عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: نادیہ حرحش کا تعلق فلسطین سے ہے اور مذکورہ بالا مقالے نے خوب شہرت پائی
ایک اچھا مسلمان ہونے کا مطلب ہمیشہ کتاب(اللہ) اور سنت(رسول اللہ) کو جاننا اور اگر مراعات یافتہ ہو تو الغزالی کی کتاب احیائے علوم الدین تک رسائی حاصل کرنا ہوتا ہے۔
میں ان مراعات یافتہ افراد میں سے ایک تھی جن کے پاس ان کی لائبریری کی شیلف میں ‘احیاءالعلوم الدین’ سجی ہوتی ہے اور جب بھی مجھے اپنی روزمرہ زندگی میں خدا کے کسی حکم کو سمجھانے یا کرکے دکھانے میں دشواری ہوتی تھی تو آسانی سے اس کا حوالہ دے دیا کرتی تھی –
کس طرح ہم اپنا ہمیشہ سے اپنایا ہوا راستا ترک کردیتے ہیں یا یو-ٹرن لیتے ہیں جب وہ باقاعدہ راستے کام نہیں کرتے۔
ایک دن میں ایک طلاق یافتہ عورت کے طور پر بیدار ہوئی اور عبادات کا مشاہدہ کرنے کا میرا سفر شروع ہوگیا-
(خدا سے لگاؤ) نے ایک مختلف موڑ لے لیا۔ میں نے ایک تعلیمی مقالے پر کام شروع کیا جس میں روایت اور مذہب کے حوالے سے یروشلم میں مسلم خواتین کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور وہاں میری ایک بار پھر الغزالی سے ملاقات ہوئی۔ اس بار اس کےعظیم عالم ہونے کی حیثیت سے نہیں جس نے خدا کے احکامات کی صحیح انداز میں تشریح کرنے میں میری مدد کی بلکہ اس شخص کے طور پر جس پر مسلم فیمنسٹ عورتیں آج اسلامی دنیا میں خواتین کے مقام و مرتبہ کو مسخ و تباہ کرنے کی ذمہ داری؛ی ڈالتی ہیں-
مجھے ایک حقیقی صدمہ پہنچا، اس کی کتاب "احیاء۔۔۔” میں ‘کسر الشہوتین’ کو پڑھ کر، 2 مجھے صدمے سے ایک جھٹکا سا لگا- حیرت کا احساس میرے اندر جاگزیں ہوا کہ مجھے لگا جیسے میری عربی و انگریزی زبانوں پر مہارت لازمی مجھے شکست سے دوچار کررہی ہیں اور پھر ‘غزالی’ پر تحقیق کرنے کے دوران مجھے لگنے لگا کہ یہ کوئی اور غزالی ہوگا- تاہم اس تحقیقاتی مقالے کو لکھنے ک دوران میں جس غزالی سے ملی وہ وہی غزالی تھا جو ایک سگھڑ،نیک پروین بیوی کے طور پر بسر ہوئی میری زندگی کے ساتھ شریک رہا تھا-
میں نے اس کے ایک عظیم محقق عالم ہونے کے اسطورہ/ مائتھ کی ردتشکیل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ‘الغزالی’ پر تحقیق شروع کردی – یہاں تک کہ اس کے پیروکاروں نے اس کا کٹّرپن سے دفاع کیا- ‘الغزالی’ پر تحقیق کرنے والے علماء اکثر فصیح و بلیغ ہوتے ہیں جو یا تو تصوف کی پیروی کرتے ہیں جو انہیں تھوڑا پراسرار بناتا ہے یا وہ تصوف کے پیرو نہیں ہوتے یا وہ اسلام کی ایک ایسی ماڈریٹ/ معتدل لائن کی پیروی کرتے ہیں جو اتنی سخت نہیں ہوتی جتنی ابن تیمیہ کے مکتب کی ہے اور اس سے ان کا خیال لبرل لگنے لگتا ہے۔
الغزالی آج عالم اسلام میں ‘محی الدین'( احیائے اسلام کرنے والا) ، ‘حجۃ الاسلام ‘(اسلام کی دلیل) ایسا محقق ، ایسا امام جس نے اسلام کو مکتب ابن تیمیہ کے سخت گیروں کی ظلمت سے نجات دی اور جنونی بنیاد پرستانہ تعلیمات کے خلاف لڑنے میں مدد کرنے والے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ غزالی کا ابن تیمیہ سے تقابل غزالی کی فکر کو ابن تیمیہ کی فکر سے زیادہ معتدل دکھاتا ہے۔ تاہم علمائے اسلام کو ابن تیمیہ کے مکتب فکر میں یا الغزالی کے مکتب فکر میں یوں دکھانا درست اپروچ نہیں ہے۔
میرے جیسے لوگ (میں جب شادی شدہ زندگی گزار رہی تھی تب) خود کو الغزالی کے پیروکار وں کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں ، وہ لوگ جو اسے ایک اسلام کی جنونی تعبیر سے آزادی دلانے والا ایک صوفی معتدل عالم خیال کرتے ہیں-
یہ تمام کافی حد تک سچ بھی ہوسکتا ہے۔ الغزالی اسلامی تعلیمات میں کافی حصّہ بٹایا اور اس نے کتابیں لکھ کر جو حصّہ بٹایا وہ قابل قدر ہے۔ لیکن الغزالی اس وقت کس کی نمائندگی کرتا ہے جب وہ عورتوں کے مسائل سے نبردآوما ہوتا ہے؟ ایک بات تو طے ہے اس کے ہاں ان مسائل پر زرا بھی اعتدال نظر نہیں آتا –
اسی وجہ سے میں نے عورت کے مقام پر خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے الغزالی کے تحریری کام کا معائنہ شروع کیا-
الغزالی کے کام کا بغور تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے فیمنسٹ لکھاری اور ماہرین جیسے مراکشی مصنفہ فاطمہ مرنیسی نے اس پر ‘مساجنسٹ’ (عورت بارے اللہ واسطے کا بیر رکھنے والا)ہونے کا الزام عائد کیا- جبکہ دوسروں نے جن میں قیصر ای فرح بھی شامل ہیں نے اس کو اپنا آئیڈیل مفکر اسلام مانا اور اس کو فکر اسلامی کو جلا بخشنے والا عالم قرار دیا- اس کے افکار اور تحریروں کو سمجھنے کی کوشش میں الغزالی کو تلاش کرنے پر تذبذب میں مبتلا ہوجانا حیران کن نہیں ہے۔ ابتدائی طور پر الغزالی اہل علم اور عام فاری کی دنیا میں اپنے دو بڑے تصنیفی کام کے زریعے سے پہچانا جاتا ہے : احیائے العلوم الدین اور المنقذ من الضلال ( ظلمت/گمراہی سے روشنی/ہدایت کی طرف)-
"تعارف/ پیش لفظ سے اقتباس "
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر