مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محرم کے ساتھ مجالس عزا کا آغاز ہوجاتا ہے۔ مرثیے، سوزوسلام اور نوحے ان مجالس کے لازمی اجزا ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ اردو نثر کی پہلی کتاب کا نام کربل کتھا تھا۔ اردو کے اولین دور کے بیشتر شعرا بھی اہل تشیع تھے۔ اس کی وجہ میری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ ہر سال امام حسین کا غم منایا جاتا ہے۔ اس مقصد سے شعر کہے جاتے ہیں۔ عقیدے سے قطع نظر اس سے زبان و بیان کو ترقی ملتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب بچہ ہوش سنبھالتے ہی نوحے اور مرثیے سنتا ہے تو اعلی معیار کی شاعری سے آشنا ہوتا ہے۔ خود اس میں شعر کہنے یا نثر لکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے ادب و صحافت میں اہل تشیع کی تعداد آبادی میں ان کے تناسب سے زیادہ ہوتی ہے۔
اس بارے میں گوپی چند نارنگ اور دوسرے نقاد تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ کربلا نے اردو شاعری، خاص طور پر غزل کو شدید متاثر کیا ہے۔ کربلا کا سارا پس منظر شاعر کے تحت الشعور میں رہا ہے، چاہے وہ شیعہ ہو یا سنی۔
یہ صورتحال اکیسویں صدی میں آکر بدلنا شروع ہوئی ہے۔ اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس کی پیش گوئی جوش ملیح آبادی کرچکے تھے۔ ان کا وہ ریڈیو انٹرویو، جو ان سے انتقال کے بعد نشر کرنے کے وعدے پر لیا گیا، اور حکومت بدلنے پر شرارتاًُ ان کی زندگی میں جاری کیا گیا، اس میں وہ یہ پیش گوئی کرتے سنائی دیتے ہیں۔ جوش نے خود درجنوں مرثیے کہے اور روایتی مذہبی شاعری کو نیا رنگ اور آہنگ دیا۔
جوش، جون ایلیا اور سبط حسن بہت بڑے نام ہیں۔ میں بے حد حقیر ہوں۔ لیکن یہ اعزاز مجھے حاصل ہے کہ ان لوگوں کی طرح مجھے بھی شیعہ ملحد قرار دیا جاتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ میں یہ الزام لگانے والوں کی لاج رکھوں۔
محرم کے عشرے میں ہر روز میں امام حسین اور کربلا سے متعلق کتابیں شئیر کروں گا۔ ان میں بعض کمیاب اور نایاب کتابیں بھی شامل ہوں گی۔
آج ان اہم شعرا کی کتابیں پیش کررہا ہوں جنھوں نے بڑی تعداد میں سلام اور نوحے کہے۔ قمر جلالوی، محسن نقوی، استاد سبط جعفر، سچے بھائی، میر احمد نوید، ریحان اعظمی، انیس پہرسری اور شوکت رضا شوکت سے پاکستان بھر کے لوگ، خاص طور پر عزادار واقف ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر