مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قائد اعظم یاد آرہے ہیں۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
11 ستمبر قائد اعظم کا یوم وفات ہے۔ ملک کی اب تک کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے قائد اعظم آج پھر یاد آرہے ہیں۔ ملک میں ایک طرف سیلاب نے پاکستان کو برباد کرکے رکھ دیا ہے دوسری طرف سیاستدانوں نے قوم کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ملک میں کرپشن کی انتہاء ہو گئی ۔ لوگ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ سے عاجز آئے تو عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ دیا اور سہانے خواب دیکھائے وسیب کے لوگوں سے بھی صوبے کا وعدہ ہوا، ایک ماحول بنایا گیا پہلے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا ڈھونگ رچایا گیا پھر صوبہ محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کرایا گیا۔ لاہور میں 29 اپریل 2018ء کو دھوم دھام سے پریس کانفرنس ہوئی۔ عمران خان، میر بلخ شیر مزاری، طارق بشیر چیمہ، مخدوم خسرو بختیار و دیگر نے نیلی اجرکیں پہنیں اور صوبے کے عہد نامے پر دستخط کئے۔ عمران خان برسراقتدار آئے تو سو دن میں صوبہ تو کیا بنانا تھا صوبہ کمیٹی بھی نہ بنائی جا سکی۔ ساڑھے تین سال تحریک انصاف برسراقتدار رہی غریب عوام کو ریلیف کی بجائے تکلیف ملی۔ اپوزیشن استعفیٰ دینے اور نئے الیکشن کرانے کا مطالبہ کر رہی تھی، عمران خان کو ہٹایا گیا تو وہی اپوزیشن جو الیکشن کا مطالبہ کر رہی تھی ، نے اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری اور خود برسراقتدار آکر الیکشن کی بات سے مکر گئی جس کی بناء پر عمران خان کو ایک بار پھر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہوئیں اور اب اور پی ڈی ایم حکومت کی روزبروز ناکامی، بد انتظامی اور ہوشرباء گرانی کے باعث عمران خان کو ہر آنے والا لمحہ مقبول بنا رہا ہے۔ عمران خان تبدیلی کی بجائے حقیقی آزادی کا نعرہ لگا رہا ہے۔ کیسی تبدیلی، کیسی آزادی؟ یہ سادہ عوام نہیں جانتے۔ کرسی اور اقتدار کی سیاست کرنے والے نت نئے ڈھونگ رچاتے رہتے ہیں اور غریب عوام کو لالی پاپ دیتے رہتے ہیں۔ سیاستدانوں کے کرسی، اقتدار کے جھگڑے تو چلتے رہیں گے مگر اس میں ایک خطرناک موڑ یہ بھی آگیا ہے کہ سیاسی لڑائیوں نے اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پہلے جو کام نوازشریف کرتے رہے اب وہی کام عمران خان کر رہے ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کو بھی دو تین مہینے رہتے ہیں مگر تعیناتی سے پہلے اس قدر مسئلے کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے کہ شاید کسی کا بھی دل نہ چاہے کہ میں چیف آف آرمی سٹاف بنوں کہ عہدہ سنبھالنے سے پہلے میرٹ کی خلاف ورزی کا الزام پہلے سے کھڑا کر دیا گیا ہے۔سیلاب سے کھربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ سیاستدان کرسی اور اقتدار کی لڑائیاں لڑ رہے ہیں۔ بڑے بڑے جلسے منعقد ہو رہے ہیں جیسے چند دن بعد الیکشن ہونے والے ہوں۔ صورتحال یہ ہے کہ ضمنی الیکشن بھی ملتوی ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو کم از کم ان علاقوں میں الیکشن ملتوی نہیں کرنا چاہئے تھا جہاں سیلاب نہیں آیا۔ ملک کی صورتحال قطعی طور پر ٹھیک نہیں ہے۔ سیلاب اور بارشوں کی صورت میں بہت بڑا حادثہ ہو چکا ہے۔ سیلاب متاثرین اور قومی معیشت کو کھربوں ڈالر کا دھچکا لگ چکا ہے۔ سنبھلنے میں بہت وقت لگے گا۔ اسی بناء پر آج قیادت کی کمی محسوس ہو رہی ہے اور قائد اعظم یاد آرہے ہیں۔ محمد علی جناح کو قوم نے قائد اعظم کا خطاب دیا جو 1938ء سے ان کے اصل نام سے بھی زیادہ مشہور ہو گیا ۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں اتفاق رائے سے اس عوامی خطاب کو سرکاری طور پر منظورکیا گیا ۔ قائد اعظم عظیم لیڈر تھے۔ قوم کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت دی مگر ہمارے سیاستدان نہ سنبھال سکے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ قائد اعظم جو پاکستان کے بانی تھے، قوم کے محسن تھے، قیام پاکستان کے بعد ان سے بھی وفا نہ کی گئی۔ بلوچستان کے لوگ آج بھی علاج کیلئے کراچی آتے ہیں مگر قائد اعظم کو علیل حالت میں بلوچستان بھیجا گیا اور واپسی پر کھٹارہ ایمبولینس میں جس طرح وفات ہوئی ان تمام باتوں کی تحقیق ہونی چاہئے ۔ آج کے ڈھونگ رچانے والے اور ڈرامے کرنے والے سیاستدان ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے تو باردیگر کہوں گا کہ آج قوم کو ایک قائد کی ضرورت ہے۔ قائد اعظم کی یادوں کے حوالے سے عرض کروں کہ قائدا عظم اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے ، آپ نے 1885 اور 1886ء میں گوکل داس تیج پرائمری سکول بمبئی میں ، پھر سندھ مدرسۃ الاسلام اور کرسچن مشن ہائی سکول کراچی میں تعیم پائی۔ سولہ برس کی عمر میں 1892ء میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے انگلستان گئے ۔ وہاں لنکنز ان سے 1896ء میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا ۔ 1896ء میں انگلستان سے واپس آ کر کراچی میں وکالت شروع کی اور ایک سال بعد 1897ء میں بمبئی میں دفتر کھولا ۔ 1906ء میں سیاسی زندگی کا آغاز نیشنل کانگریس سے کیا ۔ اپریل 1913ء میں دوبارہ انگلستان گئے ، وہاں گوکھلے سے طویل رفاقت رہی ۔ ہندوستانی طلبہ کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کیلئے ’’ لندن انڈین ایسوسی ایشن ‘‘ قائم کی ۔ اس زمانے میں مولانا محمد علی جوہر اور سید وزیرحسن کی فرمائش پر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اس شرط کے ساتھ اختیار کی کہ مسلم لیگ میں ان کی رکنیت ان کی کانگریس کی رکنیت پر کسی بھی اعتبار سے اثر انداز یا خلل انداز نہ ہوگی۔ معروف ریسرچ اسکالر ڈاکٹر طاہر تونسوی کی کتاب ’’ قائد اعظم تے سرائیکی زبان و ادب ‘‘ 2002ء میں شائع ہوئی جس میں سرائیکی زبان میں اہل قلم کی بہت سی تحریریں شامل ہیں اور ان میں شعراء کرام کی طرف سے منظوم نذرانہ عقیدت بھی پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی نے پاکستان چوک ڈی جی خان کے بابا شیر محمد پاکستانی ( وہ قیام پاکستان سے پہلے خود کو پاکستانی لکھتے تھے ) کی ایک نظم اپنی کتاب میں شامل کی ہے۔ بلا شبہ وسیب کے لوگوں نے قائد اعظم سے محبت کی ہے۔ پاکستان سے محبت کی ہے۔ مملکت خداداد بہاولپور کے علاوہ اور بھی بہت کچھ پاکستان کو دیا ہے۔ آج وسیب کے لوگوں کو محرومی پس افتادگی کی دلدل سے نکال کر صوبہ دیا جائے اس سے قائد اعظم کی روح خوش ہو گی۔

 

 

 

 

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: