ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹکر کے لوگ بنا ٹکرائے ہی پتلی گلی سے نکل گئے ۔سنا ہے ہر ٹکر کے بندے کی آزادی کا راستہ پشاور سے ہوکے جاتا ہے ۔گویا پشاور امن کی وہ جگہ ہے جہاں سے وہ لوگ جنہوں نے ہر طاقتور سے ٹکرانا تھا بنا ٹکرانے پرامن طریقے سے رستہ بدل جاتے ہیں ۔اب سوشل میڈیا کے زورپرتو نیلسن منڈیلا یا پھر چی گویرا تو نہیں بنا جاسکتا تاریخ رقم نہیں کی جاسکتی ۔تقاریر میں بھٹو کا حوالہ دینے سے تو بھٹو نہیں بنا جاسکتا ۔نیلسن منڈیا بننے کے لیئے دہائیاں جیلوں میں گذارنی پڑتی ہیں بھٹو بننے کے لیئے پھانسی کے پھندے کو گلے میں ڈالنا پڑتا ہے ۔نا ہی جانثاران کی وہ ٹیم ساتھ ہے جو کارساز میں ایک دھماکے کے بعد دوبارہ جمع ہوئے اور پھر دھماکہ ہوگیا مگر یہ سرپھرے تیسری بار بھی جمع ہوگئے ۔
دو جماعتوں کو سیدھا کرنے کے لیئے تیسری جماعت کی ضرورت تھی ۔قرعہ فال نکلا اور تیسری جماعت کے غبارے میں ہوا بھری گئی مگر یہ شائد کچھ زیادہ ہی بھرگئی اور پھر تنیجہ سب کے سامنے ہے ۔پہلی دو کی طرح تیسری جماعت بھی زیرعتاب ہے ۔اب تیسری جماعت کا وزن اور سائز کم کرنے کی باری ہے ۔تاکہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ بقدر جثہ ٹھیک طریقے سے تقسیم کیا جاسکے۔اور جثہ بھی اتنا ہی ہو جو کسی وقت پریشانی کا باعث نا بن سکے ۔بنیادی طورپر سمجھنے کی بات ہے کہ چار صوبے ہیں اور تین صوبوں تین بڑی سیاسی جماعتوں کے اور چوتھا صوبہ ان تین کو قابو کرنے کے لیئے ہے۔جہاں ضرورت ہوگی چوتھے صوبے کی حمایت اس کے پلڑے میں ڈال دی جائے گی۔
رہی بات وفاق کی تو اچھی بات ہے سب موجود ہوں گے اور کوئی اکثریت میں نہیں ہوگا۔جہاں دل چاہے گا اور جو تابعدار ہوں گے ان کو یک جان دوقالب کرکے اقتدار حوالے کردیا جائے گا۔اور جب کسی نے تنگ کرنے کی کوشش کی تو تیسری جماعت بھی اسی تناسب سے ایوان میں موجود ہوگی اور ہمارے جیسے ملک میں سیاسی اتحاد بنتے دیر نہیں لگتی۔ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں ایک نیا حکومتی اتحاد کسی بھی وقت تشکیل دیا جاسکتا ہے۔گویا کوئی مستقل نوکری پر نہیں ہے سب ایڈہاک پر کام کریں گے شرط صرف ایک ہی ہے کہ اچھے بچے بن کر حکومت کرنی ہے اور یہ خناس دماغ میں نہیں پالنا کہ ہم جمہور کی رائے سے آئے ہیں ۔
اگر بات اتنی ہی سادہ ہے اور سیاسی تقسیم اسی طرح ہی ہے تو پھر پریشانی کیا ہے مسلئہ کیا ہے الجھن کیسی ہے یہ سیاسی بے چینی پھر کیوں عروج پر ہے تو اس سادہ سے سوال کا جواب بھی انتہائی سادہ ہے کہ مسلئہ جثے کا ہے۔ مسلئہ سائز کا ہے کہ سائز کم کیوں کیا جارہا ہے ۔اگر سائز کم ہوگا تو حصہ بھی بھی کم ملے گا تو کون سمجھائے کہ سائز بھی تو کسی کی مرہون منت تھا اس لیئے تو فلور آف دی ہاوس بات ہوئی کہ یہ الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ ہیں۔جب سلیکشن ہوگی تو پھر آخری فیصلہ بھی سلیکٹرز کا ہوگا۔اب یہ اعتراض تو ناجائز ہے نا کہ جب اپنی سلیکشن ہوئی تو سب ٹھیک تھا جب کوئی اور سلیکٹ ہوگیا تو سلیکشن پر پھر اعتراض کس لیئے اور کیوں۔
اب سلیکٹرز پر اعتراض مناسب بھی تو نہیں کیونکہ سلیکٹرز نے چانس تو سب کو دیا ہے ۔سب کی باری لگی ہے ۔کون ہے جس کو اس بہتی گنگا میں سے ہاتھ دھونے کا موقع نہیں ملا۔اب یہ تو اپنی اپنی اہلیت ہے کہ کوئی دو بار تو کوئی تین بار اور کوئی ایک بار بھی اپنی باری پوری نہیں کرسکا۔حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ شائد اب اقتدار سنبھالنا کسی اکیلے کے بس کی بات نہیں ہے ۔لہذا اب کی بار سب کوایک ہی ساتھ اقتدار دینے کا تجربہ بھی کرلیا جائے کیا پتہ حالات کچھ بہتر ہوجائیں ۔ملک وقوم کا کچھ بھلا ہوجائے ۔ملکی معیشت کچھ بہتر ہوجائے ۔کچھ نا کچھ سیاسی استحکام نصیب ہوجائے ۔عام آدمی کو دووقت کی روٹی کے ساتھ پرسکون زندگی نصیب ہوجائے ۔
سوچنے کی بات ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کے بعد جمہوریت بہترین انتقام ہے کے سلوگن کے بعد روشن اور نیا پاکستان اورپھر ریاست مدینہ کی تعمیر کے بعد سیاست نہیں ریاست بچاو کے نعرے کے بعد کون سا نعرہ مستانہ باقی ہے جو لگانا رہ گیا ہے ۔سیاسی نظام کے اندر ہم تمام ممکنہ آپشن بہت تیزی سے استعمال کررہے ہیں ۔اگر یہی رفتار رہی تو شائد مستقبل قریب میں کوئی سیاسی آپشن ہی باقی نا بچے جو استعمال کیا جاسکے۔اب آسمان سے تو کوئی اترے گا نہیں جو ہمارے حالات ٹھیک کرسکے بس یہی کچھ ہے جو چاک دامن میں ہے ۔ان ہی سے حالات کو بہتر کرنا ہوگا معاملات کو سنبھالنا ہوگا معیشت کی سمت درست کرنی ہوگی۔یہ سب اچھے ہیں یہ سب محب وطن ہیں مگر اس اہل نہیں کہ منجھدار میں پھنسی اس کشتی کو نکال سکیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک وسیع تر این آر او دیا جائے اور ملکی تمام سیاسی قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے ۔ملک وقوم کی خاطر سب اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر سرجوڑ کر بیٹھ جائیں اور ملک کی بہتری اور قوم کے مفاد میں فیصلے اتفاق رائے سے کریں ۔اس سے جہاں ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہوگا وہاں پر یہ اطمینان بھی حاصل ہوگا کہ ملک وقوم کو ایک متفقہ سمت مل جائے گی ۔ایک راستہ متعین ہوجائے گا ایک منزل کی نشاندہی ہوجائے گی کہ کہاں جانا ہے اور کیسے جانا ہے ۔اور اگر یہ ہوجاتا ہے و شائد یہ اس وقت کی سیاسی قیادت کی سب سے بڑٰی کامیابی ہوگی اور ملک وقوم کی سب سے بڑٰی خدمت بھی ہوگی۔اگر سب بضد رہے اور اپنی الگ کوشش کرتے رہے تو سب زہن نشین کرلیں کہ موجودہ حالات بھی اسی سیاسی قیادت کے پیدا کردہ ہیں ۔اگر دستیاب سیاسی قیادت اتنی ہی اہل ہوتی تو یہ حالات نا ہوتے جو ہم پر اس وقت بیت رہے ہیں ۔لہذا ضرورت اس امرکی ہے کہ ملکی سیاسی قیادت ایک صفحے پر آجائے اور اسی میں سب کی بہتری اور بھلائی ہے۔
۔
————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر