گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارٹیشن سے پہلے ڈیرہ اسماعیل خان میں گو کہ ہندو اقلیت میں تھے مگر ان میں تعلیم کی شرح زیادہ تھی۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے پاٹھ شالے اور لڑکوں کے سکول انہوں نے چندے دے کر قایم کیے۔مسلمانوں نے چندے سے اسلامیہ سکول کی بنیاد رکھی۔۔انگریزوں نے مشنری سکول قائم کیے تو اس میں بھی زیادہ ہندو داخل ہوۓ۔مسلمانوں کے مدرسے کام کر رہے تھے جس میں عربی فارسی اور قرانی تعلیم تو اعلی درجے کی تھی مگر ریاضی ۔ انگریزی اور سائنس مضامین کم کم تھے۔یہی وجہ ہے کہ ڈیرہ کی صحافت میں بھی ہندو آگے نکلنے لگے۔
1889ء میں ڈیرہ سے ایک ماہنامے کا آغاز ہوا جس کا نام ۔بھرتاری رسالہ۔ تھا ۔اس کو ہندوٶں کی تنظیم بھرتای سبھا نے جاری کیا ۔
پھر دس سال بعد 1899ء میں ہفت روزہ اخبار ۔۔ہردلعزیز ۔۔شائع ہونا شروع ہوا۔جو بعد میں ماہوار شائع ہوتا رہا۔1903ء میں یہ لاہور شفٹ کیا گیا اور 1905ء میں بند ہو گیا۔یہ اخبار سیوک رام پریس لاہور سے پرنٹ ہوتا تھا۔
1905-6ء۔ میں ۔دولت ہند ۔اور۔۔ فرنٹیر ایڈوکیٹ۔۔دو اخبار سامنے آۓ یہ بھی ہندوٶں کے اخبار تھے اور حکومت کے خلاف تھے۔
1924ء۔میں ماہنامہ۔ دلچسپ۔ڈیرہ سے نکلا جس کے مضامین دلچسپ تھے مگر ایک سال میں بند ہو گیا۔
1929ء۔میں انگریزی۔اردو۔ہندی زبانوں میں ۔۔سندھو ۔اخبار شائع ہوا جو مفت تقسیم ہوتا تھا۔
پھر 1940ء کے عشرے میں ہفت روزہ ۔مجاھد ۔۔ شائع ہوتا رہا جس کے کچھ صفحات بھی ہماری نظر سے گزرے ہیں۔
ڈیرہ کے اخبارات کی یہ کہانی نامکمل ہے کیونکہ ہمارے پاس کوئ پرانی لائیبریری نہیں بچی جس میں تحقیق کی جائے بلکہ بچھی کھچی لائیبریریاں بھی عدم نگھداشت اور ناقدری سے گنوا بیٹھے۔ پورے خیبر پختونخوا کے ڈویژن میں میوزم ہیں یہاں وہ بھی نہیں ۔اب علی برادران کی کوششوں سے ٹاون ہال میں بن رہا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر