نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تفریحی صنعت:بڑی آزمائش||شبیر حسین امام

ایک وقت تھا جب سینما کے ذریعے اُور بالخصوص عید کے تہوار پر ریلیز کی جانے والی فلموں کا کوئی نہ کوئی اصلاحی پہلو بھی ہوتا تھا۔ فلم بامقصد سے تفریح اُور تفریح سے اوچھے پن کی سمت سفر کرتے کرتے اُس مقام تک آ پہنچی ہے جہاں اِسے اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے مزید ’اوچھے پن‘ کی ضرورت پڑ رہی ہے

شبیر حسین امام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

خیبرپختونخوا کا ایک ثقافتی تعارف ’پشتو فلمی صنعت‘ بھی ہے جو ایک عرصے سے اپنی شناخت اُور وجود برقرار رکھنے کے لئے ’تگ و دو (جدوجہد)‘ کر رہی ہے تاہم اِس ’تفریحی صنعت‘ کے زوال میں پانچ عوامل کا عمل دخل ہے۔ فلموں کی غیرقانونی ویڈیو نقول‘ عریانی و فحاشی‘ ’کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورکس‘ اسٹیج ڈراموں اُور موبائل فونز کے ذریعے سوشل میڈیا وسائل متعارف ہونے کی صورت لگا‘ جہاں کسی بھی زبان کی پوری فلم یا اُس کے مختلف حصوں کا ذخیرہ موجود ہے جبکہ کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورکس نے گھر گھر ’سینما ہالز‘ تو متعارف کروا دیئے لیکن اِس سستے ترین تفریحی ذریعے کی وجہ سے ایک بہت بڑی صنعت منافع بخش نہیں رہی اُور اِس بات کا احساس متعلقہ نگران حکومتی اداروں کے فیصلہ سازوں کو رتی بھر بھی نہیں جنہوں نے کیبل نیٹ ورکس پر نجی ٹیلی ویژن چینلز کی نشریات جاری  کرنے کی ’غیرتحریری اجازت‘ دے رکھی ہے جبکہ کیبل نیٹ ورکس کا واحد کام وسیلے کے طور پر ’پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)‘ کے منظورشدہ ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات صارفین تک پہنچانا تھا اُور صارفین کی تعداد کے لحاظ سے ٹیکس ادا کرتے ہوئے ایک ایسے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا تھی جس میں آپٹیکل فائبر اُور ڈائریکٹ ٹو ہوم (DTH) جیسی وسعت کے لاتعداد اِمکانات موجود ہیں لیکن اِن میں وقت کے ساتھ (حسب ضرورت) ایک تو سرمایہ کاری نہیں ہوئی اُور دوسرا یہ نتیجہ اپنی جگہ پریشان کن ہے کہ کیبل نیٹ ورکس خودمختار نہیں رہے بلکہ ایک گروہ کی صورت بطور ’آلہئ کار‘ استعمال ہونے لگے‘ کیبل نیٹ ورک صارفین کا استحصال جاری ہے اُور یوں نہ ٹیکس ملا‘ نہ اِس منافع بخش صنعت سے فائدہ اُٹھانے والوں نے سرمایہ کاری کی بلکہ الٹا فلمی صنعت کو اِس حد تک نقصان پہنچایا کہ اِس مرتبہ عید الفطر (سال دوہزاربائیس) کے موقع پر صرف ایک پشتو فلم (کشر خان بہ نہ چھیڑے) پشاور میں نمائش کے لئے پیش کی جا سکی جس سے پشتو فلمی صنعت کی حالت اُور اِس سے وابستہ افراد کی مالی مشکلات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نئی پشتو فلم کے علاؤہ دیگر سینما ہالز میں پرانی فلموں کی نمائش کی گئی کیونکہ اب سینما ہالز کی کشش کسی بھی زبان کی مقامی فلمیں نہیں رہیں بلکہ غیرملکی فلموں کے حصے (ٹوٹے) کانٹ چھانٹ کر دکھائے جاتے ہیں اُور ائرکنڈیشن سینما ہال بہت سے سربینوں کے لئے چند گھنٹوں کی گرمی سے راحت کا سامان اُور تفریح کا غیرصحت مندانہ ذریعہ بن چکے ہیں‘ جو ایک عرصے سے تعمیر کی بجائے ذہنی تخریب کا ذریعہ بھی ہے!

”کشر خان بہ نہ چھیڑے“ کے ستاروں میں شاہد خان‘ ارباز خان‘ فیروزا علی‘ نیب چوہدری‘ عمران خٹک اور رحیمہ شامل ہیں لیکن شاید ہی کوئی سربین اِن اداکاروں کی وجہ سے فلم دیکھنے اپنے گھر سے چلا ہو! سوشل میڈیا کے دور میں تفریح ’بے نامی‘ ہو چکی ہے کیونکہ پشتو کے معروف و غیرمعروف اداکاروں نے پچاس سے زائد ایسے ”یوٹیوب چینلز“ بنا رکھے ہیں جہاں سے اُنہیں سینما کی نسبت زیادہ آمدنی ہو رہی ہے اُور اب تو ’یوٹیوب چینلز‘ پر انفرادی اداکاری کی بجائے اسٹیج پروگرام بھی جاری کئے جاتے ہیں اُور اِس قسم کی پروڈکشن باقاعدہ صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ جہاں لوک گلوکار بھی ملتے ہیں‘ جن کے گائے ہوئے گانے ’اپ لوڈ‘ کئے جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب سینما کے ذریعے اُور بالخصوص عید کے تہوار پر ریلیز کی جانے والی فلموں کا کوئی نہ کوئی اصلاحی پہلو بھی ہوتا تھا۔ فلم بامقصد سے تفریح اُور تفریح سے اوچھے پن کی سمت سفر کرتے کرتے اُس مقام تک آ پہنچی ہے جہاں اِسے اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے مزید ’اوچھے پن‘ کی ضرورت پڑ رہی ہے۔

”کشر خان بہ نہ چھیڑے“ نامی فلم کی خاص بات ”سینماٹوگرافی“ ہے جس کے لئے ’شمالی علاقوں‘ کا انتخاب کیا گیا۔ قدرتی مناظر کی خوبصورتی سے مزین اِس شاہکار کو ’بڑے پردے‘ پر دیکھنے کا اپنا ہی مزا ہے اُور اگر اِسے فلم کی ”واحد کشش“ کہا جائے تو بھی غلط نہیں ہوگا لیکن فلم کا ایک جز معیاری و مقبول موسیقی بھی ہوتی ہے اُور اِس شعبے میں مذکورہ فلم کے پس پردہ (پلے بیک) گلوکار (وسل کھیل‘ شاہ فاروق اور ستارا یونس) مبارکباد کے مستحق ہیں۔ پشاور کے ارشد سینما میں عید الفطر کے پہلے دن سے جاری نمائش اگرچہ خاطرخواہ پرہجوم نہیں لیکن ”پشتو سنیما گزشتہ کئی دہائیوں سے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور متعدد وجوہات کی بنا پر سنجیدہ نجی سرمایہ کاری اُور تکینکی ماہرین (پروڈیوسروں اور فلم سازوں) نے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے جس کی وجہ سے فنکاروں کا ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے۔

عیدالفطر کے موقع پر ”دا اَختر گلونہ“ کے نام سے ”پشتو میوزیکل شو عید“ کو یادگار بنانے کی کوشش اپنی جگہ کامیاب رہی‘ جس میں ٹیلی ویژن اور اسٹیج کے مقامی اداکاروں نے حصہ لیا اُور سینما ہالز کی نسبت عید کے دوسرے سے چوتھے روز شائقین کی بڑی تعداد نے نشتر ہال کا رخ کیا‘ جہاں ایک نئے رجحان کا ارتقا ہو رہا ہے اُور وہ یہ ہے کہ پشتو فلمی صنعت کے زوال سے اُبھرنے والے اسٹیج پروگرام (لائیو پرفارمنس) مقبول ہو رہے ہیں جن سے محظوظ ہونے اُور اپنے پسندیدہ اداکاروں کو براہ راست دیکھنے اُور سننے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اِس سال کی خاص بات یہ بھی تھی کہ ”پشتو میوزیکل عید شو“ کے ٹکٹ آن لائن بھی خریدے گئے اُور ایسے پروگراموں کے موقع پر روائتی جھگڑے بھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ یہ سب کچھ سینما ہالز کے سائے میں اُبھرنے والے سٹیج ڈرامہ کلچر کی بدولت ہے جبکہ اسٹیج (تھیٹر) سینما سے پہلے کی ایجاد ہے اُور سینما اسٹیج ہی کی ترقی یافتہ شکل تھی وہ اپنے اصل کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اگر اسٹیج ڈرامہ مقبول ہو رہا ہے تو اِس سے سینما ختم نہیں ہوگی بلکہ سینما کسی بھی وقت تقویت حاصل کر لے گی لیکن سینما کی واپسی جلد ہونی چاہئے کیونکہ پشاور سمیت دیگر اضلاع میں سینما ہالز تجارتی مراکز میں تبدیل ہو رہے ہیں اُور نئے سینما ہالز نہیں بن رہے۔ اِس پورے شعبے (فلمی صنعت اُور اسٹیج) کے لئے حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ حکومتی اداروں کی نگرانی عروج پر ہونے کی وجہ سے منافع کا ایک بڑا حصہ ناقابل بیان اُور قابل بیان مدوں میں اخراجات کی نذر ہو رہا ہے جیسا کہ بجلی کی قیمت اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ دو سے ڈھائی گھنٹے کسی ہال کو ٹھنڈا رکھنے پر اخراجات معمولی نہیں رہے۔ کورونا وبا (سماجی فاصلوں) کے دور سے گزرنے کے بعد فلمی صنعت بالعموم مہنگائی کی صورت نئی مشکل اُور زیادہ بڑی آزمائش سے گزر رہی ہے!

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

شبیر حسین امام کی مزید تحریریں پڑھیے

(شبیر حسین امام سینئر صحافی ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author