نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عقیل یوسفزئی کا ’’وارزون‘‘||حیدر جاوید سید

عقیل یوسفزئی نے صحافتی شعبہ میں بہت محنت سے مقام بنایا۔ محنت سے وہ اب بھی جی نہیں چراتا اس کا ثبوت پشتو چینل پر نشر ہونے والا اس کا پروگرام ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’وار زون‘‘ عقیل یوسفزئی کی تحریروں کا انتخاب ہے ان تحریروں کا جو پاک افغان تعلقات، طورخم کے دونوں طرف بستے پشتونوں کے نسلی تاریخی سماجی مراسم کے ساتھ دونوں طرف کی سیاسی صورتحال کے ہر دو اطراف پڑنے والے اثرات کا احاطہ کرتی ہے۔

کتاب میں پاک افغان پالیسی کی اونچ نیچ، افغانستان میں طالبانائزیشن، اس کے پاکستانی پشتون علاقوں پر مرتب ہوئے اثرات کے ساتھ مقامی سیاست، پشتون قوم پرستی بارے بھی بہت کچھ ہے۔

عقیل یوسفزئی سے ابتدائی تعارف ’’مشرق‘‘ پشاور میں قلم مزدوری کے برسوں میں ہوا بطور رپورٹر اس نے اپنے نام کا سکہ جمایا منوایا۔

ان برسوں میں عقیل یوسفزئی، سید امجد علی ان کی اہلیہ محترمہ، شاہد اقبال، سہیل قلندر، عزیز احمد چترالی اور دوسرے بہت سارے نوجوان اسی ادارے میں مختلف شعبوں میں فرائض سرانجام دیتے تھے۔

کچھ دوست اب بھی اس میڈیا ہائوس سے منسلک ہیں۔ برادرم سید امجد علی نے بھری جوانی اور ابھرتی ہوئی صحافتی شناخت کے ماہ و سال میں اچھا فیصلہ کیا۔

صحافت کے شعبہ کو تین سلام کئے اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی سے منسلک ہوگئے۔ سید امجد نے اس خفیہ راز سے آج تک پردہ نہیں اٹھایا کہ آخر انہوں نے صحافت ترک کرکے ملٹی نیشنل کمپنی کیوں جوائن کی۔ ویسے انہیں چاہیے تھا کہ کم از کم صبح شام ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے دوستوں کی رہنمائی کردیتے۔

ان کی اہلیہ پشاور میں میں ہی ایک بڑے نیوز چینل کی بیوروچیف ہیں۔

سہیل قلندر جس تیزی کے ساتھ آسمان صحافت پر ابھرے تھے اتنی ہی جلدی دنیا سرائے سے رخصت ہوگئے۔

بات عقیل یوسفزئی کی کتاب ’’وارزون‘‘ سے شروع ہوئی تھی ہم دونوں نے پشاور کے تین اشاعتی اداروں میں برسوں اکٹھے قلم مزدوری کی۔ عقیل اب بھی پشاور میں ہی پشتو کے ایک چینل میں حالات حاضرہ کے پروگرام کی میزبانی کے ساتھ کالم بھی لکھتا ہے۔

خیبر پختونخوا کی سیاست اور افغانستان ہمیشہ اس کے پسندیدہ موضوعات رہے ان پر وہ گھنٹوں نان سٹاپ گفتگو کرسکتا ہے۔ ’’وار زون‘‘ کے بیک فلیپ پر اس کا چمکتا ہوا تعارف اس کی صلاحیتوں، محنت اور لگن کا گواہ ہے۔

افغانستان کی سیاسی صورتحال اور پاک افغان پالیسی کے ماہ و سال پر اس کی گہری نگاہ اور معلومات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

چہرے پر سجی مسکراہٹ کے پیچھے طوفان ہے انقلاب یا رنج اس کا فیصلہ مشکل ہے البتہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مسکراتا ہوا ملے گا۔ ’’وار زون‘‘ کی تحریریں افغانستان کے معاملات سیاسی اتارچڑھائو، امریکہ اور اتحادیوں کے کردار حامد کرزئی سے اشرف غنی تک کی پالیسیوں اور پھر طالبان کے عروج کے منظر و پس منظر سے آگاہ کرتی ہیں

ایک تحریر میں اس نے کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کی کتاب کا بھی ذکر کیا ہے اور یہ محض ذکر نہیں ہے بلکہ اس تحریر میں عقیل نے نورولی محسود کی فہم کا شاندار تجزیہ کیا ہے۔

رحیم اللہ یوسفزئی مرحوم کے بعد عقیل یوسفزئی دوسرا پشتون صحافی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ نورولی محسود پشتون قوم پرستی اور اپنی اسلام پسندی دونوں کو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ اس تحریر سے ایک اوربات بھی واضع ہوتی ہے کہ ٹی ٹی پی کی موجودہ قیادت کے خیال میں پشتون مسلمان (کالعدم ٹی ٹی پی کے ہم خیال) ہی پاکستان میں اسلام کی نشاط ثانیہ کے علمبردار ہیں

یہی نہیں بلکہ کالعدم ٹی ٹی پی سے منسلک قبائلی پشتون ہی اسلام اور اسلامی نظام کا حقیقی دفاع کرسکتے ہیں۔ سادہ مطلب یہ ہوا کہ اپنی تنظیم کی بالادستی کے لئے وہ قوم پرست اور اسلام پسند پشتونوں میں سے کسی کو بھی ناراض کرنے کی بجائے یہ چاہتے ہیں دونوں مل کر کام کریں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا کالعدم ٹی ٹی پی ایک ایسی اسلامی ریاست کا خواب دیکھ رہی ہے جس کی قیادت پشتون قبائل بلکہ قبائل میں سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ہم خیالوں کے پاس ہو۔

عقیل نے افغانستان میں امریکہ اور اتحادیوں کی آمد اور پھر قیام کے برسوں میں پیدا ہونے والے مسائل پر بھی تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اس کے خیال میں افغانستان کی 55فیصد پشتون آبادی سے امریکہ اور اتحادیوں نے ’’طالبان‘‘ سمجھ کر برتائو کیا اور دیگر نسلی اکائیوں کو اکثریت پر ترجیح دی۔ اس کے خیال میں امریکی سوچ کو عملی شکل حامد کرزئی نے دی۔ اس سوچ سے بقول عقیل نقصان یہ ہوا کہ پشتون اکثریتی آبادی کی ہمدردیاں امریکہ و اتحادیوں اور افغان حکومت کے مقابلہ میں جنگجوئوں کے ساتھ ہوتی گئیں۔ اس بات کا بھی اس نے تجزیہ کیا کہ پاکستان کی افغان پالیسی دوغلے پن سے عبارت تھی یا اس میں یکسوئی رہی۔

امریکی سی آئی اے کے ایک بڑے عہدیدار (سابق) کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا ’’ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم نے تمام پشتونوں کو طالبان یا ان کا حامی سمجھ کر ان سے برتائو کیا اور ان عناصر کی سرپرستی کی جن کے ساتھ اکثریتی پشتون آبادی کی دیرینہ کشیدگی چل رہی تھی۔

سی آئی اے کے اس بڑے کے بقول ’’ہم سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے پاکستان کے کردار کو نظرانداز کیا اور افغان طالبان کی حمایت کی آڑ میں اسے ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا

حالانکہ 1990ء کی دہائی میں طالبان کو اقتدار دلوانے میں بنیادی کردار ہمارا (امریکہ کا) تھا۔ اور پاکستان نے اس میں معاونت کی تھی‘‘۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم ایسے طالب علم عشروں سے یہی لکھ کہہ رہے ہیں کہ افغان طالبان کی اٹھان کے پیچھے امریکہ تھا، پاکستان کی افغان پالیسی کے معماروں اور اس پالیسی سے رزق کمانے والوں کے سوا کسی کا اس میں عمل دخل نہیں۔

سول حکومتوں کی کتنی اوقات اور حدود ہیں یہ جانتے ہوئے بھی ہمارے سرخیاں پڑھے مجاہدین ایسی دانش رولتے ہیں کہ رہے نام خدا کا۔ ’’وار زون‘‘ میں شامل تحریریں پڑھنے کے لائق ہیں ان تحریروں سے آپ پشتونوں کے اس طبقے کی آراء سے بھی آگاہ ہوسکتے ہیں جو پشتونوں کی جغرافیائی تقسیم پر رنج میں رہتے ہیں۔ اس طبقے کی بھی جو پشتونوں کی مذہب دوستی کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے۔

یہ طبقہ ریاستی بھی ہے اور غیرریاستی بھی۔ کتاب پڑھتے ہوئے اگر آپ جنرل پرویز مشرف کے دور خصوصاً 9/11 کے بعد منصوبے کے تحت پھیلائی گئی مسلم پشتون ولی (یہ پختون ولی کی طرح کا ایک نیا نظریہ تھا) کو ذہن میں لائیں تو بہت سارے سوالات کا جواب مل جائے گا۔

عقیل یوسفزئی نے صحافتی شعبہ میں بہت محنت سے مقام بنایا۔ محنت سے وہ اب بھی جی نہیں چراتا اس کا ثبوت پشتو چینل پر نشر ہونے والا اس کا پروگرام ہے۔

ترقی پسند شعور سے گندھا عقیل وسیع حلقہ احباب بھی رکھتا ہے یہاں تک بہت سارے اسلام پسند اس کے حلقہ یاراں میں شامل ہیں۔ ’’مشرق، میدان اور آج‘‘ پشاور کے تین اشاعتی اداروں میں ہم نے برسوں اکٹھے محنت مشقت کی سفید پوش گھرانوں میں جنم لینے اور پھر نظریہ پالنے کا المیہ یہی ہے کہ آخری سانس تک محنت کرتے رہیں اور ’’باتیں بھی سنیں‘‘ عقیل کی کتاب ’’وار زون‘‘ کی اشاعت سے خوشی ہوئی میری خواہش ہے کہ وہ پشتون قوم پرست سیاست کی تاریخ لکھے اسے لکھنی بھی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author