مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچیس سال میڈیا میں کام کرنے کا تجربہ ایک جملے میں بیان کروں؟
ٹی وی پر نشر کیا جانے والا ہر آئٹم انٹرنیٹمنٹ ہوتا ہے
اس میں صرف فلم، ڈراما یا گیت نہیں، نیوز، سیاسی ایونٹ اور حقیقی المیوں کی تصویر کشی بھی شامل ہے۔
ایک بار کوئٹہ کی عدالت میں دھماکا ہوا تو جیونیوز کے رپورٹر سلمان اشرف وہیں موجود تھے۔ وہ زخمی تو نہیں ہوئے لیکن شاید سماعت متاثر ہوئی اور بال کھڑے ہوگئے۔ چہرے پر اثرات نمایاں تھے۔ ایگزیکٹو پروڈیوسر نے اصرار کرکے اسی عالم میں ویڈیو بیپر لیا۔
میں ہمیشہ سے صحافیوں کے تحفظ کا قائل رہا ہوں اور اس کی خاطر بڑی خبر بھی چھوڑنے کو تیار ہوجاتا تھا۔ لیکن ایگزیکٹو پروڈیوسر نے کہا، ٹی وی یہی ہے کہ سلمان کو اسی حال میں دکھایا جائے۔
وہ سچ کہہ رہے تھے۔ ٹی وی انٹرٹینمنٹ ہے۔
جس دن آپ یہ بات سمجھ جائیں گے، نیوز چینلوں اور سیاست دانوں بلکہ آئی ایس پی آر سے بھی شکایت ختم ہوجائے گی۔
اس کے بعد آپ حیران ہونا چھوڑ دیں گے کہ نیوز چینل ان اصلی یا جعلی سیاست دانوں کے جلسے کیوں دکھاتے ہیں جو انھیں ہی برابھلا کہتے ہیں۔
احمق اینکروں کے پروگراموں کی غایت بھی معلوم ہوجائے گی
اور آپ ٹیلے تھون اور امدادی سرگرمیوں میں امتیاز کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔
یہ بھی پڑھیے
”کوئی خواب میکوں اُدھارا نہ ݙیویں“ (وسیب یاترا :12)||سعید خاور
”بدن دی بھوئیں تے مُونجھ دا متام“ (وسیب یاترا :11)||سعید خاور
””سندھو سکرات وِچ اے“ (وسیب یاترا :10)||سعید خاور