مئی 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اپنے سر لگا الزام دھونے کیلئے پنجاب یونیورسٹی کے خلاف 17 سال کیس لڑنے والی بہادر خاتون

‏بہت آسان ھے کسی کی بیٹی پر الزام لگانا.

‏آج سے 18 سال قبل پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ وجیہہ عروج نےیونیورسٹی پر ایک کیس کیا.
‏انہیں ایک پرچےمیں غیر حاضر قرار دیا گیا تھا جبکہ وہ اس دن پرچہ دے کر آئیں تھیں.
‏یہ صاف صاف ایک کلرک کی غلطی تھی۔
‏وجیہہ اپنےوالد کےھمراہ ڈپارٹمنٹ پہنچیں.تاکہ معاملہ حل کر سکیں.
‏وہاں موجود ایک کلرک نے انکے والد سے کہا آپ کو کیا پتہ آپ کی بیٹی پیپر کے بہانے کہاں جاتی ھے.
‏یہ جملہ وجیہہ پر پہاڑ بن کر گرا۔ وہ کبھی کلرک کی شکل دیکھتیں تو کبھی اپنے والد کی.
‏انہیں سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کریں. وہ اپنےھی گھر والوں کےسامنے چور بن گئیں تھیں.

‏وہ بتاتی ہیں کہ انکی والدہ بھی انہیں عجیب نظروں سے دیکھنا شروع ھو گئیں تھیں.
‏اچھا ھوتا کلرک صرف اپنے کام سےکام رکھتا.
‏وجیہہ کےبارے میں اپنی رائےدینے کی بجائے وہ حاضری رجسٹر چیک کرتا یا اس دن کےپرچوں میں پرچہ ڈھونڈتا.
‏لیکن اس نےاپنےکام کی بجائےوجیہہ کے بارےرائے دینا ضروری سمجھا.

‏یہ سوچے بغیر کہ اسکا یہ جملہ وجیہہ کی زندگی متاثر کر سکتا ھے.
‏وجیہہ نے یونیورسٹی پر کیس کرنے کا فیصلہ کیا.
‏اس کیس میں انکے والد نے ساتھ دیا.
‏کیس درج ھونے کے4 ماہ بعد یونیورسٹی نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ھوئے عدالت میں ان کا حل شدہ پرچہ پیش کر دیا.
‏معاملہ اب ڈگری سےکہیں بڑھ کر تھا۔

‏وجیہہ کو یونیورسٹی سے اپنے کردار پر لگے دھبے کا جواب چاھئیے تھا.
‏17 سال چلنے والی قانونی لڑائی میں گذشتہ سال عدالت نے وجیہہ کے حق میں فیصلہ سنایا اور یونیورسٹی کو آٹھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا.
‏وجیہہ نے ایک جملے کا بوجھ 17 سال تک اٹھایا.
‏وہ تو جی دار تھیں.

‏وجیہہ کےوالدین نے انکی ڈگری مکمل ھوتےھی انکی شادی کر دی. انہیں ڈرتھا کہ بات مزیدپھیلی تو کہیں وجیہہ کےرشتےآنا ھی بند نہ ھوجائیں.
‏وجیہہ بہت کچھ کرناچاہتی تھیں لیکن اس ایک جملےکی وجہ سےانہیں وہ سب نہیں کرنےدیاگیا.
‏وہ اپنی زندگی سےمطمئن لیکن دل میں کچھ نہ کرپانےکی کسک بھی موجودھے.

‏یہ پڑھ کر دل پر بوجھ بڑھ گیا وجیہہ کو فیملی کا اعتماد ملا وہ یہ داغ دھو پائی مگر پاکستان میں ھر بیٹی کو یہ اعتماد نہی ملتاھے.
‏ایسےکتنی ھیرےجیسی بیٹیاں لوگوں کےلفظوں کےدباو کانشانہ بنی برباد ھوئ بیٹھی ھیں.
‏والدین کیوں اپنی تربیت پر بھروسہ نہی کرتے؟
‏یا اولاد کو سمجھنےکی صلاحیت نہی؟


سوشل میڈیا پر بٹو نامی صارف کا تھریڈ

%d bloggers like this: