سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری کا کہنا ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں مالی کرپشن کا کوئی ذکر نہیں، پاکستان کا سکور قانون اور ریاست کو یرغمال بنانے کی وجہ سے کم آیا ہے۔ ادھر اپوزیشن نے اس رپورٹ کو حکومتی کارکردگی پر چارج شیٹ قرار دیا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے وطن عزیز میں کرپشن کی صورتحال کو گیارہ برسوں میں سب سے بدترین قرار دیا ہے۔اگرچہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے پاس مالی وسائل نہیں تھے، ہر صوبے سے فقط 400افراد سے رائے لی گئی کہ پاکستان کتنا کرپٹ ملک ہے۔ پاکستان کی کرپشن کی رپورٹ دینے والے سید عادل گیلانی کا نوازشریف سے تعلق بھی کچھ ڈھکا چھپا نہیں۔ اگر یہ سب درست ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کوئی سیاسی کھیل کھیلا گیا ہے لیکن ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ جب اربوں روپے پاپڑ والے، فالودے والے اور چپڑاسیوں کے اکائونٹ سے نکلیں گے اور جب وزیراعظم کرپشن پر جیل جائے، سابق صدر کرپشن کے الزامات بھگت رہے ہوں اور جب نیب کھربوں کی ریکوری کرے اور ایسے میں پاکستان میں کرپشن کے وطن عزیز میں بڑھنے کے امکان کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اگر ایک لمحے کے لئے یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے ازخود وسائل نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے تو دوسری طرف یہ حکومت کو ماننا پڑے گا کہ اس کی اداروں پر گرفت اس قدر کمزور ہے کہ آج بھی اداروں میں موجود افسران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں اسی لئے تو وہ حکومتی کارکردگی کو منفی انداز میں پیش کررہے ہیں۔ اب ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سچ ہے یا غلط، اس بارے کچھ کہنے سے قبل حکومت کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ اس کی اپنی کارکردگی کیسی ہے کیونکہ بعض حکومتی وزراء کی ہوشربا کرپشن کی ایسی ایسی خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ دماغ مائوف ہوکر رہ جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں شہزاد اکبر کو ہٹایا گیا کیونکہ انہوں نے ملک ریاض کو ریلیف دیا۔یہی نہیں بلکہ بعض اطلاعات تو یہ بھی سامنے آرہی ہیں کہ وزیراعظم اپنی کابینہ میں ردوبدل کا ارادہ اس لئے رکھتے ہیں کہ ان کے بعض وزراء کے خلاف بھی بعض شکایات رپورٹ ہوئی ہیں۔
اگر پاکستان کا آج سب سے بڑا مسئلہ ڈھونڈا جائے تو اس میں مہنگائی اور کرپشن سرفہرست ہونگے جبکہ نظام انصاف کی تنزلی اور قانون کی عمل داری نہ ہونا بھی عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کررہے ہیں مگر یہاں عوام کی کس کو پڑی ہے جو اس تیسرے درجے کی مخلوق کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت کرے۔جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو یہ ایک کڑوا سچ محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں کرپشن کو ایک طرح سے تسلیم کرلیا گیا ہے کیونکہ یہاں پر ہر چیز کے ریٹ مقرر ہیں مجال ہے کہ کوئی سیدھا صحیح کام بھی کرپشن کے بغیر ہوجائے ہر کسی نے اپنے نرخ کھرے کررکھے ہیں۔ اگر کوئی رشوت دینے سے انکار کرے تو ایسی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں کہ الامان الحفیظ۔ اس لئے اگر تبدیلی سرکار کا یہ موقف ہے کہ ان کے آنے کے بعد کرپشن کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا تو کوئی بھی ذی شعور اس کو کسی قیمت پرتسلیم نہیں کرے گا جبکہ دوسری طرف بعض حکومتی وزراء جس میں شیخ رشید سرفہرست ہیں، برملا اس سلسلے میں ناکامی کا اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ احتساب کے بیانیے پر عمل نہیں کرسکے۔ یہی نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی احتساب نہ کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احتساب نہ ہونے کا ذمہ دار کون ہے تو اس کی بڑی وجہ جو حکومت کی طرف سے بیان کی جارہی ہے وہ عدالتی سقم ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس نظام میں بہتری لانے بھی تو حکومت کی ہی ذمہ داری ہے جبکہ دوسری طرف بیوروکریسی بھی حکومت کی ناکامی میں بڑا اہم کردار ادا کررہی ہے جس کا کھلا ثبوت ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل رپورٹ کا منظرعام پر آنا ہے یعنی آج بھی بیوروکریسی کی حمایت سابقہ حکمرانوں کے ساتھ ہےاور جبھی تو وہ حکومت سے نالاں ہیں۔
180 ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان کی 16 ویں درجے تنزلی کی رپورٹ سے حکومت یقیناً ہل کر رہ گئی ہے۔ اسی لئے تو طرح طرح کی وضاحتیں پیش کی جارہی ہیں۔ سربراہ پلڈاف کہتے ہیں کہ قانون کی حکومتی اور ریاستی گرفت میں ناکامی سے سکور میں تنزلی ہوئی۔ کرپشن کے خلاف بیانیہ لے کر پی ٹی آئی حکومت میں آئی اب اس کو جواب دینا ہوگا کہ بہتری کیونکر نہیں ہوئی۔ یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے آئندہ 3ماہ میں حالات میں بہتری کی نوید سنائی ہے جبکہ شیخ رشید نے 4ماہ کو اہم قرار دیا ہے۔ اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو حکومت کی جانب سے اس قسم کے بیانات کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اپنے اقتدار کے آخری برس میں حکومت کے پاس کون سی ایسی جادو کی چھڑی آجائے گی کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
کرپشن پاکستان کا بلاشبہ ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس کرپشن کو روکنا بھی تو حکومت کی ہی ذمہ داری ہے لیکن حکومت کی ریاستی معاملات پر گرفت کمزور ہونے کے باعث معاملات اب اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ کسی کو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ حکومتی امور کس طرف جارہے ہیں کیونکہ عوام کو صرف ایک ہی چیز میں دلچسپی ہے اور وہ ہے مہنگائی میں کمی مگر حکومت ہے کہ اس پر تاحال قابو پانے میں ناکام ہیںتو اس سے دیگر معاملات میں بہتری کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب عوام مہنگائی کے ہاتھوں خوار ہورہے ہیں تو دوسری جانب حکومت کی ناقص کارکردگی ان کی مایوسیوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اگر اب بھی حکومت نے اپنی ادائوں پر غور نہ کیا تو عوام کے غیض و غضب سے حکومت کو کوئی نہیں بچاپائے گا۔
اگر وزیراعظم عمران خان اگلی باری لینے کے بھی خواہش مند ہیں تو کرپشن کے سوراخوں کو فی الفور بند کریں وگرنہ عوام میں تشویش کی جو لہر ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اگر اس کے آگے بند نہ باندھا گیا تو عوام کے جذبات کے سامنے حکومت خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔ عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ اپنی حالت زار بہتر بنانے کے لئے دیئے مگر تاریخ گواہ ہے کہ اس کے پاس ہر علاج کی صرف ایک ہی دوا ہے اور وہ مہنگائی کا ٹیکہ ہے۔والدین اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا ہوا نہیں دیکھ سکتے اور ان کے پاس اپنے معاملات کو چلانے کے لئے کرپشن کے علاوہ دوسرا چارہ ہی نہیں رہ جاتا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم صرف لمبے چوڑے خوشنما بیانات دینے پر ہی اپنی توانائیاں صرف نہ کریں بلکہ عوام کے بدلے ہوئے تیور بھی دیکھیں کیونکہ آج پی ٹی آئی کا ووٹر حکومتی کارکردگی سے اس قدر نالاں اور شرمندہ ہے کہ اس سے بہتر تو پرانی حکومتیں ہی تھیں جو کھاتی تھیں اور لگاتی بھی تو تھیں۔ اسی طرح انہوں نے تو عوام پر سارا بوجھ ٹرانسفر نہیں کیا۔ میرا کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ میں سابقہ حکومت کی کرپشن کو سپورٹ کررہی ہوں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت کو یہ باور کرارہی ہوں کہ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے وگرنہ اس کی داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
حکومت کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر اس نے عوام کو ریلیف نہ فراہم کیا تو حالات خونی انقلاب پر بھی منتج ہوسکتے ہیں۔ وطن عزیز میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات بھی حکومت کو سب اچھا نہیں کا عندیہ دینے کے لئے کافی ہیں بصورت دیگر اگر تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں یہ کہا جائے کہ کرپشن کرپشن کردی میں آپے کرپشن ہوئی تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے وزیراعظم عمران خان کو اپنی تمام تر توانائیاں اس طرف صرف کرنی چاہئیں تبھی جاکر عوام کے دربار میں حاضری کے قابل ہوسکیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر