نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کار ہوس۔۔۔||عامر حسینی

میں نے اپنی زندگی کا زیادہ حصّہ پاکستان کے سب سے بڑے اور واحد کاسموپولٹین شہر میں گزارا تھا اور وہاں میں نے پاکستان کے نامور انگریزی روزناموں اور ہفت روزوں میں اہم ترین بیٹس میں کام کیا تھا۔ اس کاسموپولٹین لائف میں شراب اور عورتوں کی رسد طلب سے ہمیشہ ہی زائد دیکھی اور آسانی سے عورتوں کی سینے اور ان کے کولہے دسترس میں رہے۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ملتان شہر میں روز اس لیے نہیں جاتا کہ میں وہاں سے نکلنے والے ایک اردو زبان کے روزنامے میں کام کرتا ہوں – میں وہاں روزانہ اس لیے بھی نہیں جاتا کہ وہاں مختلف سرکاری محکموں کے دفاتر کا وزٹ کرتا ہوں اور وہاں سے مجھے کسی نہ کسی افسر کی کرپشن، اختیارات سے تجاوز یا اس کے کسی اخلاقی سکینڈل بارے معلومات ملتی ہیں جنہیں رپورٹ کرنے سے پہلے ہی مجھے اتنے پیسے مل جاتے ہیں جو مجھے ماہانہ تنخواہ سے بے فکر کر دیتے ہیں جو اکثر لیٹ ہوجاتی ہے یا کئی ماہ گزرنے کے باوجود مل نہیں پاتی – اخبار کا مالک جو چیف ایڈیٹر بھی ہے مجھے روزانہ کی بنیاد پر یہ باور کراتا ہے کہ اخبار کی مقبولیت روز بڑھ رہی ہے اور عنقریب ایسے رشوت خور افسران، سرکاری ٹھیکوں میں گھپلے کرنے والے ٹھیکے داروں ، کک بیک کے عادی سیاست دانوں اور مختلف گھٹالوں میں ملوث شہر کے سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور تاجروں سے ماہانہ اتنا نذرانہ مل جایا کرے گآ کہ اخبار میں کام کرنے والے سارے کارکن عیش کی زندگی بسر کریں گے۔ میرے پاس مال بنانے والے سرکار کے اہم ترین محکموں کی بیٹ ہے جہاں میں روزانہ ایک سفاک جلاد کی طرح وارد ہوتا ہوں – میں ایک گھنٹہ نکال کر روزانہ ایک زرعی ادویات۔ کھاد اور سپرے کے طاقتور ٹائیکون کے بنائے کیفے میں جاکر بیٹھتا ہوں جس کام نام ‘مشروب خانہ’ ہے۔ وہاں اپنی تنخواہوں سے کہیں زیادہ اوپر کی کمائی کرنے والے سرکاری افسران کی بیویاں، بہنیں، بھابیاں، بیٹیاں، بیٹے(اپنی گرل فرینڈز) کے ساتھ آتے ہیں – وہاں سے تھوڑے فاصلے پر موجود چند بڑے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز، لیڈی ڈاکٹرز ۔ پیرا میڈیکل اسٹاف کی انگلیوں پر گنی جانے والی انتظامیہ ، اوپر کا مال کمانے والے شعبوں میں تعینات نان گزیٹڈ ملازمین اپنی داشتاؤں کے ساتھ آتے ہیں – رنگ برنگی عورتیں جن کے کولہے اور چھاتیاں میری توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں- ایک گھنٹہ میں ان کو خوب نہارتا ہوں- ان کی سر سے پاؤں تک سکریننگ کرتا ہوں۔ یہاں بڑی تعداد میں شہر کی کریم سے تعلق رکھنے والے ایسے اشراف بھی آتے ہیں جنہیں علت مشائح ہے جو ایسے خوبرو نوجوان لڑکوں کے ساتھ آتے ہیں جن کے ورزشی جسم اس بات کی چغلی کھاتے ہیں کہ وہ اشراف کی کیا خدمت کرتے ہیں- یہاں ایسے کم سن خوبرو لڑکے بھی آتے ہیں جن کی نسوانیت چھپائے نہیں چھپتی اور کچھ سے میں نے بھی استفادہ کیا ہوا ہے جب میں کسی عورت کی قربت کے لیے ترس رہا ہوتا ہوں اور اپنی ساری جنسی فرسٹریشن وائلنٹ طریقے سے ان کے منہ اور رانوں میں نکال دیتا ہوں۔ عرفان صدیقی میرٹھ کے ایک شاعر گزرے ہیں- ان کا کہنا ہے
عشق کیا، کار ہوس بھی کوئی آساں نہیں
خیر سے پہلے اسی کام کے قابل ہوجاؤ
واقعی ‘کار ہوس’ بھی کوئی آسان کام نہیں ہے – جس کیفے کا زکر کررہا ہوں اس کا مالک جو ایک بہت بڑے کارپوریٹ گروپ آف بزنس کا سی ای او ہے اس نے ‘کار ہوس’ کے لیے ایک طرف تو این جی او بنائی تو دوسری طرف ایجوکیشن سیکٹر میں قدم رکھا ،گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ تعلیمی ادارے بنائے اور وہاں سے اس نے اپنے لیے طالبات، مدرس خواتین اور نان ٹیچنگ اسٹاف میں کام کرنے والی عورتوں میں سے اپنے کار ہوس کے لیے اوور ٹائم کرنے کے لیے افرادی قوت مہیا کی اور اب وہ اس معاملے میں خود کفیل ہے۔ مجھے اس طرح کے آدمیوں سے شدید نفرت محسوس ہوتی ہے اور میں اپنی تحریروں میں اس قبیل کے آدمیوں پر خوب تبرا کرتا ہوں- اور صحافتی حلقوں میں مجھے ایک مجاہد صحافی سمجھا جاتا ہے جو فیمنزم کا بہت بڑا علمبردار ہے۔ ادبی حلقوں میں مجھے بہت بڑا تحریک نسواں کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میری نفرت کا سبب ایسے افراد سے جیلسی ہے۔ میں بھی ‘کار ہوس’ میں اندر دیوتا بننا چاہتا ہوں ۔ جب کبھی ایسے مرد اپنی کسی رکھیل کی بغاوت سے مجروح ہوتے ہیں تومیرا قلم بہت شور مچاتا ہے۔ اصل میں میری فرسٹریشن یہ ہے جو عورتیں اس جیسے راسپوٹین کے بستر کی زینت بنتی ہیں،میری کیوں نہیں بن جاتیں۔ میرے اندر بھی اس کے جتنے وسائل اور اختیارات حاصل کرنے کی خواہش موجود ہے جسے میں مقدس نظریات کا لبادہ پہناتا رہتا ہوں ۔ لیکن کیا میں اس لیے بار بار ملتان جاتا ہوں؟ نہیں ۔ تو کیا میں ملتان مانے تانے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ وقت گزارنے جاتا ہوں؟ نہیں؟ تب میں ملتان کیوں جاتا ہوں؟ جب میں اپنے چھوٹے سے قصباتی شہر کی رنڈی نما عورتوں کی صحبت میں وقت گزار کر اوب جاتا ہوں تب میں اپنی بوریت کو ختم کرنے کے لیے ملتان شہر کا رخ کرتا ہوں۔ آپ کے ذہن میں ابھرے گا کہ یہ ‘رنڈی نما عورتیں’ کون ہوتی ہیں؟ اور قصباتی شہرمیں ہی کیوں پائی جاتی ہیں؟ اس کے لیے آپ کو یہاں میرے ساتھ رہنا پڑے گا۔

میں نے اپنی زندگی کا زیادہ حصّہ پاکستان کے سب سے بڑے اور واحد کاسموپولٹین شہر میں گزارا تھا اور وہاں میں نے پاکستان کے نامور انگریزی روزناموں اور ہفت روزوں میں اہم ترین بیٹس میں کام کیا تھا۔ اس کاسموپولٹین لائف میں شراب اور عورتوں کی رسد طلب سے ہمیشہ ہی زائد دیکھی اور آسانی سے عورتوں کی سینے اور ان کے کولہے دسترس میں رہے۔ اور عورتوں نے بھی ایسے رشتوں میں آکر کبھی بھی ان رشتوں کو عذاب نہیں بنایا تھا- عورتیں اپنے اندر کی رنڈی کو باہر لانے میں دیر نہیں لگاتی تھیں اور مستقل نتھی ہوجانے، مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اپنے اندر داخل ہونے والے مرد سے جونک کی طرح چمٹ جانے کا عمل شاذ و نادر ہی؛ دہرایا کرتی تھیں- جب صحبت بے مزا ہوجایا کرتی تو دونوں اپنا راستا ناپتے تھے اور پوسٹ ریلیشن شپ دور میں کسی ٹراما کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ پوسٹ ریلشن شپ دور میں وہ نارمل افراد کی طرح ملا کرتے تھے – مرد اس بات کو لیکر نہیں بیٹھ جایا کرتا تھا کہ اسے سر راہ یا کسی تقریب میں یا اس کے کام کی جگہ پر ملنے والی عورت کا جسم اس کی دسترس میں تھا اب نہیں ہے یا مرد کبھی اس کی خلوت کا ساتھی تھا۔ قصباتی شہر میں عورتیں اپنے اندر کی رنڈی کو کسی مرد کے سامنے آسانی سے بے نقاب ہونے نہیں دیا کرتیں یا وہ کار ہوس کو بھی عشق کا نام دینے پر مجبور ہوا کرتی تھیں – مرد بھی ایسے ظاہر کرتے جیسے وہ عورت کی روح سے عشق کرتے ہیں اور فقط وہ ہی عورت ان کے اعصاب ہی نہیں ان کی روح پر سوار ہے اور اس دوران کار ہوس کے تقاضے ضمنی ہیں- اس مشاہدے اور حقیقت کے افشا نے میری فرسٹریشن بڑھا دی تھی – یہاں عورتیں صحت ، تعلیم کے شعبوں میں بے شمار تھیں یا پھر وہ بازار میں کپڑے کی دکانوں، جنرل اسٹور، شاپنگ سنٹرز، کاسمیٹک، جیولری کی دکانوں پر پائی جاتی تھیں- اکثر عورتیں برقعوں اور عبایا میں چھپی ہوتی تھیں۔ ہر ایک عورت بی بی نیک پروین اور جنس سے برملا نفرت کا اظہار کرتی پائی جاتی تھیں- کنواری اکثر عورتیں اپنے لیے مناسب بر کے میسر آنے کی منتظر ہوتیں اور شادی شدہ عورتیں اپنی جنسی زندگی کے بے کیف ہونے کا مداوا مذہبی سرگرمیوں میں تلاش کرتی پائی جاتی تھیں- اس کے باوجود شادی شدہ عورتوں اور مردوں کی بڑی تعداد ممنوعہ جنسی تعلقات رکھتے تھے اور اکثر بہت زیادہ مذہبی ہوا کرتے تھے۔ میرے لیے سب سے بڑی حیرت یا شاک یہ تھا کہ انہیں ایک لمحے کے لیے بھی پنے مذہبی اخلاص پر شک نہیں ہوتا تھا۔ اور سب سے بڑا لطیفہ یہ تھا کہ وہ ممنوعہ جنسی رشتوں میں بھی اپنا ‘کفو’ تلاش کرتی تھیں- یعنی بریلوی عورت اکثر بریلوی مرد، شیعہ عورت شیعہ مرد، وہابی یا دیوبندی عورت وہابی یا دیوبندی مرد سے ممنوعہ جنسی تعلق میں جڑا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی تو یہ کفو برادری، قبیلہ اور نسل تک چلا جایا کرتا تھا۔ غیرکفو سے ممنوعہ تعلق کھل جاتا تو ایک ہنگامہ بپا ہوجایا کرتا تھا۔ قصباتی شہر میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ کئی ایک چکلے کام کررہے تھے۔ بیوٹی پارلرز کے نام پر ایسے بہت سارے مرکز تھے۔ لیکن مجھے وہاں جاکر زرا لطف نہیں آتا تھا۔ قصباتی شہر میں گوسپ کا کاروبار بھی خوب چلتا تھا۔ شہر کی معروف عورتوں اور مردوں کے ممنوعہ جنسی تعلقات کی سچی جھوٹی کہانیاں چائے کے ہوٹلوں ، کام کی جگہوں پر ہمیشہ گردش کرتی رہتی تھیں- ‘کار ہوس’ قصباتی شہر میں پورے زور و شور سے جاری تھا لیکن میں زیر زمین کار ہوس کی دنیا میں کیسے داخل ہوں؟ مجھے راستا نہیں ملتا تھا۔ کئی سال گزرگئے اور پھر ایک دن مجھے اس دنیا میں داخل ہونے کا راستا مل گیا- میں اپنے اخبار کے لیے خبریں اکٹھی کرنے جن دفاتر میں روزانہ کی بنیاد پر جایا کرتا تھا ان میں سے ایک دفتر ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس بھی تھا- ایک دن حسب معمول میں اس دفتر پہنچا تو ایک گیلری میں میرا شناسا ایک شخص ایک عورت کے ساتھ میری طرف بڑھا – اس نے کہا کہ سر! یہ سمیرا الطاف ہیں، محکمہ صحت میں ملازم ہیں اور انہوں نے اپنا بینک اکاؤنٹ تبدیل کیا ہے ، ڈپٹی اکاؤٹنٹ ان کے چینج فارم پر دسخط کرنے اور مہر لگانے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ ان کے کچھ واجبات کے بلز بھی ہیں کئی ماہ سے پے رول میں ان کی تنخواہ میں شامل نہیںکیے جارہے۔ مجھے پتا تھا تھا کہ ایسے کاموں کے لیے ملازمین اپنے کلرکوں سے کچھ لے دے کر کام کرالیا کرتے تھے۔ میں نے وہی کرنے کو کہا تو عبایا و نقاب میں لپٹی سمیرا الطاف بولیں،’سر! پیسے دینے کو تیار ہیں، کلرک گیا تھا لیکن ڈپٹی اکاؤٹنٹ نے مجھےے آنے کو کہا میں گئی تھی لیکن کام نہیں ہوا’ ، میں نے پوچھا،’کیوں؟ ، کہنے لگی ،’بس سر سمجھ جائیں! مجھے بات کچھ سمجھ نہیں آئی تو میرا شناسا دوست بولا ، سر میں بعد میں آپ کو سب بتاؤں گا، آپ فی الحال ڈی اے او فرسٹ کو کہیں کہ یہ کام کرادے، وہ آپ کی بات نہیں ٹالے گا- میں نے اس خاتون کو اپنے ساتھ آنے کو کہا اور دی اے او فرسٹ کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ وہ مجھے اٹھ کر تپاک سے ملا۔ میں نے جاتے ہی ڈی ای اے کو کہا کہ ہائی ویز کے زرایع سے پتا چلا کہ انہوں نے آپ سے ملکر ایسے ترقیاتی منصوبوں کی ایڈوانس ادائیگیاں کی ہیں جن پر سرے سے کوئی کام نہیں ہوا- میں نے دو تین ترقیاتی منصوبوں کے نام لیے۔ اس پر افسر تھوڑا گڑبڑا گیا اور پھر زرا سنبھلتے ہوئے کہا کہ میں ایکسئن ہائی ویز کو کہتا ہوں،وہ آپ سے ملے گا- ‘وہ تو مجھے مل ہی لے گا، آپ کب ملیں گے؟’ میں نے تھوڑا سختی سے کہا تو کہنے لگا کہ آج شام ہماری طرف سے بھی آپ کا شکوہ ختم ہوجائے گا ۔ چائے کے ساتھ کیا کھانے کو منگواؤں’ ، میں نے سمیرا الطاف کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ میری عزیزہ ہیں، ان کا مسئلہ سنیں اور فوری حل کریں- انہوں نے سمیر الطاف سے کاغذات لیے، گھنٹی بجائی ، نائب قاصد دروازہ کھول کر اندر آیا اور انھوں نے کسی کا نام لیا اور اسے بلاکر لانے کو کہا۔ تھوڑی دیر میں ایک شخص اندر داخل ہوا- اس نے سمیرا الطاف کو دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک دم سے سختی آگئی مگر کچھ نہیں بولا ۔ ڈی اے او فرسٹ نے کاغذات اسے پکڑائے اور کہا کہ بینک اکاؤنٹ تبدیل کریں اور اسی پے رول میں خاتون کے واجبات کا بل بھی شامل کریں- اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنے کی کوشش کی تھی کہ افسر بالا نے اسے کہا کہ کوئی بات نہیں سنی جائے گی بس جو کہا گیا ہے کریں- اگر آپ سے نہیں ہوتا تو وہ محکمہ صحت کی تنخواہیں، واجبات اور پنشن کیسز کی ذمہ داری کسی اور کو دے دیتے ہیں- اس پر وہ گھبراگیا اور فوری طور پر وہاں سے چلا گیا- اس کے جانے کے بعد میں نے ڈی اے او کہا کہ آگے سے میری عزیزہ کو آفس نہ آنا پڑے۔ اس نے کہا نہیں آنا پڑے گا- فون اٹھایا اور اپنے آپریٹر سے کہا کہ محکمہ صحت کے ہیڈکلرک سے بات کرائے۔ تھوڑی دیر میں ہیڈکلرک لائن پر تھا، ڈی ای او نے اسے کہا کہ سمیرہ الطاف کے تیار کرکے ان کے پاس بھجوایا کرے۔
‘اب آپ خوش ہیں؟’ افسر نے مجھ سے پوچھا، میں نے شکریہ ادا کیا اور آج کی ڈاک منگوانے کو کہا، اور خاتون سے کہا کہ وہ چلی جائے۔ تھوڑی دیر بعد جب میں اس آفس سے باہر نکلا تو دفتر کی عمارت کے باہر وہ خاتون کھڑی ہوئی تھی – اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ایک سفید لفافہ میری طرف بڑھایا- میں نے اسے کہا کہ وہ اپنے پاس ہی رکھے ۔ ‘اگر زحمت نہ ہو تو مجھے اپنا رابط نمبر دے دیں۔ اشد ضرورت میں رابطہ کروں گی ‘ خاتون نے منمناتے ہوئے کہا، میں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ اسے نکال کر دے دیا۔ ایک ہفتہ گزر گیا، اس دوران اس خاتون کے ایس ایم ایس گڈ مارننگ ، سٹے بلییسڈ ، گڈ نائٹ اور کبھی کبھی کوئی مذہبی قول زریں ملتے رہے۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا- ایک مرتبہ رات کے 11 بجے میرے موبائل فون کی میسجنگ ٹون بجی میں نے میسج باکس کھولا تو ‘سمیرا الطاف ‘ کا پیغام آیا ہوا تھا،
‘آپ کیا مجھے مسیج کے جواب دینے کے قابل بھی نہیں سمجھتے؟’

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author