رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو بہت کچھ سن چکے۔ سب تجربے اور تجربہ کاریاں ہماری آنکھوں کے سامنے ہوئیں۔ کتنی بار اقتدار میں آئے‘ کتنی باریاں آپ نے وفاق اور پنجاب میں لیں اور کون سے معاشی انقلاب لائے جو اَب لانے کی باتیں کررہے ہیں؟ ادھار اور مانگے تانگے کے پیسوں سے چند دکھاوے کے منصوبے اور نعرہ بازیاں کیسے کسی اقتصادی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں؟ جو کچھ آپ دہائیوں تک حکمرانی کرکے نہیں کرسکے‘ اب کیسے مان لیا جائے کہ خلائی سہاروں کے ساتھ ایک سال اسلام آباد میں آپ وزیراعظم رہیں گے تو معاشی میدان میں بڑے تیر مار لیں گے؟ کون سی منصوبہ بندی آپ کے پاس ہے؟ عوام کو کچھ تودکھائیں۔ کسے معلوم نہیں کہ جن کا پیٹ چیر کر آپ نے کرپشن کے پیسے نکالنے تھے‘ اب انہی کی سر پرستی میں یہ کھیل کھیلا ہے۔ اس سے ملکی معیشت کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ جسے بھی سیاست کا پہلا سبق یاد ہے‘ اگرکبھی پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو‘ تو وہ یہ ہے کہ کسی کمزور معیشت کے حامل ملک کو عدم استحکام یا بحران کا شکار کردیا جائے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ نے ڈوبتی کشتی میں کئی اور سوراخ کر دیے ہیں۔ یہ تو مذاق‘ بلکہ تھڑے والی گفتگو ہے کہ تیرہ جماعتیں اس لیے اکٹھی ہو گئیں کہ جمہوریت کو عمران خان کی ”فسطائیت‘‘ سے خطرہ تھا۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور مقبول ترین لیڈر کو اقتدار سے ہٹانے کی جو تاویلیں پیش کیں اور ضمیر جگانے کے جو حربے جمہوری اتحاد نے استعمال کیے‘ اس کے بعد جمہوریت کے لیے دعائے خیر ہی بنتی ہے۔ گزشتہ چندہ ماہ سے ہم نے معیشت کو ٹھیک سمت میں لانے کے سلسلے میں کون سے انقلابی اقدامات دیکھے ہیں؟ صرف ایک ہے‘ جو پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں‘ چاہے وہ کمپنیاں ہوں یا افراد‘ ان پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا۔
پنجاب میں ایک وزیراعلیٰ چند ہفتوں کے لیے رونما ہوئے تھے۔ آتے ہی اعلان فرمایا کہ روٹی سستی کرنے کے لیے دو سو ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ حضور سستے تنوروں میں پہلے بھی آپ کئی سو ارب روپے جھونک چکے ہیں۔ فائدہ کسے ہوا؟ کسان کو جو شدید سردی میں کھیتوں میں جا کر پانی لگاتا ہے اور اکثر سود پر پیسے لے کر کھاد خریدتا ہے تاکہ آپ کے لیے گندم اُگا سکے؟ بالکل نہیں۔ ایسے کام کوئی عقل کا اندھا ہی کر سکتا ہے‘ یا وہ جسے کسی طفیلی بزنس کلاس کو پالنا ہے تاکہ وہ آپ کی سیاسی جماعت کا سہارا بنے اور ضرورت پڑنے پر کام آئے اور مخالفین کے خلاف ہڑتالیں کرے۔ اور ہاں‘ ٹھیکے دار‘ اور جنہیں سیاسی کارکن کہا جاتا ہے‘ اُن کی جیبیں گرم ہوں۔ اقتدار میں آئے تو کئی دن باتیں ہوتی رہیں کہ بجلی کا بحران ہے‘ مارکیٹیں آٹھ بجے شام بند ہونی چاہئیں۔ نو بجے کا اعلان ہوا۔ اور قبل اس کے کہ کوئی عمل ہوتا‘ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ آپ بجلی بچا کر کارخانے چلا سکتے ہیں‘ برآمدات بڑھا سکتے ہیں‘ لیکن مقصد ملک بنانا نہیں بلکہ دولت‘ جائیدادیں اور سرمایہ بنانا ہے‘ اور ریٹیل سیکٹر میں دکانداروں کو ساتھ رکھ کر سیاست کرنی ہے۔ اگر آپ پڑوسی ملک میں کبھی گئے ہوں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہاں بازار شام ہوتے ہی بند ہوجاتے ہیں۔ چھ یا سات بجے۔ امریکا یا برطانیہ گئے ہوں تو وہاں بازار آٹھ بجے تک بند ہو جاتے ہیں۔ عوامی مقبولیت کی سیاست کی منطق بھی نرالی ہے۔ کہتے ہیں کہ کاروبار بڑھانا ہے۔ کچھ خوف کھائیں۔ آپ دن کی روشنی کو استعمال کرنے کے بجائے رات کو منڈیاں اور مارکیٹیں چلاتے ہیں۔
یہ ہماری دو بڑی موروثی جماعتیں اور ان کے حواری اتحادی چوالیس سال تک وقتاً فوقتاً اس قوم کی قسمت بدلنے کی ذمہ داریاں سنبھالتے رہے ہیں۔ ان کے محترم رہنما جو لندن میں گزشتہ کئی برسوں سے زیر علاج ہیں‘ ہم تو یہی کہیں گے جو وہ فرماتے ہیں‘ اس لیے کہ اس حکمران طبقے نے نہ کبھی جھوٹ بولا ہے نہ بول سکتا ہے‘ کم از کم ابھی تک کوئی جھوٹ کسی عدالت میں ثابت نہیں ہوسکا۔ یاد ہے جب نوے کی دہائی میں حریف پارٹی کو اقتدار سے نکالا یا نکلوایا تو فرماتے تھے کہ ہم پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنائیں گے‘ مگر ابھی تک ہم نے کپڑے کا بنا ہوا ٹائیگر اور کبھی نیم مردہ ٹائیگر‘ کسی سرکس سے ادھار لیا ہوا‘ انتخابی جلسوں میں دیکھا ہے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ ہمارے تمام محترم سیاسی وڈیروں کی تعلیم کن اداروں میں اور کس درجے تک ہوئی ہے اور معیشت کے بارے میں ان کا علم کن بلندیوں کو چھوتا ہے۔ اگر آپ کی سوچ کا معیار یہ ہو کہ ایک خاندان نے کسی گئے گزرے سینما ہال کی کمائی سے اور دوسرے خاندان نے صنعتیں قومیائے جانے کے بعد ادھر اُدھر سے قرض لے کر کارخانے لگائے ہیں تو پھر تو ماننا پڑے گا کہ ان سے بہتر اس ملک کی معیشت کوکون سمجھتا ہے۔
چند دن پہلے وزیر خزانہ نے کہیں کہہ دیا کہ معیشت کو درست کرنے کے لیے ہمیں مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔ جمہوری اتحادیوں کی طرف سے تنقید ہوئی تو اُنہیں اپنی بات کی تردید کرنا پڑی کہ نہیں! ایسا اُنہوں نے بالکل نہیں کہا تھا۔ کسی ملک کی معیشت‘ ہماری ہو یا مغرب کے کسی صنعتی ملک کی‘ موجودہ عالمی تناظر میں مشکل فیصلے ناگزیر ہیں۔ پٹرول‘ گیس‘ روٹی اور بجلی پر آپ کیسے سبسڈی دے سکتے ہیں؟ آپ کی سیاست نے‘ اور اس میں تحریک انصاف کی حکومت بھی شامل ہے‘ گردشی قرضہ کھربوں تک پہنچا دیا ہے۔ ہر سال ریاست کی ملکیت میں چلنے والی کمپنیاں ڈیڑھ کھرب روپوں کے قریب نقصان میں جارہی ہیں۔ اور آپ ابھی تک کچھ بھی نہیں کر پائے۔ آپ ہی بتائیں کہ بجلی پیدا کرنے کے معاہدے کس دور میں ہوئے تھے؟ کن شرائط پر ہوئے تھے؟ جیبیں کس نے گرم کی تھیں؟ میرا موقف ہے کہ یہ ایک بہت بڑی سازش تھی جس کا مقصد پاکستان کی صنعت کو تباہ کرنا تھا۔ بجلی مہنگی ہوگی تو دنیا کاکیسے مقابلہ کیا جا سکے گا؟ قومیانے کی حماقت نے تو سب کچھ تباہ کر دیا تھا۔ پھر بھی گیارہ سال بعد جو تجدید ہوئی‘ صنعت کو اس سازش کے تحت تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ساہیوال میں کوئلے کے پلانٹ کو دیکھ لیں۔ ایندھن درآمد ہوتا ہے۔ بیرونی دنیا سے جہازوں پر منگوایا جاتا ہے۔ کراچی سے ٹرینوں پر لایا جاتا ہے۔ کوئی جواز بنتا ہے؟ جب آپ کے پاس تھر میں کوئلہ موجود ہے اور کم از کم دو بڑے کارخانے وہاں چل رہے ہیں۔ اس صورت میں بیرونی دنیا سے کوئلہ منگوا کر زرمبادلہ کے پہلے سے ہی کم ہوتے ہوئے ذخائر کومزید دبائو میں لانے میں کیا دانائی ہے؟
معیشت کے کس کس فلسفے کی بات کروں۔ زراعت پر کیا سرمایہ کاری کی گئی؟ کون سے نئے بیج متعارف کرا سکے؟ کم ازکم جعلی ادویات والوں کو تو پکڑ سکتے تھے۔ ٹیکس کا تناسب قومی آمدنی کا صرف ساڑھے آٹھ فیصد ہے۔ یہ جنوبی ایشیا میں کم ترین ہے۔ ہمارے بڑے پڑوسی ملک کا تقریباً پندرہ فیصد کے قریب ہے۔ دولت تو ملک کے اندر موجود ہے‘ مگر آپ سستی سیاست چمکانے کے لیے مشکل فیصلے نہیں کر سکتے۔ اور جو آپ نے سیاست کو سرمایہ کاری میں تبدیل کیا‘ اس سے سب ادارے تباہ ہو چکے۔ اب کچھ نہیں ہوگا آپ سے۔ آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ دیکھنا‘ یہ قوم جاگ چکی ہے۔ اس لیے تو آپ نے یہ مصنوعی سہارے لیے ہیں۔ عوام کے سامنے جائیں گے تو معلوم ہوجائے گاکہ اصل سہارا کون ہے۔ آج عوام کی طاقت سیاسی معرکے کا فیصلہ لکھنے کے لیے بے تاب ہے۔ ذرا اس کا موقع تو آنے دیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر