حسنین جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لڑکے کی ماں بھی کہتی ہو گی کہ میرا کوئی جوان بیٹا ہے؟
یہ ایک فارسی وان دوست کے طنز کا ترجمہ تھا۔
ہم لوگ سڑک پہ جا رہے تھے، مجھ جیسے حلیے کا ایک بچہ برابر سے گزرا، پھولوں والی شرٹ پہنی ہوئی تھی، بال کافی لمبے تھے، پتلون ٹائٹ تھی اور چال میں غیر معمولی لٹک تھی۔ شاید ٹک ٹاک کا شوٹ کر رہا تھا۔
وہ دوست بہت بزرگ ہیں، یونیورسٹی استاد ہیں، تو انہوں نے فارسی میں یہ طنز کیا۔ پھر اردو ترجمے سے مجھے سرفراز کیا۔
طنز، بدعائیہ کلمات، کسی کی ہجو (یعنی شاعری میں برا بھلا کہنا)، یہ سب بہت باریک کام ہیں اور زبان کے ساتھ ساتھ لہجے کی ٹون پر بھی عبور مانگتے ہیں۔ زبان جتنی پرانی ہو گی اس میں یہ آرٹ اتنا ہی خوبصورت ہو گا۔
ہماری عام زبانوں میں گالم گلوچ کی ڈھیروں مثالیں مل جائیں گی لیکن طریقے سے کسی بندے کی عزت افزائی کرنا تھوڑا مشکل کام ہے۔ انگریزی، عربی اور فارسی وہ تین قدیم زبانیں ہیں جن سے تھوڑی بہت واقفیت کی بنا پر یہ کہنا آسان ہے کہ ان میں اس فن کا عظیم خزانہ موجود ہے۔ فارسی کی مثال آپ نے دیکھ لی، انگریزی میں لارڈ چیسٹرفیلڈ کے خطوط دیکھیے، اردو میں کہی گئی ہجو نہ ہی دیکھیں تو بہتر ہے اور عربی میں کس بلاغت تک یہ معاملہ گیا، ابھی ایک نظر ڈالتے ہیں لیکن پہلے تھوڑا سا بیک گراؤنڈ!
ادھر کسی جنگجو کڑیل نوجوان سے بھی زیادہ قابل فخرمقام تب ہوتا تھا جب قبیلے میں کوئی ایسا نکل آئے کہ جس میں شاعری کے جراثیم موجود ہوں۔ اب نام یاد نہیں، یادداشت کے سہارے سنیے کہ ایک بچہ جب اپنے باپ کے پاس آیا تو انہوں نے دیکھا کہ اسے کسی چیز نے کاٹا ہوا ہے، کوئی نشان سا تھا، انہوں نے پوچھا کہ ہوا کیا؟ بچے نے کہا کہ ایک زرد رنگ کی چیز تھی جس نے بھورا دوشالہ اوڑھا تھا۔ باپ جھوم اٹھے اور قبیلے میں مشہور ہوا کہ شاعر ہمارے یہاں جنم لے چکا۔
یہ خوشیاں اس لیے منائی جاتی تھیں کہ عرب زندگی میں ہر اہم موقعے پہ شاعر ہی تھے جو پیش پیش ہوتے تھے بلکہ تاریخ دانوں کے آس پاس کا مرتبہ انہیں حاصل تھا۔ جس کی ہجو کہی جاتی وہ غریب قبیلوں سے منہ چھپائے پھرتا اور جس کی تعریف میں قصیدہ ہو جاتا تو سمجھیے کہ سارا جہان اس کا ہو جاتا۔
یہ سب بے معنی ہرگز نہیں تھا۔ غور کریں تو یہ واحد ریکریشنل ایکٹیوٹی تھی جو انہیں ایک دوسرے سے جوڑتی تھی اور جس میں دماغ کی پرواز کا دخل زیادہ تھا۔ جسمانی طاقت کمائی جا سکتی ہے لیکن شاعری چیزے دیگر است، تا نہ بخشید خدائے بخشندہ!
اسے انگریزی میں Curse کہتے ہیں اور یہ فن کیسی انتہاؤں پہ ہے عربی میں، چند مثالیں دیکھتے ہیں۔
تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے
اب یہ ایسی بددعا ہے جو ظاہری بات ہے انسان اپنے دشمن کو بھی دل سے نہیں دے سکتا، سوائے یہ کہ، جس سے دشمنی ہے، اس سے نفرت اس مقام پر ہو کہ ایک ماں کو اپنی اولاد کے سوگ میں بیٹھا دیکھا جا سکے۔ عموماً یہ جملہ کہتے ہوئے مخاطب کی عمر نہیں دیکھی جاتی تھی لیکن زیادہ تر اسے ادا کرنے والے بزرگ ہوا کرتے تھے جو ناراضی کے عالم میں جوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے یہ جملہ استعمال کرتے تھے۔
تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں
یہ محاورہ بھی کئی جگہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کا مطلب سامنے سے تو وہی نظر آتا ہے کہ ذلت، بربادی، تباہی یا خواری اگلے کا مقدر ہو لیکن جس طرح اردو والے لاڈ پیار میں ’ابے او ماٹی ملے‘ کہتے ہیں عین اسی طرح عربی میں اس کے معنی دونوں طرح سے لیے جا سکتے ہیں اور ٹھیک مفہوم جاننے کے لیے باقی شعر یا تحریر دیکھنا ضروری ہے۔ یہ بات ہو گئی، لیکن دیکھیے، خیال کی باریکی کیسی ہے۔
بجائے یہ کہیں کہ تو ذلیل ہو، برباد ہو جائے، آپ سنتے ہیں ’تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں‘ باقاعدہ ایک تصویر بنتی ہے یا نہیں؟ جیسے ہمارے یہاں سادھوؤں اور جوگیوں کا تصور تھا، یا ایسے بابوں کا ہے جو دنیا سے لاتعلق ہو کے گھومتے رہتے ہیں، یا کسی ایسے شخص کا جو نشے کر کے کہیں لیٹا پڑا ہو مٹی میں بے چارہ ۔۔۔ تو بس یہ اور اس سمیت بہت سی کیفیتیں ہیں کہ جو اس ایک جملے کو پڑھ کے بندہ سوچ سکتا ہے۔
اس نے خود کو ہلاکت میں ڈالا (یا وہ ہلاک ہوا)
عرب خطے میں طبی موت کا وہ کانسیپٹ نہیں تھا جو ہمارے یہاں ہے۔ ان کی طرف موت وہ تھی جو میدان جنگ میں لڑتے ہوئے آئے یا مخالف قبیلے کے ساتھ کسی تنازعے میں ان کے چار پانچ جی گرا کے آئے۔ بستر پہ آئی موت ان کے لیے باعث شرم تھی اور ایسا آدمی بزدل سمجھا جاتا تھا۔ تو یہ جو ہلاکت میں ڈالنے کا محاورہ ہم بار بار دیکھتے ہیں یہ وہ ہلاک ہونا ہے جو بے مقصد ہو، یعنی کسی آسمانی آفت یا طبعی موت سے بندہ مر جائے۔
مثلاً یہ محاورہ دیکھیے ’بزدل کی موت اوپر سے نازل ہوتی ہے۔‘ (یعنی میدان جنگ میں نہیں آتی۔) یا پھر یہ قول کہ ’تلوار سے بچے کھچوں کی تعداد زیادہ اور اولاد کثیر ہوتی ہے۔‘
مجہول النسب میرے اونٹوں کو مباح نہ سمجھتے
دو قبیلوں کا ذکر ہے۔ بنو شیبان جس نے حملہ کیا اور بنو مازن کہ جس نے شاعر کی مدد کری اور جو تیس اونٹ وہ لوٹ کر لے گئے تھے ان کی بجائے سو اونٹ لا کے شاعر کے گھر باندھ دیے۔
شاعر قریط بن انیف ہیں۔ دیوان حماسہ ہے اور جب قریط نے بدلہ لے لیا تو انہوں نے چند شعر کہے جن کا مطلب یہ ہے۔
اگر میں قبیلہ مازن سے ہوتا (جس بہادر قبیلے نے شاعر کی مدد کری) تو مجہول النسب (یعنی جن کا شجرہ مشکوک ہے یا ولدالحرام) بنو شیبان میرے اونٹوں کو مباح نہ سمجھتے (یعنی ان کے نزدیک یہ لوٹ کا مال نہ ہوتا)
اب یہ ’مجہول النسب‘ ہونے کا ٹیگ کتنے سیریس طریقے سے اونٹ لوٹنے والے بنو شیبان کے گلے میں پڑا ہو گا یہ سوچ ہے آپ کی! اس طرح کے بے شمار واقعات ملتے ہیں کہ جن میں شاعر کا ایک معمولی اشارہ کس کس کو کتنا بدنام کر دیتا تھا اور باقاعدہ شاعر صاحب سے معافی مانگی جاتی تھی تو وہ کوئی جوڑ توڑ کر کے قبیلے کے رتبے پر کچھ شفقت فرماتے تھے۔
خدا کرے تیرا پیٹ کبھی نہ بھرے
تابط شرا نام کے ایک کیریکٹر تھے، پرانے عرب زمانوں میں۔ ان کی والدہ نے دوسری شادی ابوکبیر نامی ایک شاعر سے کر لی۔ اب سوتیلے والد جب گھر آتے جاتے تو تابط شرا کی شکل پہ صاف لکھا ہوتا کہ انہیں برا لگ رہا ہے۔ جب کافی عرصہ گزر گیا اور تابط شرا جوان ہوئے تو پھر ابو کبیر نے اپنی بیگم سے کہا کہ بھئی اب میں نہیں آیا کروں گا، مجھے اس بچے کے تیور ٹھیک نہیں لگتے۔ دونوں نے صلاح مشورہ کیا اور فیصلہ ہوا کہ تابط شرا کو قتل کر دیا جائے۔
تابط شرا کا نام بھی ان کی والدہ ہی کے ایک مکالمے سے رکھا گیا تھا جس کا مطلب ’بغل میں برائی رکھنے والا‘ ہے، اور یہ انہوں نے تب کہا، جب ان سے کسی نے پوچھا کہ بچہ کہاں ہے تو بولیں، مجھے کیا پتہ بغل میں برائی (تلوار، چھری)چھپائے کہیں نکلا ہے۔
اس میں بھی دو چیزیں دیکھیے، یعنی ایک تو بندے کا نام چلتی پھرتی برائی والا بنا اور دوسرے ماں جو تھیں وہ شروع جوانی سے ہی بچے کو پسند نہیں کرتی تھیں۔
لمبی کہانی شارٹ کرتے ہیں۔ ابوکبیر نے تابط شرا سے پوچھا کہ میں ایک جگہ لڑائی پر جاتا ہوں، تم چلو گے؟ تابط شرا نے تیاری پکڑ لی اور دونوں روانہ ہوئے۔
چوبیس گھنٹے سفر کے بعد جب دشمن گروہ کے آثار دکھائی دینے لگے تو ابوکبیر نے تابط شرا سے کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے، جاؤ اور وہ جو دور آگ نظر آتی ہے، ان سے کچھ چھین کر لاؤ۔ اب تابط سوتیلے باپ کو کہتے ہیں؛
’تیری ہلاکت ہو، یہ بھی کوئی بھوک کا وقت ہے؟‘
ابو کبیر نے زبردستی بھیجا، تابط شرا گئے، دو بندے تھے آگ کے پاس، دونوں کو قتل کیا، جو کچھ کھانے کو تھا لائے اور ابو کبیر سے کہا ’کھا، اللہ کرے تیرا پیٹ کبھی نہ بھرے۔‘
اس قصے میں آگے کافی کچھ ہوا لیکن اینڈ ایسے ہوا کہ ابوکبیر (سوتیلے باپ) کو سمجھ آ گئی کہ جوان چوکس ہے اور مارا شاید میں ہی جاؤں، تو دونوں بخیریت واپس آ گئے اور پھر تابط شرا کی تعریف میں شعر بھی کہےجن سے علم ہوتا ہے کہ تابط شرا اپنی والدہ کی مرضی سے پیدا نہیں ہوئے تھے۔ پورے قصے میں یاد رہ جانے والی بددعا یہی ہے ’کھا، اللہ کرے تیرا پیٹ کبھی نہ بھرے۔‘
جاؤ اپنے شعر صحرا میں دفن کرو
شمیذر حارثی ایک شاعر تھے، ان کی لڑائی اپنے خاندان میں ہوئی، اب انہیں جب شکست دے دی اور بعد میں کہیں ان کا کلام سنا تو انہوں نے کیا کہا، سنیے؛
اے میرے چچا کے بیٹو اب شکست کے بعد ان شعروں کو صحرائے غمیر کے قافیوں میں دفن کرو کیونکہ شعر کسی فاتحانہ کارنامے پر کہے جاتے ہیں! عربی لکھنے پہ مجبور ہو گیا ہوں، اردو فونٹ میں ہی گزارا کریں؛
بنی عمنا لا تذکروا الشعر بعد ما
دفنتم بصحرا الغمیر القوافیا
اگر وہ سچ ہو تو میرا بیٹا کسی قاتل کا سامنا کرے
اب دل تھام کر بیٹھیں اور دیکھیں کہ ایک شاعر معدان بن جواس ہے جو اپنے دعوے کی سچائی پر قسم اٹھا رہا ہے لیکن کتنی بڑی بات کرتا ہے؛
اگر وہ بات سچ ہو
جو تجھے میرے بارے میں بتائی گئی
تو میں اپنے دوستوں میں نہ رہوں
اور میری انگلیوں کے جوڑ ناکارہ ہو جائیں
میں اکیلا اپنے بھائی منذر کو کفن پہناؤں
اور میرے بیٹے حوط کو اچانک کوئی قاتل ٹکر جائے
مرغ کے لیے بدترین دن وہ ہے جب اس کے پاؤں دھوئے جائیں
بدبختی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے جیسے ہم کہتے ہیں کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے عین اسی طرح عربی میں یہ مثال ہے کہ مرغے کو جب ذبح کرنا ہوتا ہے تو اس کے پاؤں پہلے دھوتے ہیں، تو وہ اس کے لیے سب سے بدترین دن ہوا۔
عربی شاعری ایک سمندر ہے جس میں سے چند قطرے ابھی دیکھ لیے۔ اس موضوع کے ساتھ انصاف تبھی ممکن ہے کہ مزید تین چار تحریریں اس بارے میں ہوں۔ کب ہوں گی، خدا جانتا ہے۔ یار زندہ صحبت باقی!
یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر