دانش ارائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکم جنوری سے شروع ہونے والے سال نو جہاں کئی نئی اُمیدیں لے کر نکلا وہیں کچھ لوگوں کی اپنی روش پر قائم رہنے کی ضد بھی، ہٹ دھرمی و نااہلی پر قائم اس حکومت نے اپنی روایت پر قائم رہتے ہوے ہمیشہ کی طرح سیریس ایشوز کو دبانے کیلیے نان سیریس ایشوز پر واویلا شروع کردیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کرپشن رپورٹ پر پاکستان کی ایک سال میں 16 درجے تنزلی ایک ریکارڈ اور احتساب اور کرپشن سے پاک پاکستان کا نعرہ لگا کر آنے والے تبدیلی حکومت کے منہ پر ایک تھپڑ ہے، جس پر پیپلزپارٹی کے ملک گیر احتجاج کو دبانے کے لئیے کل اپنے اتحادی مشہور زمانہ لسانی و تشدد کی سیاست کے علمبردار ایم کیو ایم کو ایک بھی پھر کراچی کا سکون برباد کرنے کیلیے لاشوں کی سیاست کی کھلی چھوٹ دے دی گئی اگرچہ احتجاج کرنے والے شرکاء پر پولیس تشدد غیر جمہوری ہے پر ریڈزون میں پولیس اہلکاروں کو ڈنڈوں سے مارنا بھی بھلا کونسی سیاست۔۔
کراچی کا امن جو ہزاروں نہیں لاکھوں شہریوں کی جانوں سے حاصل کیا گیا اور سالوں کی محنت سے جہاں انٹرنیشنل کرکٹ کے مقابلے کو اس شہر کی زینت بنائے جانے سے ایک دن قبل درندگی اور تشدد بھرے احتجاج سے سبوتاژ کرنا کیا کراچی کی عوام یا ملک سے دشمنی نہیں تو اور کیا ہے ۔
پُرامن احتجاج کرنا ہر ایک کا آئینی حق ہے مگر کراچی کی بربادی کا مورد الزام پیپلزپارٹی کو ٹھہرا کر پرتشدد احتجاج ان نفیس لوگوں کو زیب نہیں دیتا جو کراچی کے دعویدار اور کئی دہائیوں تک اس روشنیوں کے شہر کی خون پسینے کی کمائی سے اپنے محلات بناتے رہے ہیں۔
کراچی شہر کے مسائل یہاں مختلف شکلوں اور مختلف ادوار میں 32 سالوں تک بلدیاتی حکومت پر قابض رہنے والے کراچی کے دعویدار جو کہ 1979 سے 2020 تک
جماعت_اسلامی کے 12 سال
1) عبدالستار افغانی
پہلی بار (9 نومبر 1979 تا 7 نومبر 1983)
دوسری بار (7 نومبر 1983تا 12 فروری 1987)
2) نعمت اللہ خان
(14 اگست 2001 تا مئی 2005)
اور ایم_کیو_ایم کے 13 سال
1) فاروق ستار
(9 جنوری 1988 تا 27 جولائی 1992)
2) سید مصطفی کمال
(17 اکتوبر 2005 تا فروری 2010)
3) وسیم اختر
(30اگست 2016 تا 30 اگست 2020)،
کی ناقص پالیسیوں اور کرپشن کے پیدا کردہ ہیں۔
دہائیوں سے پیدا کردہ یہ مسائل جنھیں حل کرنے میں یقیننا وقت درکار ہے، پیپلزپارٹی نے ان مسائل کے حل کیلیے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے کراچی اور عوام کی فلاح کا عزم لئیے ابتک کا سب سے بہترین بلدیاتی نظام متعارف کروایا ہے ، مگر اپوزیشن و سیلیکٹیڈ نمائندے جنکی سیاست دہشتگردی/کرپشن پر محیط تھی کو کراچی کی عوام کے مسائل کا حل منظور نہیں اور اسی لئیے اس نظام کے خلاف پہلے دروغ کوئی اور اب پر تشدد اور لاشوں کی سیاست سے کام لے رہے ہیں۔
اب میڈیا اور ان شرپسند عناصر کو اپنا رویہ “اشرافیہ کے گھر کی لونڈی “ سے بدل کر غیرجانبدار اور منصفانہ اختیار کرنا ہوگا تاکہ مل کر کراچی اور اسکی عوام کے مسائل حل کئیے جاسکیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر