وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا بھر میں عورتوں کا دن 8 مارچ کو منایا جاتا ہے مگر پاکستان میں یہ دن 12فروری کو منایا جاتا ہے۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ 1983میں جنرل ضیاالحق نے اسلام کے نام پر1862 کے قانونِ شہادت میں ترمیم کر کے عورتوں کی گواہی کو مردوں کے مقابلے میں آدھا قرار دے دیا تھا۔ اس سے ٹھیک تین برس پہلے فروری 1979میں حدود قوانین کے نفاذ سے عورتوں کی قانونی، سماجی، معاشی اور سیاسی حیثیت کو خاصا دھچکا پہنچا تھا۔ قانونِ شہادت میں تبدیلیوں سے عورتوں کی حیثیت میں مزید کمی کا سخت اندیشہ تھا۔ بظاہر 979۱ءکے حدود قوانین کا تعلق صرف جنسی بے راہ روی سے تھا لیکن عملی طور پر حدود قوانین نے عورتوں کو انسان کے درجے سے گرا کر محض ایک جنسی شے کی حیثیت دے دی۔ عورتوں کی تعلیمی ترجیحات، پیشہ ورانہ انتخاب اور سیاسی رائے کو جنسی تناظر میں دیکھا جانے لگا۔ حتیٰ کہ عورتوں کا لباس بھی حدود قوانین کی زد میں آ گیا۔ 979۱ءمیں ملک بھر میں قیدی عورتوں کی کل تعداد چند سو سے زیادہ نہیں تھی۔ اب یہ تعداد 6000سے تجاوز کر چکی ہے۔
1984میں قانونِ شہادت میں ترمیم کے موقع پر مذہب پسند حلقوں نے طفل تسلی دینے کی کوشش کی کہ قانون میں عورتوں کی نصف گواہی کا تعلق محض مالی معاملات سے ہو گا۔ گویا معاشیات کی تعلیم سے بہرہ ور خاتون بینک منیجر کے مقابلے میں اس کے نیم خواندہ مرد چپراسی کی گواہی کو فوقیت دی جائے گی-تاہم کچھ ہی برس بعد مالی معاملات کی یہ شرط بھی غائب ہو گئی جب رشیدہ پٹیل کیس (1990)میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ قتلِ عمد کے مقدمات میں بھی عورتوں کی گواہی آدھی مانی جائے گی۔
عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ویمن ایکشن فورم نے قانون شہادت میں ترمیم کے خلاف12 فروری 1983کو جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ اس روز قانون شہادت کا ترمیمی بل مجلس شوریٰ کے سامنے پیش کیا جانا تھا۔ لاہور کی عورتوں نے پنجاب اسمبلی کے مقابل فری میسن بلڈنگ کے سامنے جمع ہونا تھا۔ یہاں سے انھیں چند سو گز کے فاصلے پر لاہور ہائی کورٹ جا کر چیف جسٹس کو ایک یاد داشت پیش کرنا تھی۔ چیف جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال تھے جن کی روشن خیالی کی بڑی دھوم تھی مگر فوجی آمریت کے مذہبی طوفان میں بڑے بڑے چراغ ٹمٹما رہے تھے۔ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی۔ ہزاروں سیاسی کارکن جیل میں تھے۔ اخبارات پر کڑی سنسر شپ تھی۔ سندھ کے گاو¿ں فوج کے محاصرے میں تھے۔ فوجی آمر باقاعدگی سے سال بسال اہل قلم کانفرنس سجا کر محب وطن دانشوروں پر وطن کی چاندنی، ہوا اور پانی حرام کرنے کی دھمکی دیتا تھا۔
پاکستانی تاریخ کا یہ پہلو دلچسپ ہے کہ ہر فوجی آمریت کا مقابلہ کرنے کے لیے عورت میدان میں اترتی ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کو فاطمہ جناح نے للکارا تھا۔ 1983 میں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے لرزہ براندام تھے۔ کئی برس بعد فوجی اقتدار کے دن واپس آئے تو لاہور کی سڑکوں پر کرین سے لٹکتی گاڑی میں فوجی حکومت کا مقابلہ کرنے والی عورت کا نام کلثوم نواز تھا۔
12 فروری 1983 کی شام لاہور کی عورتوں نے غیرمنصفانہ قانون کی مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ چادر اور چار دیواری کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والوں کی حدِ برداشت دو سو گز دور نہ جا سکی۔ ریگل چوک پر جلوس روک کر عورتوں پر ڈنڈے برسائے گئے۔ آنسو گیس پھینکی گئی۔ انھیں سڑک پر گھسیٹا گیا۔ زخمی عورتوں کو ننگی گالیاں دیتے ہوئے گرفتار کر کے ٹرکوں میں ڈالا گیا۔ اعلیٰ اخلاقیات اور عورتوں کے احترام کے دعوے داروں نے اس پر زبان تک نہ ہلائی۔ 12 فروری کو پاکستان میں عورتوں کا دن اسی واقعے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
جسٹس منیر نے اپنی کتاب ’جناح سے ضیا تک‘ میں ایک دلچسپ مشاہدہ بیان کیا ہے۔ 1962 کے آئین پر بحث کے دوران لائل پور(اب فیصل آباد) سے جماعت اسلامی کے کارکن میاں عبدالباری نے نظریہ¿ پاکستان کی اصطلاح استعمال کی۔ ان سے اس کا مفہوم پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ نظریہ¿ پاکستان اسلام ہے۔ جسٹس منیر اس پر کہتے ہیں کہ مسلم اکثریتی معاشرے کی مجبوری یہ ہے کہ اسلام کا نام لینے پر کوئی سوال اٹھانے یا دلیل دینے کی ہمت نہیں کرتا۔ دانشور آرتھر کوئسلر نے ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا تھا کہ وہ معاشرے بد نصیب ہوتے ہیں جہاں شہریوں کی عمومی ذہنی صلاحیت کمزور اور جذبات منہ زور ہوتے ہیں۔
سماجیات کے ماہر کہتے ہیں کہ بنیاد پرستی اپنی روح میں عورت دشمن ہے۔ یہاں ثقافت، رسومات اور مذہب کی من مانی تشریح سے ایسا گدلا پانی تیار کیا جاتا ہے جس میں تہذیب کا عکس دھندلا جاتا ہے۔ پاکستان میں عورتوں کے حقوق اور حیثیت کی صورت حال ابھی تک نہیں بدلی۔ امتیازی قوانین آج بھی موجود ہیں۔ بدترین پسماندہ رسمیں جاری ہیں۔ غیر قانونی پنچایتوں میں اسمبلیوں کے ارکان اور وزرا تک شریک ہوتے ہیں۔ ہم مسلسل انکار کی کیفیت میں ہیں۔ پاکستانی دانشوروں کی بڑی تعداد ملک میں زنا بالجبر کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتی۔ گھریلو تشدد کے خوفناک اعداد و شمار کو جھٹلایا جاتا ہے۔ بچیوں کے سکول بمبوں سے تباہ کیے جانے کی گونج قانون ساز اداروں میں سنائی نہیں دیتی۔
حکومت کو محض یہ تشویش ہے کہ ان بدنما معاشرتی نمونوں کی خبر باہر کی دنیا تک کیوں پہنچتی ہے۔ اس کے ردعمل میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی کسی خاتون کو زبردستی ملک سے نکالا جاتا ہے تو کسی کو ملک سے باہر سفر کرنے سے روکا جاتا ہے۔ صدر صاحب بین الاقوامی اجتماعات میں احتجاج کرنے والی عورتوں کو للکارتے ہیں۔ حکومت سرکاری اہل کاروں کی گھڑی ہوئی اس سادہ لوح دلیل کی چھتری تلے بیٹھی ہے کہ عورتوں سے ناانصافی کے واقعات تو ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہوتے ہیں۔ ایسا کہتے ہوئے یہ فرق فراموش کر دیا جاتا ہے کہ مہذب ملکوں میں عورتوں کے خلاف قانون بنانے کی بجائے ایسے مجرمانہ واقعات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
12فروری 1983 کی سرد شام جب لاہور کی عورتیں آدھی گواہی کے خلاف سڑک پر نکلی تھیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ناانصافی کی یہ رات اس قدر طویل ہو جائے گی۔ فکری جبر معاشرے کے رگ و ریشے میں اتر جائے تو اجتماعی زوال کی بیماری روگ بن جاتی ہے۔
اشاعت اول: 12 فروری 2006 برائے بی بی سی اردو
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر