بہت آسان ھے کسی کی بیٹی پر الزام لگانا.
آج سے 18 سال قبل پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ وجیہہ عروج نےیونیورسٹی پر ایک کیس کیا.
انہیں ایک پرچےمیں غیر حاضر قرار دیا گیا تھا جبکہ وہ اس دن پرچہ دے کر آئیں تھیں.
یہ صاف صاف ایک کلرک کی غلطی تھی۔
وجیہہ اپنےوالد کےھمراہ ڈپارٹمنٹ پہنچیں.تاکہ معاملہ حل کر سکیں.
وہاں موجود ایک کلرک نے انکے والد سے کہا آپ کو کیا پتہ آپ کی بیٹی پیپر کے بہانے کہاں جاتی ھے.
یہ جملہ وجیہہ پر پہاڑ بن کر گرا۔ وہ کبھی کلرک کی شکل دیکھتیں تو کبھی اپنے والد کی.
انہیں سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کریں. وہ اپنےھی گھر والوں کےسامنے چور بن گئیں تھیں.
وہ بتاتی ہیں کہ انکی والدہ بھی انہیں عجیب نظروں سے دیکھنا شروع ھو گئیں تھیں.
اچھا ھوتا کلرک صرف اپنے کام سےکام رکھتا.
وجیہہ کےبارے میں اپنی رائےدینے کی بجائے وہ حاضری رجسٹر چیک کرتا یا اس دن کےپرچوں میں پرچہ ڈھونڈتا.
لیکن اس نےاپنےکام کی بجائےوجیہہ کے بارےرائے دینا ضروری سمجھا.
یہ سوچے بغیر کہ اسکا یہ جملہ وجیہہ کی زندگی متاثر کر سکتا ھے.
وجیہہ نے یونیورسٹی پر کیس کرنے کا فیصلہ کیا.
اس کیس میں انکے والد نے ساتھ دیا.
کیس درج ھونے کے4 ماہ بعد یونیورسٹی نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ھوئے عدالت میں ان کا حل شدہ پرچہ پیش کر دیا.
معاملہ اب ڈگری سےکہیں بڑھ کر تھا۔
وجیہہ کو یونیورسٹی سے اپنے کردار پر لگے دھبے کا جواب چاھئیے تھا.
17 سال چلنے والی قانونی لڑائی میں گذشتہ سال عدالت نے وجیہہ کے حق میں فیصلہ سنایا اور یونیورسٹی کو آٹھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا.
وجیہہ نے ایک جملے کا بوجھ 17 سال تک اٹھایا.
وہ تو جی دار تھیں.
وجیہہ کےوالدین نے انکی ڈگری مکمل ھوتےھی انکی شادی کر دی. انہیں ڈرتھا کہ بات مزیدپھیلی تو کہیں وجیہہ کےرشتےآنا ھی بند نہ ھوجائیں.
وجیہہ بہت کچھ کرناچاہتی تھیں لیکن اس ایک جملےکی وجہ سےانہیں وہ سب نہیں کرنےدیاگیا.
وہ اپنی زندگی سےمطمئن لیکن دل میں کچھ نہ کرپانےکی کسک بھی موجودھے.
یہ پڑھ کر دل پر بوجھ بڑھ گیا وجیہہ کو فیملی کا اعتماد ملا وہ یہ داغ دھو پائی مگر پاکستان میں ھر بیٹی کو یہ اعتماد نہی ملتاھے.
ایسےکتنی ھیرےجیسی بیٹیاں لوگوں کےلفظوں کےدباو کانشانہ بنی برباد ھوئ بیٹھی ھیں.
والدین کیوں اپنی تربیت پر بھروسہ نہی کرتے؟
یا اولاد کو سمجھنےکی صلاحیت نہی؟
سوشل میڈیا پر بٹو نامی صارف کا تھریڈ
بہت آسان ھے کسی کی بیٹی پر الزام لگانا.
— بِٹــــــــــــــــــــــــو 🇵🇰 (@BIT0420) November 10, 2019
آج سے 18 سال قبل پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ وجیہہ عروج نےیونیورسٹی پر ایک کیس کیا.
انہیں ایک پرچےمیں غیر حاضر قرار دیا گیا تھا جبکہ وہ اس دن پرچہ دے کر آئیں تھیں.
یہ صاف صاف ایک کلرک کی غلطی تھی۔
وجیہہ اپنےوالد کےھمراہ ڈپارٹمنٹ پہنچیں. pic.twitter.com/MYwQK4Inub
اے وی پڑھو
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
نیشنل پریس کلب کے انتخابات، جرنلسٹ پینل نے میدان مارلیا، اظہر جتوئی صدر منتخب
ملتان یونین آف جرنلسٹس کے سالانہ انتخابات میں "پروفیشنل جرنلسٹس گروپ” نے میدان مار لیا،