اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جمہوریت کے لیے ایک جرنیل درکار ہے|| عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاحایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلفٹی ویچینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

عمار مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمانہ کیسے پلٹا کھاتا ہے۔ وہی عمران خان جس کو عدالتوں نے بہت تزک و احتشام سے صادق اور امین کا تمغہ تھمایا تھا۔ آج الیکشن کمیشن نے اسی عمران خان کو چور، ڈاکو اور خائن ثابت کرتے ہوئے نا اہل قرار دے دیا ہے۔ وہی عمران خان جس کے لیے ادارہ راہوں میں پھول بچھائے بیٹھا رہتا تھا آج اسی عمران خان کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خفیہ مذاکرات کی جھوٹی خبر تخلیق کر کے اپنے ہم عصروں کی تشفی کر رہا ہے۔ یہ وہی عمران خان ہے جس نے ہر شخص، ادارے اور قانون کو پاؤں کی ٹھوکر جانا آج وہی متکبر شخص نا اہل ہو کر در بدر ہو رہا ہے۔

ہمیں بس یہ یاد رکھنا ہے کہ یہ عمران خان کے خلاف پہلا فیصلہ ہے۔ اب جب کہ ادارے نیوٹرل ہو گئے ہیں تو خان کو بچانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ اب فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ بھی خان کے گلے کا طوق بنے گا۔ اب توہین عدالت میں بھی رسوائی مقدر ہو گی۔ ابھی میڈیا ٹرائل کا آغاز ہو گا۔ ابھی تو مزید آڈیو لیکس کا خان کو سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک وڈیو بھی منظر عام پر آ سکتی ہے۔ یہ سب اس شخص کے ساتھ ہو گا جس نے کرپشن کے نام پر وہ ادھم مچایا کہ بہت سے لوگ اس کی بات کو سچ سمجھے۔ بہت سے لوگ اس متکبر شخص کو مسیحا سمجھنے لگے۔ اس کرپشن کرپشن کے ڈرامے میں کسی کا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ یہ شخص دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو لوٹ رہا ہے۔ جو شخص توشہ خانے سے عام استعمال کی چیزیں بھی اٹھا کر لے جائے اس کو صادق اور امین کہنے والوں کے لیے کیا انعام مقرر کیا جائے اس کا فیصلہ تاریخ جلد کرے گی۔

عمران خان کی نا اہلی سے اچانک یوں لگا کی وہ ہائی برڈ نظام جس کی بنیاد دس سال پہلے رکھی گئی تھی وہ نظام زمیں بوس ہو گیا۔ وہ نظام جس نے دس سال تک چلنا تھا وہ پونے چار سال میں ہی ملک کی تباہی پر منتج ہوا۔

اس دور تاریک سے سب نے سبق سیکھا۔ ادارے نیوٹرل ہو گئے۔ عدلیہ نظریہ ضرورت کو بھول کی نظریہ جمہوریت پر چلنے لگی۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے بیانئے کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا۔ صحافیوں کو سچ کی قدر و قیمت معلوم ہو گئی۔ اینکرز کے لہجے اور دلائل ہی بدل گئے۔ عوام میں شعور آ گیا کہ جو شخص بھی کہتا ہے کہ نوے دن میں ملک کی قسمت بدل دے گا وہ رانگ نمبر ہے۔ وہ دھوکے باز ہے۔ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔

اگر آپ کو موقعہ ملے تو آپ توشہ خانہ سے غائب کیے جانے والے مال کی تفصیل ضرور پڑھیے گا۔ یہ فہرست ایسی ہے کہ پڑھنے والا شرم سے ڈوب جاتا ہے۔ جنہوں نے پین، ٹی سیٹ اور لیمپ تک نہیں چھوڑے وہ اس ملک میں صادق اور امین کہلائے۔ وہی یتیموں اور مریضوں کے نام پر اربوں کے چندے کا ہیر پھیر کرتے رہے۔ ایسے لوگوں کو ہم نے اس ملک کی باگ ڈور تھما دی۔ پھر جو اس ملک کے ساتھ ہوا وہ سب نے دیکھا۔ اسحاق ڈار دن رات ایک کیے ہوئے ہیں مگر معیشت قابو میں نہیں آ رہی۔

لوگوں کا شکوہ درست ہے۔ اب ان میں برداشت کی مزید تاب نہیں ہے۔ اب وہ مزید مہنگائی کے عفریت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن اسحاق ڈار بھی بے قصور ہیں چار سال کی تباہ حالی اور لوٹ مار کو وہ دونوں میں درست نہیں کر سکتے۔ معیشتیں درست سمت پر گامزن ہونے کے لیے وقت کی متقاضی ہوتی ہیں۔ اب وقت ہے نہیں اور بگاڑ برسوں کا ہے۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو توشہ خانہ کیس جس میں عمران خان کی نا اہلی ہوئی ہے وہ عمران خان کے جرائم میں سب سے کم درجے کا جرم تھا۔ لوگوں کو شاید اس بات کا ادراک نہیں کہ اس پونے چار سال کے عرصے میں ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لیے گئے۔ عمران خان کے محبوب وزیر خزانہ شوکت ترین خود اقرار کر چکے ہیں کہ ملکی تاریخ میں ہم نے جتنے قرضے لیے اس سے چوہتر فیصد زیادہ قرضے اس مختصر عرصے میں لیے گئے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ وہ اربوں کھربوں ڈالر کہاں گئے؟ کیا ملک میں کوئی سڑکوں کا جال بچھا، کوئی یونیورسٹی کوئی ہسپتال بنا، کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع ہوا۔ عوامی فلاح کا کوئی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچا۔ جانے یہ رقمیں کہاں گئیں؟ ان کا جواب بھی عمران خان کو جلد ہی دینا ہو گا۔ اس تمام عرصے میں عوام کو صرف لنگر خانے کی دو روٹیاں دینے پر ٹرخایا۔ اس دور میں عوام کو بھوک مہنگائی اور بے روزگاری نظر آئی۔ معاشرے میں پھیلتی نفرت، عناد اور بد امنی نصیب میں آئی۔ باقی کے ڈالر کہاں لگے کسی کو پتہ نہیں۔ لیکن اب وقت آ چکا ہے جب احتساب کا پہیہ الٹا چلنے کو ہے۔ اب ان تمام رقموں کا حساب بھی خان کو دینا ہو گا۔ اب عمران خان کو پتہ چلے گا کہ ملک پر صرف سوشل میڈیا کے ٹرینڈ بنا کر حکومت نہیں کی جا سکتی۔ صرف دوسروں پر کرپشن کے الزامات لگا کر عوام کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ اب اپنی کرپشن کا حساب بھی دینا ہو گا۔ اپنے اعمال کا بھی جواب دینا ہو گا۔ اس سماج میں پھیلائی نفرت کا خود بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

اب المیہ یہ ہے کہ عمران خان کے ہاتھ سے ترپ کا پتہ بھی نکل چکا ہے۔ وہ ایک تعیناتی جس کے پیچھے کبھی صدارتی نظام چھپا تھا اور کبھی ون پارٹی سسٹم۔ کبھی ای وی ایم اور کبھی اوور سیز پاکستانیوں کے نادیدہ ووٹ اس ایک تقرری سے باریاب ہونے تھے۔ اس تقرری کا فیصلہ بھی خان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ جس کے برتے پر بساط بچھائی گئی تھی وہی گھوڑا ریس سے باہر ہو چکا ہے۔ اب اس مک میں کیا ہو گا یہ آنے والا شخص ہی فیصلہ کرے گا لیکن اس شخص کی سلیٹ صاف ہو گی کیونکہ اس پر ہائی برڈ نظام کی بزم سجانے کی تہمت نہیں ہو گی۔

ہم نے سیاست دانوں کے ذریعے ملک میں جمہوریت کی بازی جمانے کی بہت کوشش کی۔ ہر دفعہ سیاستدانوں نے منہ کی کھائی۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ہمیں اس ملک میں جمہوریت کے لیے ایک جنرل کی ضرورت ہے۔ جو جمہوریت پر یقین رکھے، جو پارلیمان کی سپریمیسی کو تسلیم کرے۔ جو ووٹ کی عزت کو پہچانے جو اپنے کام سے کام رکھے۔ جو جنگ جیتے لیکن الیکشن نہیں۔ جو ہائی برڈ نظام جیسے تجربوں سے توبہ کرے اور اپنے حلف کی لاج رکھے۔

یہ بھی پڑھیے:

بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود

حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود

پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود

نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود

عمار مسعود کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: