نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مملکت کا شریک مائی باپ بننے کی خواہش||حیدر جاوید سید

ایک دوسرے کی نفرت کا شکار سیاسی جماعتیں وقت پڑنے پر غیر پارلیمانی اداروں کو کاندھے فراہم کرتی ہیں اور بعدازاں احتجاجی موڈ بنالیتی ہیں، یہ دوہرا معیار ترک کرنا ہو گا میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو سے نجات حاصل کئے بغیر پارلیمان کی بالادستی اور دستور کی حاکمیت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقریباً چار ماہ سے جاری پنجاب کے سیاسی بحران کی نئی کروٹ سے پیدا شدہ صورتحال اور سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ پر اٹھائے جانے والے اعتراضات سے بنے ماحول پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے لیکن اس افسوسناک صورتحال کی کچھ ذمہ داری

"اُن ” پر بھی ہے جنہیں ایک طویل عرصہ سے مملکت کا شریک مائی باپ بننے کا شوق چرایا ہوا ہے اور بعض حالیہ عدالتی معاملات میں ان کا رویہ و عمل دونوں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں ” ہم ہیں تو ڈر کیسا ”

اسی طرح اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ پارلیمنٹ کے معاملات اور پارلیمانی قواعد کی خلاف ورزی ہر دو کو اگر پارلیمنٹ کے فورم پر نمٹانے کی شعوری کوششیں کی گئی ہوتیں تو یہ نہ صرف مناسب ہوتا بلکہ اس سے اہم بات یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے ایک وفاقی دستوری عدالت کا قیام عمل میں لاتی جو فیڈریشن کی چاروں اکائیوں کے نمائندوں (جج صاحبان) پر مشتمل ہوتی تو اس سے سیاسی و قانونی بحرانوں اور پیچیدگیوں پر قابو پانے میں مدد مل سکتی تھی،

دستور کی حاکمیت کی پامالی اور پارلیمانی امور میں مداخلت پر آج واویلا کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان سیاسی قائدین کی ہے جنہوں نے متنازع 19 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے حق میں ووٹ دے کر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کی خوشنودی حاصل کی تھی،

بہرطور اب اس امر کی پردہ پوشی ممکن نہیں رہی کہ 19آئینی ترمیم نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے عوامی حق کو بہت حد تک ختم کر دیا ہے، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کے ذمہ دار بھی خود سیاست دان ہی ہیں جو 75 برس بعد بھی اتنی صلاحیت پیدا نہیں کرسکے کہ سیاسی وپارلیمانی قواعد پر پیدا ہوئے اختلافات کو باہم مل بیٹھ کر طے کر سکیں،

جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ کیا منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے کے عدالتی فیصلہ پر کوئی ابہام ہے؟ تو بظاہر جواب بہت سادہ ہے منحرف ارکان کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس پر نظرثانی کے لئے کوئی فریق عدالت نہیں گیا، گزشتہ روز تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے ریویو پٹیشن دائر کرنے کا اعلان ضرور کیا ہے،

پچھلے چند دنوں سے ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کی نرم وگرم مداخلت زیر بحث ہے، اس بحث میں دلائل کے انبار لگاتے سیاسی رہنما عوام کو یہ ضرور بتائیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کا موقع کون دیتا ہے، کون کب اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو ملک اور نظام پر احسان قرار دیتا رہا ہے اور کب اس مداخلت کو عوام کے حق حکمر انی کی توہین ؟

ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ اپنی اپنی ضرورت کے لئے سبھی کو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت گوارہ بلکہ عزیزِ جاں ہوتی ہے، پچھلی کم ازکم تین دہائیوں کی سیاسی تاریخ اور اس عرصہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت والیکشن مینجمنٹ کے عمل پر ہمیشہ ایک طبقہ شاداں ہوا اور دوسرا ناقد

جبکہ جمہوریت اور عوام کے حق حکمر انی کی حفاظت کا طریقہ تو یہی تھا کہ پارلیمنی امور اور عوام کے عطا کردہ حق حکمر انی ہر دو پر کسی قسم کا سمجھوتہ کیا جائے نا محض اپنے آج کے لئے خاموشی اختیار کی جائے۔

 

پاکستانی سیاست میں سرگرم عمل سیاسی جماعتوں کو اب بھی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام کے حق حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر اتفاق رائے سے ایسی قانون سازی کرنا ہو گی جو کسی قسم کی بیرونی مداخلت کے سامنے کمزور نہ پڑے اس ضمن میں ایک قابل عمل تجویز وہی ہے کہ سیاسی و دستوری اختلافات طے کرنے کے لئے ہر پارلیمنٹ اپنی آئینی مدت کے عرصہ میں دونوں ایوانوں کے مساوی ارکان پر مشتمل آئینی وسیاسی کمیٹی قائم کرے اور اس کمیٹی کے فیصلے پر اختلاف رائے کی صورت میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر دوتہائی اکثریت سے رائے سازی ہو،

دوسری تجویز وفاقی دستوری عدالت کے قیام کی ہے اپنے پچھلے دور اقتدار میں پیپلز پارٹی نے وفاقی دستوری عدالت کے قیام کی تجویز دی تھی لیکن اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کی خوشنودی کے لئے بعض سیاسی جماعتوں اور الیکٹر انک میڈیا نے طوفان برپا کر دیا تھا تب تکرار کے ساتھ یہ کہا گیا کہ اس تجویز کا مقصد سپریم کورٹ کو بے اثر کرنا ہے

ستم ظریفی یہ ہے کہ اب وہی حلقے وفاقی دستوری عدالت کی ضرورت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ سیاسی وآئینی اختلافات طے کرنے کے لئے الگ سے عدالت اس لئے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ میں بعض سیاسی مقدمات اور اپیلوں کی کئی کئی سال شنوائی نہیں ہوتی اور بعض مقدمات کے لئے راتوں کو عدالتیں کھول دی جاتی ہیں

ہمیں یہ عرض کرنے میں کوئی امر ماع نہیں کہ عدالتی عمل پر تنقید کرنے کی بجائے سیاستدانوں کو اپنے غلط فیصلوں پر عوام سے معذرت کرنا چاہئے، ماضی میں جس کسی نے بھی سیاسی عمل اور نظام کو نقصان پہنچانے کا باعث بننے والے اسٹیبلشمنٹ کے مداخلتی عمل کا خیرمقدم کیا یا مداخلت کی دعوت دی ان تمام قائدین اور جماعتوں کو بھی کھلے دل سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت کرنی چاہئے

غلطی کا اعتراف اور معذرت کرنے سے ان کا قدکم ہو گا نہ شان میں فرق آئے گا بلکہ یہ دونوں باتیں اس خود احتسابی کی بنیاد ثابت ہوں گی جسے سیاستدان رواج نہیں دے پائے اور ایک دوسرے کی مخالفت ونفرت میں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کھیلتے آرہے ہیں

مکرر اس امر کی طرف متوجہ کرنا ازبس ضروری ہے کہ سیاستدانوں کا ایک طبقہ آج بھی اسٹیبلشمنٹ کی تھپکی کو شرف سمجھ رہا ہے اور دوسرا طبقہ ’’ہم کیوں نہیں‘‘ پر سراپا احتجاج ہے

جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی عمل اور نظام میں کسی قسم کی بیرونی ادارہ جاتی مداخلت کی متحد ہو کر مخالفت کی جائے

صاف سیدھی بات یہ ہے کہ اتفاق واتحاد سے پارلیمانی عمل میں بیرونی مداخلت کی مزاحمت صرف اس لئے نہیں ہو پارہی کہ سیاسی عمل نظریات کی بجائے شخصیات سے اندھی عقیدت پر استوار ہے، اس اندھی شخصی عقیدت نے ہی ملک میں حقیقی جمہوری نظام کی جدوجہد کو کامیاب نہیں ہونے دیا

صورتحال اور مسائل کا دیانتدارانہ تجزئیہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کے ذمہ دار وہ تمام لوگ ہیں جو کم ازکم پچھلے تین عشروں کے دوران شریک اقتدار ہوئے یا اقتدار حاصل کرنے میں کسی بھی طرح کامیاب

اندریں حالات یہ عرض کرنا غلط نہ ہو گا کہ سیاسی قائدین کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ شخصی انا اور گروہی بالادستی کے شوق کو ترک کرکے دستور کی کامل حاکمیت پر توجہ دیں اس کا واحد راستہ عوام کی منتخب کردہ پارلیمان کی حقیقی بالادستی ہے، دستور میں وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ پارلیمان ملک کا سب سے بڑا اور بااختیار ادارہ ہے

افسوس صد افسوس کے دستور کی تشکیل کے دن سے آج تک دستور میں درج اس بات کا دوسروں نے کیا احترام کرنا تھا خود سیاستدان اس کے احترام کے لئے تیار نہیں

ایک دوسرے کی نفرت کا شکار سیاسی جماعتیں وقت پڑنے پر غیر پارلیمانی اداروں کو کاندھے فراہم کرتی ہیں اور بعدازاں احتجاجی موڈ بنالیتی ہیں، یہ دوہرا معیار ترک کرنا ہو گا میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو سے نجات حاصل کئے بغیر پارلیمان کی بالادستی اور دستور کی حاکمیت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا

سیاستدان جتنے کم وقت میں اس حقیقت کو سمجھ لیں گے یہ ان کے اور نظام کے حق میں بہتر ہو گا ہم فقط نیک وبد سمجھا ہی سکتے ہیں۔

حرف آخر یہ ہے کہ دستور اور پارلیمینٹ کی طاقت عوام ہیں عوام جنہیں متخب کرتے ہیں وہ اپنی طاقت اور فرائض کو بھول کر پہلے باہم دست و گریباں ہوتے ہیں پھر دوسروں کو مداخلت کی دعوت دیتے ہیں نتیجہ ہمیشہ یہی نکلتا ہے

لڑتے لڑتے ہوگئی گم ، ایک چونچ اور ایک دُم۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author