نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قتل گاہیں اور عشاق کے قافلے||عامر حسینی

وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا تھا جن کےبزرگوں نے 1967ء سے 1970ء کے درمیان پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی- اور ملک اسماعیل مرحوم جیسے جیالے کالچ میں فرسٹ ائر میں تھے یا سیکنڈ ائر میں تھے جب پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت گرادی گئی اور جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگادیا-

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج 14 اپریل  کو خانیوال میں سیاست کو معتبر بنانے والے سیاسی کارکنوں میں سے ایک ملک اسماعیل مرحوم کی ساتویں برسی تھی۔ یقین نہیں آتا کہ ملک اسماعیل جیسا پاکستان پیپلزپارٹی کا جیالا کارکن 2015ء میں دل کے ہاتھوں شکست کھاکر اس جہان سے رخصت ہوگیا ہے- آج پاکستان بھر میں اس جیالے کارکن کی سیاست سے واقف لوگ اس کی برسی پر اس کی یاد تازہ کررہے ہیں- وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا تھا جن کےبزرگوں نے 1967ء سے 1970ء کے درمیان پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی- اور ملک اسماعیل مرحوم جیسے جیالے کالچ میں فرسٹ ائر میں تھے یا سیکنڈ ائر میں تھے جب پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت گرادی گئی اور جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگادیا- ملک اسماعیل بارھویں جماعت کے طالب علم تھے جب چار اپریل 1979ء کو قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو رات کے اندھیرے میں پھانسی لگادی گئی- ملک اسماعیل کے اس وقت گورنمنٹ ڈگری کالج میں ساتھی محمد اعظم خان بتاتے ہیں کہ وہ فرسٹ ائر کے طالب علم تھے اور ملک اسماعیل سیکنڈ ائر کے جب قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا- کالج اور شہر کے اندر خوف کی فضا تھی – اس وقت پی ایس ایف ڈگری کالج خانیوال میں دوبارہ منظم کرنے کا فیصلہ ہوا اور ملک اسماعیل نے محمد اعظم خان کے ساتھ مل کر پی ایس ایف یو ملتان کی سطح پر منظم کرنے کی ٹھانی – اس وقت پی ایس ایف پنجاب کے صدر اسلم وڑائچ تھے جن سے مل کر پی ایس ایف کا انقلابی اعلامیہ نامی بروشر شایع کیا گیا جس پر مارشل لاء حکومت نے پابندی لگادی- پورے ملک میں اس حوالے سے گرفتاریاں ہوئیں ،مقدمات قائم ہوئے- اعظم خان، ملک اسماعیل، فتح محمد قریشی، اکرام عابد ، میراں بخش ، چوہدری زاہد، محمد شفیق، شاہین رضا واسطی، بدرعباس ان جیسے اس وقت کے نوجوان جیالے تھے جنھوں نے خانیوال میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف جدوجہد کا علم بلند کیا- ماریں کھائیں- جیلوں میں بند ہوئے- مقدمات کا سامنا کیا- اور ملک اسماعیل ان جیالوں میں شامل تھے جن کا تعلیمی مستقبل جنرل ضیاء الحق کی آمریت کھا گئی اور انھوں نے اپنا اتنا بڑا نقصان پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور عوامی سیاست کے احیاء کے لیے برداشت کی – ملک اسماعیل سے میری پہلی پہلی ملاقاتیں قریشی لائبریری پر زاہد قریشی کے کمرے میں ہوا کرتی تھیں جہاں بیٹھ کر مارشل لاء حکومت کے خلاف شہر کی اہم دیواروں پر وال چاکنگ کرنے اور ایک سرکاری ادارے کی سائيکلوسٹائل مشین سے رات کو پمفلٹ چھاپ کر پورے پنجاب میں تقسیم کرن کے نصوبے بنائے جاتے تھے۔ پمفلٹ شہر کے اڈے میں آنے والی بسوں اور ریلوے گاڑيوں میں پھینک ديے جاتے اور کئی ایک پارٹی کے ہمدرد انہیں دور دراز شہوں تک پہنچادیا کرتے تھے- ان میں دو پمفلٹ تو ملک گیر شہرت کے حامل ٹھہرے- ایک طیارہ سازش کیس کے خلاف پمفلٹ قزاق کون؟ اور دوسا جنرل ضیاء الحق کے جعلی ریفرنڈم کے خلاف پمفلٹ – ان پمفلٹوں کی تقسیم کے سبب اعظم بھائی پر مارشل لاء حکومت نے مقدمات قائم کیے اور ملک اسماعیل کو پولیس اور ای آئی والے ڈھونڈتے پھرتے تھے مگر یہ ہاتھ نہیں آئے۔ ملک اسماعیل نے مارشل لآء کے بعد 1988ء سے 1999ء تک نواز شریف اور اسٹبلشمنٹ ی چیرہ دستیوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا- اس دوران خانیوال میں مارشل لاء دور کے بہت سے مجاہد سیاسی کارکن موقعہ پرستانہ سیاست کی نذر ہوئے اور یہاں تک کہ نواز لیگ کی سرپرستی میں بلدیاتی سیاست میں مال بنانے لگ گئے (ان میں کچھ اب اس دنیا میں نہیں اور جو ہیں ان کے نام لینا عبث ہے) – ملک اسماعیل ایک مضبوط برادری سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی اپنی برادری میں کافی عزت اور اثر تھا اور بہت آسانی سے بلدیاتی سیات کے کھڑپینچ بن سکتے تھے۔ سرکاری ٹھیکے دار بنکر کروڑوں میں کھیل سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا- موقعہ پرست سیاست کے جھکڑ چل رہے تھے۔ پارٹی کے اندر بھی کلچر بدل رہا تھا- پارٹی پر بجارو اور پراڈو والوں کی گرفت مضبوط ہوتی جاتی تھی – تںطیموں ميں فوٹو سیشن کا سیلاب تھا- نظریاتی کارکن دیوار سے لگائے جارہے تھے اور کارکنوں اور قیادت میں فاصلے بڑھتے جاتے تھے – ایسے میں ملک اسماعیل ، رانا مسرت،اعظم خان، شمیم خان، شاہین واسطی، سید کرار حیدر، محمد شفیق، شيخ عرفان، محمد ارشاد گادھی، اکرام عابد، ملک ارشد کھوکھر،باؤ محمد حسین، ملک عبدالمجید، الطاف کھوکھر اور دیگر درجنوں کارکن نظریاتی کارکنوں کی جنگ لڑ رہے تھے-جنرل مشرف کے مارشل لاء سے لیکر 2015ء تک اپنی آخری سانس تک ملک محمد اسماعیل نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ورکرز سیاست کو پروان جڑھایا- وہ پی وائی او جنوبی پنجاب کے سینئر نائب صدر سید کرار حیدر شاہ کے ساتھ بہت زیادہ اٹیچ تھے- زاہد قریشی کی لائبریری کے بعد ان کا دوسرا ٹھکانا کرار شاہ کی سوڈا واٹر فیکٹری یا پھر محبت کا ہوٹل ہوا کرتا تھا یا پھر ہم سب اعظم بھائی کے گھر اکٹھے ہوجاتے تھے۔ شہید بی بی کی شہادت ہو یا سلمان تاثیر کی شہادت ہو ہم سب دوستوں نے ملکر سڑکوں پر احتجاج ریکارڈ کرایا- سلمان تاثیر شہید کا رسم قل ہم نے خانیوال کے چوک سنگلہ والا میں منایا- ہم نے شہید سلمان تاثیر کا چہلم شاہ سوڈا واٹر فیکٹری خانیوال میں منایا اور ہر سال ان کی برسی پر شہر کے مصروف چوراہوں پر چراغ روشن کیے- ان سب مواقع پر ملک اسماعیل ہارے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے۔ ملائیت کو چیلنج کرتے- سلمان تاثیر کی شہادت کے اگلے دن ایک قومی اخبار میں میرا کالم "شہید سلامت اٹھائے جاتے ہین” چھپا تو پڑھ کر میرے گھر آئے اور انہوں نے مجھے کہا،”آج آپ نے ثابت کردیا کہ آپ عین وقت پر سچ لکھنے کے قائل ہو، آج تو بڑے بزے زبان دراز چپ ہیں اور مصلحت کا راگ الاپ رہے ہیں” ۔۔ میں نے 2002ء سے ان کی زندگی ک آخری لمحات تک سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر شیعہ، بلوچ، مسیحی،ہندؤ، سکھ، احمدی ، صلح کل تصوف کے ماننے والوں پر مذہبی جنونیوں اور ضیاء الحقی اسٹبلشمنٹ کے حملوں کے خلاف جو کچھ لکھا انھوں نے کبھی مجھے ڈرانے کی کوشش نہیں کی، مصلحت آمیزی سے کام لینے کو نہ کہا- میں نے اور کرار شاہ نے جب پاکستان میں مذہبی اور نسلی جبر کے خلاف کسی چوک میں مظاہرہ رکھا ، ریاستی یا غیر ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے مظلوموں ، چبری لاپتا ہونے والے مظلوموں، مظلوم و مقتول عورتوں کے حق میں آواز اٹھائی تو ملک اسماعیل ہمارے ساتھ کھڑا تھا- وہ بہت کھرا آدمی تھا- حق بات کہنے مین اسے عار نہ تھا- وہ جمہوری عوامی سیاسی کارکنوں کی اس نسل سے تھا جن کے کمیاب ہوجانے کے سبب ہمارا واسطہ یوتھیاز قسم کے جاہلوں اور بدتمیزوں سے پڑا ہوا تھا- اچھا ہوا وہ عمران خان جیسے کو وزیراعظم بنتا دیکھنے تک زندہ نہ رہا ورنہ وہ ان فسطائیوں کے ہاتھوں لڑتا ہوا مارا جاتا- پاکستان میں آج 80ء کی دہائی میں سیاست کا آغاز کرنے والے بالغ نظر سیاسی کارکنوں جیسوں کا قحط پڑا ہوا ہے جو بچ رہے ہیں وہ ساٹھے باٹھے اور سترے بہترے ہوگئے ہیں اور زیادہ سے ایک یا ڈیڑھ عشرے بعد کے ان جیسے بھی ڈھونڈے کو نہ ملیں گے- اس لیے ہم کہتے ہیں کہ پاکستان میں اسٹوڈنٹس یونین، حقیقی مزدور یونینوں کو بحال کرو اور پارٹیوں کے اندر اوپر سے نیچے تک جمہوریت کے نافذ کرو تاکہ حقیقی سیاسی کارکن پھر تیار ہوسکیں- ملک اسماعیل کی جدوجہد کو لال سلام

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author