نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایاز امیر پر حملہ||حیدر جاوید سید

اس سوال پر غور کرنے لگا تو مجھے وہ ’’دانشور‘‘ یاد آگیا جس نے پیپلزپارٹی میڈیا سیل کے سربراہ کے طور پر 19ماہ 18لاکھ روپے وصول کئے اور پھر لاہور میں تین باربر شاپس کھول لیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایاز امیر بھلے آدمی ہیں، فوج میں کپتان تھے پھر سول سروس میں گئے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دنوں میں غالباً ماسکو کے پاکستانی سفارتخانے میں تعینات تھے۔ سرکاری ملازمت چھوڑی کالم نگاری شروع۔

انگریزی میں کالم لکھتے تھے۔ اردو پڑھنے والوں کا ان سے تعارف اس وقت ہوا جب 1990ء کی دہائی کے آخری برسوں میں مختلف اخبارات نے منتخب انگریزی کالم اور مضامین ترجمہ کرواکر شائع کروانا شروع کئے ان کا ترجمہ شدہ اردو کالم مختصر وقت کے لئے ایک سنڈیکیٹ کی جانب سے بھی ان اخبارات کو بھجوایا گیا جنہوں نے اس ’’سنڈیکیٹ‘‘ کی خدمات حاصل کیں۔

یہ تجربہ کامیاب نہ ہوسکا اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ خود کو ’’قومی اخبارات‘‘ کہنے والے نہیں چاہتے تھے کہ ریجنل سطح پر شائع ہونے والے اخبارات بھی ان کالم نگاروں کے کالم شائع کریں۔ ایاز امیر اب برسوں سے ایک اردو اخبار کے لئے کالم لکھتے ہیں۔ کھلے ڈھلے آدمی ہیں کچھ لوگوں بلکہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ لبرل ہیں۔

ان کے لبرل ہونے کی دلیل اکثر کالموں میں بعض امور کی جانے والی کھلی ڈلی گفتگو ہے جیسا کہ شام کی محفلوں کا تذکرہ، دختر انگور پر پابندی کا شکوۂ مسلسل۔

ان کی عمومی شہرت اسٹیبلشمنٹ کے ناقد کی ہی رہی۔ گو وہ اس میں حدودوقیود کا خیال رکھتے چلے آرہے ہیں۔ انہیں ایک قاری کے طور پر برسوں سے پڑھ رہا ہوں۔ بطور کالم نگار مجھے پسند ہیں۔ چکوال سے اٹھے اس آدمی کی اردو غضب کی ہے۔

مطالعہ بہت اعلیٰ۔ جملوں کی بنت بہت کمال کی۔ حافظہ بھی اچھا ہے۔ کالم نگاری کے لئے یہی لوازمات درکار ہوتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ کسی کالم نگار کی فہم اور عصری امور کے حوالے سے اس کی آراء ہر دو سے پڑھنے والوں کے لئے سوفیصد متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا۔

ایاز امیر کچھ عرصہ سیاست کے میدان میں بھی رہے۔ چکوال ہی سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ پھر اس بھاری پتھر کو چوم کر پلٹے اور دوبارہ سے کالم نگاری شروع کردی۔

پچھلے کچھ برسوں سے وہ ایک میڈیا ہائوس کے چینل کے مستقل تجزیہ نگار ہیں اسی میڈیا ہائوس کے اخبار میں ان کا کالم بھی شائع ہوتا ہے۔ ایک قاری اور ناظر کے طور پر میں ان کا معترف رہا اور ہوں بھی

البتہ میرے دل سے وہ اس دن اتر گئے تھے جب انہوں نے ایک شام اپنے میڈیا ہائوس کے چینل پر کہا ’’بلاول کو لیاری سے الیکشن لڑانے کی کیا ضرورت تھی لڑکے کو خیبر پختونخوا سے الیکشن لڑواتے پٹھان بھائی بہت باذوق ہیں‘‘۔

شاندار آدمی اتنا نیچ بھی ثابت ہوسکتا ہے؟

اس سوال پر غور کرنے لگا تو مجھے وہ ’’دانشور‘‘ یاد آگیا جس نے پیپلزپارٹی میڈیا سیل کے سربراہ کے طور پر 19ماہ 18لاکھ روپے وصول کئے اور پھر لاہور میں تین باربر شاپس کھول لیں۔

اپنی بدزبانی کے لئے مشہور اس ’’دانشور‘‘ پر ایک اور چوری کا زندہ الزام بھی ہے وہ یہ کہ اس کے نام سے شائع شدہ خطوط کی ایک کتاب اس کی نہیں بلکہ ایک دوست نے اپنا مسودہ اسے دیکھنے کے لئے دیا تھا پھر کیا ہوا وہی جو اکثر ہوجاتا ہے۔

خیر رہنے دیجئے یہ دانشور ہمارا موضوع نہیں۔ ہم ایاز امیر کی بات کررہے تھے۔ اپنی لبرل سوچ، مطالعے اور جملوں کی بنت کی بدولت وہ ہم جیسے صحافت کے طلباء کو عزیز ہوئے دل سے کیوں اترے وجہ بالائی سطور میں عرض کردی ہے۔

انہوں نے بلاول کے متعلق بیہودہ بات کیوں کی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ ان کے سابق محکمے نے ایک منظم مہم کے تحت ہمیشہ پیپلزپارٹی اور خصوصاً بھٹو خاندان کی کردار کشی کروائی، بلاول کے متعلق اوٹ پٹانگ باتوں اور بیہودہ گفتگو کو رواج دینے والے آصف غفور ہیں یہ موصوف آئی ایس پی آر کے سربراہ بھی رہے ہیں ، میری دانست میں لبرل ایاز امیر کے اندر کا سابق عسکری ’’دانشور‘‘ چند لمحوں کے لئے بیدار ہوا اور انہوں نے اپنے گاڈفادر محکمے کی پروپیگنڈہ مہم میں ایک ٹی وی چینل پر بیٹھ کر حصہ ڈالا۔ ایک وجہ اور بھی ہے وہ ضبطِ تحریر میں لانا ممکن نہیں آخر اخلاق بھی کوئی چیز ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ آج جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو 5جولائی کی مناسبت سے پیپلزپارٹی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں ایاز امیر بھی خطاب کررہے ہوں گے۔

پیپلزپارٹی کو ہمیشہ وہی لوگ محبوب رہے جو اس جماعت کے ’’کپڑے‘‘ چوراہوں، کالموں اور تجزیوں میں اتاریں۔ چلیں یہ فریقین کا آپسی معاملہ ہے۔

ایاز امیر پر گزشتہ دنوں کی ایک شام لاہور میں چھ سات نامعلوم افراد نے حملہ کیا۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب وہ اپنے میڈیا ہائوس کے چینل پر اپنا پروگرام کرکے واپس جانے کے لئے روانہ ہورہے تھے۔ لاہور کے ایبٹ روڈ پر واقع میڈیا ہائوس کی بلڈنگ والا علاقہ بہت ساری وجوہات کی بنا پر صبح دم سے رات گئے تک بارونق علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔

یہاں دو سینما گھر ہیں جہاں پنجابی سٹیج ڈرامے ہوتے ہیں۔ کچھ فاصلے پر ڈی جی پی آر کا دفتر ہے اس سے آگے پی ٹی وی کی عمارت ، ریڈیو پاکستان کی پی ٹی وی سے ایک دیوار سانجھی ہے لیکن اس کا داخلی راستہ دوسری طرف ہے۔ چند علاقائی اخبارات کے دفاتر بھی اس علاقے میں ہیں۔

کچھ ہی فاصلہ پر تھانہ بھی ہے۔ اس علاقے میں تقریباً چوبیس گھنٹے ہی پولیس والے موجود ہوتے ہیں۔ شام کے پررونق وقت میں میڈیا ہائوس کے باہر ادارے سے منسلک معروف کالم نویس اور تجزیہ نگار پر حملہ ہوا اور میڈیا ہائوس کے سکیورٹی گارڈ کچھ نہ کرپائے۔

سی سی ٹی وی کیمرے کی ویڈیوز کے حوالے سے دو آراء ہیں ایک یہ کہ اس وقت کیمرے بند تھے (بند تھے یا بند کروائے گئے؟) دوسری یہ کہ فوٹیج ڈیلیٹ کردی گئیں۔ دونوں میں سے کون سی بات درست ہے یا دونوں غلط اور اصل صورتحال کیا ہے اس کی وضاحت متعلقہ میڈیا ہائوس ہی کرسکتا ہے۔

ایاز امیر پر حملہ کیوں ہوا؟ وہ خود اسے ریاست کا کام قرار دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامی اور چند دیگر طبقات کے خیال میں یہ ’’نیوٹرل‘‘ کا کیا دھرا ہے۔

ایک طبقہ اسے عمران خان کی ٹائیگر فورس کی ہاتھوں کی صفائی بھی کہتا ہے۔ یہ رائے رکھنے والے کہتے ہیں کہ ٹائیگر فورس کو منظم کرنے میں معاونت کرنے والے سابق فوجی افسران کے لئے آٹھ دس کمانڈو ٹائپ ٹائیگر تیار کرنا کوئی مسئلہ نہیں۔

ہماری دانست میں تحقیقات سارے پہلو سامنے رکھ کر کی جانی چاہئیں۔ عمومی رائے یہ ہے کہ ایاز امیر نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ’’رجیم چینج‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار میں جو تقریر کی، حملے اور اس تقریر میں تعلق ہے۔

ایک طبقہ اس کی ذمہ داری ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر اور دوسرا عمران خان پر ڈال رہا ہے۔ اپنی تقریر میں ایاز امیر نے دونوں پر کھلی تنقید کی تھی۔ وہ تقریر بہت شاندار تھی۔ ایاز امیر نے جہاں اپنے سابق محکمے کو آڑے ہاتھوں لیا وہیں عمران خان کو بھی کھری کھری سنائیں۔ یہاں تک کہ ’’دماغ کا خناس‘‘ جیسے الفاظ بھی استعمال کئے لیکن انہوں نے اسی تقریر میں عمران خان کو چی گویرا بھی کہا۔

ایاز امیر جیسا وسیع المطالعہ آدمی گوئبلز کے سے مزاج و اطوار والے شخص کو چی گویرا کہے تو افسوس ہی ہوگا۔

اس بات پر دو آراء ہرگز نہیں کہ ان پر ہونے والے حملے کی آزادانہ تحقیقات اور ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا بہت ضروری ہے لیکن انہیں بھی سوچنا ہوگا کہ خود انہوں نے پچھلے دور میں بعض اہل صحافت کے ساتھ ریاست اور حکومت دونوں کے کارندوں کے ناروا سلوک پر چپ سادھے رکھی تھی۔ کاش انہوں نے تب بھی کہا ہوتا

’’اس طرح کے واقعات ریاست کے خوف کی نشاندہی کرتے ہیں‘‘۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author