک وہ عمر خضر ہی کیوں نہ ہو۔
مانا کہ، تنقید، بحث اور سوالات اٹھانا کسی جمہوری ملک کی اٹھان کا بنیادی جز ہوتے ہیں لیکن یہ لازم ہے کہ اصول اور حقائق کا دامن نہ چھوڑا جائے، ایک دلچسپ واقعہ کچھ ہی دن قبل رونما ہوا کہ سابق وزیر اعظم ایک یونیورسٹی میں اپنی تقریر کا آغاز یونیورسٹی کی جانب سے ”دعوت“ دینے کے شکریہ کی ادائیگی سے کرتے ہیں۔ مگر، یہ دعوت دی کس نے تھی؟ طلبہ، اساتذہ یا وائس چانسلر نے؟ اجی، ایک دن قبل شام تک سینیرز کو معلوم تھا نہ طلبہ کو، کہ سرکار تشریف لا رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ، وی سی کو معلوم بھی ہو تو اس نے اساتذہ کو اعتماد میں لیا؟ گمان یہ غالب ہے کہ انہیں بھی آئی ٹی والے معاون نے مجبور کیا ہو گا، جہاں تک ہائر ایجوکیشن کے وزیر کا تعلق ہے وہ سیاست دان ہونے باوجود ڈیسنٹ اور رکھ رکھاؤ والے بندے ہیں۔ ہمیں اعتراض نہیں کہ صاحب ایک یونیورسٹی کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد متعدد یونیورسٹیوں کا پلان رکھتے ہیں، دکھ اس بات کا ہے تربیتی سیمینارز کی آڑ میں سیاسی جلوہ افروز ہونے کی مجبوری کیا ہے؟ سیدھا سیدھا سیاسی رونق افروز ہونے کا اعزاز حاصل کیجئے۔ آپ ’اسٹیٹس مین‘ ہیں تربیت سازی کے نام پر بلاول بھٹو یا کسی سیاسی مخالف کا تمسخر اڑانا زیب دیتا ہے کیا؟ ہم تو فقط اتنا کہتے ہیں چانسلر (پنجاب) سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی مجبوری کو سمجھیں، کہ 18 ویں ترمیم کے بعد وزیر اعلیٰ کا ہائر ایجوکیشن کا چیف ایگزیکٹو ہونا اور وزیر کا پرو چانسلر ہونا ان ممتحن کا امتحان ہے۔ فقط اتنا کہنے کی جسارت ضرور کریں گے، مولانا فضل الرحمن اور اس کی جے ٹی ائی، کسی کی اے ٹی آئی، سعد رفیق کی ایم ایس ایف، سراج الحق اور اس کی جمعیت اور پی ایس ایف والوں کے بھی جامعات میں تربیت سازی کے دریچے کھلے رہنے چاہیے، تربیت اور جمہوریت تو پھر یہی کہتی ہے، گر آپ جمہوریت پسند ہیں! ہاں، وہ دلیل کہ نون لیگ والے بھی یونیورسٹیوں میں مجمع لگاتے تھے، چلئے صاحب وزیراعظم نہ سہی، ان کی کے پی اور پنجاب میں حکومت سہی، مقبولیت کا ”جائز“ استعمال بھی، اوکے! کوئی لیپ ٹاپ شاپ یہ بھی اٹھا لیں، ایچ ای سی کو اعتماد میں لے لیں، زبردستی نہیں! ویسے بھی سیانے دلیل کے فقدان کو تنقید کے طوفان میں بدلنے کی حوصلہ افزائی کب کرتے ہیں؟
بشکریہ:روزنامہ جنگ
یہ بھی پڑھیے:
محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود
اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود
عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود
زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر