مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرسٹوفر کولمبس کے بارے میں اب یہ حقیقت کھل چکی ہے کہ نہ اس نے امریکا کو دریافت کیا تھا اور نہ وہ کوئی اچھا آدمی تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ آج بھی امریکا میں بہت سے مقامات اس سے منسوب ہیں جن میں دارالحکومت واشنگٹن، ڈسٹرکٹ آف کولمبیا شامل ہے۔
کولمبس نے کبھی شمالی امریکا میں قدم نہیں رکھا۔ اس سے پانچ سو سال پہلے اسکینڈے نیویا کے وائیکنگ کینیڈا پہنچ چکے تھے۔ بعض تاریخ دانوں کا دعوی ہے کہ ایک چینی مہم جو دستہ بھی کولمبس سے 71 سال پہلے بحرالکاہل کی طرف سے امریکا آچکا تھا، لیکن مغربی تاریخ داں اسے قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔
بہرحال کولمبس کے وسطی اور جنوبی امریکا پہنچنے کی وجہ سے یورپ والے اس طرف متوجہ ہوئے اور اس کے دو نتیجے برآمد ہوئے۔ ایک یہ کہ بڑی تعداد میں یورپی باشندے نئی دنیا پہنچے۔ دوسرے، نئے آنے والوں نے قدیم باشندوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا۔ یہی نہیں، افریقا سے بے شمار انسانوں کو غلام بناکر بھی یہاں لائے جو تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔
کولمبس کا تعلق اٹلی سے تھا لیکن وہ کچھ عرصہ پرتگال میں رہا۔ اسپین کے شاہی خاندان سے مالی امداد لے کر اس نے امریکا کی جانب چار سفر کیے۔ پہلا سفر 1492 میں تھا اور وہ انڈیا نہیں، ایسٹ انڈیز جانا چاہتا تھا جسے آج ہم انڈونیشیا کے نام سے جانتے ہیں۔ کولمبس کو مرتے دم تک پتا نہیں چلا کہ وہ وہاں نہیں پہنچ سکا جہاں جانا چاہتا تھا۔
کولمبس ایک ظالم شخص تھا۔ اس نے وسطی امریکا کے جزائر میں مقامی باشندوں پر انسانیت سوز مظالم کیے اور انھیں غلام بناکر یورپ لے گیا۔ جیسے جیسے تاریخ کی پرتیں کھل رہی ہیں، امریکا میں اس کے مجسمے اکھاڑے جارہے ہیں اور اس سے منسوب مقامات کے نام بدلے جارہے ہیں۔ امریکا میں کولمبس ڈے کو بھی اب مقامی باشندوں کا دن کہہ کر منایا جاتا ہے۔
ہماری دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کولمبس نے اپنے پہلے سفر کی ایک ڈائری لکھی تھی۔ اس کا آغاز 3 اگست 1492 اور اختتام 15 مارچ 1493 کو ہوتا ہے۔ اس نے وہ ڈائری اسپین کی ملکہ ایزابیلا کو پیش کی تھی جس نے اصل اپنے پاس رکھ لی تھی اور اسے نقل کرواکے کولمبس کو واپس کردیا تھا۔ اصل نسخہ 1504 کے بعد سے لاپتا ہے۔
دوسرے نسخے سے کئی افراد نے استفادہ کیا۔ ان میں برتولوما ڈی لاس کاساس شامل تھا۔ برتولوما کی 76 صفحات کی کتاب 18ویں صدی میں سامنے آئی اور اب کولمبس کی ڈائری کے جتنے بھی ترجمے اور کتابیں چھپ چکی ہیں، ان سب کی بنیاد وہی ہے۔ یہ کتاب مارٹن فرنانڈیز ڈی نیواراٹے نے لائبریری آف انفینٹاڈو میں دریافت کی جس کے بعد اسے اسپین کی سب سے بڑی لائبریری میڈرڈ کی ببلیوٹیکا ناشیونال ڈی اسپانا منتقل کیا گیا۔ بدقسمتی سے 1925 میں یہ وہاں سے غائب ہوگئی۔
اس کتاب کا پہلا انگریزی ترجمہ 1827 میں ہوا تھا۔ دوسری بہت سی زبانوں میں بھی اس کے ترجمے ہوچکے ہیں۔ کوئی اردو ترجمہ میرے علم میں نہیں۔ رامپور کی صولت پبلک لائبریری میں کولمبس کی اردو میں سوانح عمری موجود ہے لیکن جو صفحات دستیاب ہیں، ان پر مترجم یا ناشر کا نام درج نہیں۔ میں نے گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں یہ تینوں کتابیں جمع کردی ہیں اور لنک لائبریری گروپ میں پیش کردیا ہے۔
کولمبس نے آخری عمر میں دو اور کتابیں بھی لکھی تھیں اور بہت مذہبی ہوگیا تھا۔ اس نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ اس نے دوردراز کے سفر ملحدوں کو مسیحی بنانے کے لیے کیے تھے۔ وہ خود کو ایک پیغمبر سمجھنے لگا تھا۔
کولمبس کی پہلی سوانح اس کی موت کے تیس سال بعد اس کے بیٹے ہرنینڈو نے لکھی جو اپنے باپ کے آخری سفر میں اس کے ساتھ شریک تھا۔ وہ کتابیں جمع کرنے کا شوقین تھا۔ اس کے ذاتی کتب خانے میں بہت سی قیمتی کتابیں تھیں جو اب اسپین کے کسی گرجاگھر کی لائبریری میں دفن ہیں اور عام لوگوں کی اس تک رسائی نہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر