وجاہت علی عمرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ نظام خان والا دروازہ ڈیرہ اسماعیل خان کے دوسرے دروازوں کی طرح تاریخی طور پرزیادہ اہمیت رکھنے کے علاوہ مختلف ادوار میں اسکے مختلف نام جاننے کے لیئے ہمیں ماضی قدیم کی تاریخ کو ساتھ ل کر چلنا ہو گا۔
محرابی دروازہ. (1824تا 1838)
نظام خان دروازہ ۔ (1844 تا حال)
1824میں نئے ڈیرہ کی بنیاد ہی سے مشرقی طرف موجودہ اسلامیہ سکول سے پہلے اور موجودہ نظام خان دروازے کے ساتھ پرانے ڈیرہ کی طرح ایک ٹیکسال کی بنیاد رکھی گئی تھی، جس میں لین دین اور کاروبار کے لیئے نواب حافظ احمد خان کے حکم پر محرابی طرز کے سکے ڈھالے جاتے تھے۔ اسی ٹیکسال اور محرابی سکوں کی وجہ سے اس دروازے کی تعمیر کے بعد اسے” محرابی دروازے ” کا نام دیا گیا اور عام عوام میں بھی یہ "محرابی دروازے” سے مشہور تھا۔ بعض تاریخی کتب اور روایات کے مطابق 1834 میں سکھوں کی آمد کے بعد اسی ٹیکسال میں تانبے کے نانک شاہی سکے ڈھالے جاتے تھے اور بعض کتب کے مطابق 1838کے آس پاس سردار نونہال سنگھ اور لاہور کی مرکزی خالصہ حکومت کے حکم سے نئے تعمیر شدہ قلعہ اکال گڑھ میں ایک علیحدہ ٹیکسال قائم ہوئی۔
1834-35میں جب سردار نونہال سنگھ نے ڈیرہ کی باگ دوڑ سنبھالی تو نواب شیر محمد خان کو معزول کر کے اور ڈیرہ میں چار ماہ رہنے کے بعد ڈیرہ کا نظم و نسق دیوان لکھی مل کے حوالے کر کے واپس لاہور چلا گیا۔ اقتدار کے نشے میں مست دیوان لکھی مل نے اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایک طرف بنوں، کوہاٹ وغیرہ کے علاوہ اردگرد کے مضافات اور پنجاب سے خصوصی طور پر ہندوؤں کی نئے ڈیرہ اسماعیل خان میں آبادکاری کے لیئے دن رات ایک کر دیا۔ ان ہندؤں کو مفت میں بے تحاشہ زرعی زمینیں دینے کے علاوہ کئی ایک کو بڑی بڑی حویلیاں اور مکان سرکاری خرچے سے تعمیر کر ا کے دیئے۔ دوسری طرف اپنی مسلمانوں کے ساتھ کھلی دشمنی پر اتر آیا۔ سب سے پہلے تو اس نے 1806میں نواب محمد خان سدوزئی کا دوبارہ تعمیر کردہ ایک وسیع و عریض "منکیرہ قلعہ ” جہاں خاصی کثیر تعداد میں مسلمان آباد تھے، دیوان لکھی مل نے اس قلعے سے تمام مسلمانوں کو نکال کر ہندوؤں کو آباد کیا۔ لکھی مل نے بغیر کسی مرکزی خالصہ حکومت کے ذاتی طور پر عیسیٰ خیل کے خان احمد خان نیازی پر بلاجواز اضافی لگان بڑھا دیا، انکار پر اس نے عیسیٰ خیل پر حملہ کر دیا۔ جب پشاور میں نونہال سنگھ کو اس ناجائز حملے کی اطلاع ملی تو وہ دیوان لکھی مل پر بہت ناراض ہوا اور اسکو سخت تبہیہ کی۔ایک سال کے اندر دوبارہ لکھی مل نے عیسیٰ خیل پر حملہ کر کے خان محمود خان کو گرفتار کر کے قلعہ اکال گڑھ میں قید کر لیا۔ نونہال سنگھ نے دوبارہ دیوان لکھی مل کو تنبیہ کی اور ناجائز طور پر مسلمانوں کو نہ ستانے کے علاوہ حکم دیا کہ فورا محمود خان کو ناجائز قید سے رہا کیا جائے۔
1840میں سردار نونہال سنگھ کے مرنے کے بعد دیوان لکھی مل نے اپنے اقتدار کے دور میں ٹانک پر بھی ناجائز حملہ کیا اور اس حملے کے نتیجے میں ٹانک کے نواب اللہ داد خان وزیرستان کی طرف کوچ کر گئے اور لکھی مل نے نواب اللہ داد خان کے بیٹے نواب شاہ نوا ز خان کا وظیفہ بند کر دیا۔ کلاچی کے خوانین و سردار خان علی خان اور اسکے بیٹے کالو خان کو بھی لکھی مل نے قلعہ اکال گڑھ میں قید کر لیا۔ مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر عیسیٰ خیل پر دو بار ناجائز حملے، ٹانک کے معزول نواب اللہ داد خان کو واپس لانے کے مرکزی حکومت کے احکامات کو ٹھکرانے اور ناجائز طور پر مسلمانوں کو تنگ کرنے کی وجہ سے 1843 میں لاہور کی مرکزی خالصہ حکومت کے اس وقت کے سربراہ مملکت شیر سنگھ نے دیوان لکھی مل کو ڈیرہ کی ناظمیت کے عہدہ سے معزول کر دیا۔ 1843میں علاقہ لکی مروت کے صوبیدار ملک فتح خان ٹوانہ کو تمام ذمہ داری سونپ دی اور لکھی مل دوبارہ اپنے گاؤں چودھوان چلا گیا۔
ملک فتح خان ٹوانہ کی ناظمیت ختم ہونے کے بعد 1844میں گڑھی سدوزئی کے رہائشی ایک زیرک، سماج سیوک، قران پاک کے خوش الحان قاری اور رعب دار شخصیت جناب نظام خان خدکہ کو لکی مروت کا صوبیدار متعین کیا گیا۔ یاد رہے، سدوزئی قبیلے کے مورث اعلیٰ سعداللہ خان جنکی عرفیت سدو خان تھی۔ انہی کی وجہ سے انکی نسل اور قبیلہ سدوزئی کہلاتا ہے۔ سدو خان کے پانچ بیٹے تھے اور ہر بیٹے سے جدا جدا نسل چلی۔ انکا ایک بیٹا خضر خان تھا جنکی نسل کو خضر خیل کہا جاتا ہے۔ اسی نظام خان خضر خیل کو نظام خان خدکہ کہا جاتا تھا۔ کیونکہ اندرون شہر نظام خان خدکہ ایک منفرد مقام اور ہر دل عزیز شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ جب انکی تعنیاتی لکی مروت کے بطور صوبیدار کی خبر مشہور ہوئی تو شہر کی کثیر تعداد انکے ڈیرہ سے رخصت ہونے والے مقررہ دن ان کو الوداع کرنے کی خاطر جلوس کی شکل میں گڑھی سدوزئی میں جمع ہوئی اور جانے والے تمام راستے کو بھی سجایا گیا تھا۔ یاد رہے، نئے ڈیرہ کی تعمیر کے وقت ماضی کا یہ محرابی دروازہ موجودہ نظام خان ڈسپنسری والی جگہ پر تعمیر کیا گیا تھا۔ بہرحال اسی محرابی دروازے پر آکے نظام خان خدکہ نے الوداع کرنے اور جلوس میں آنے والے شرکاء سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کی خاطر خطاب کیا۔ یہاں سے نظام خان خدکہ سکھ فوجیوں کے ساتھ لکی مروت کی طرف روانہ ہوا۔۔ اسی وجہ سے 1828میں تعمیر ہونے والا یہ محرابی دروازہ 1844میں ڈیرہ والوں کے دلوں میں نظام کی والہانہ محبت کی وجہ سے "نظام خان دروازہ” مشہور ہو گیا جو اب تک اسی نام کی وجہ سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔
1845 تک پورا ایک سال نظام خان خدکہ نے لکی مروت میں نہایت عمدگی سے اپنا کام کیا۔ لیکن ایک سال بعد بیگو خیل اور خانی خیل نے لشکر کشی کر کے نظام خان خدکہ کو قلعے میں محصور کر دیا۔ ڈیرہ میں نو تعنیات دولت رائے دیوانی سے معزول ہو چکا تھا۔ نواب ٹانک نے غلام حسن خان علیزئی کماندار کو مع سپاہ کے بھیجا، ڈیرہ کا نیا دیوان ملک فتح خان ٹوانہ بھی موقع پر پہنچ گیا اور فریقین کے درمیان صلح صفائی کرا کے نظام خان نے دوبارہ اپنے فرائض منصبی سنبھال لیئے۔۔ حکومت برطانیہ کے آنے کے بعد انگریز حکومت نے نظام خان کو 1848میں اپنے عہدے سے فارغ کر کے میجر ایڈورڈ کو لکی مروت کا چارج دے دیا گیا۔ نظام خان خدکہ نے ڈیرہ واپس آنے کے بعد شہر کی ترقی اور سماجی کاموں کی طرف توجہ دی اور بڑھ چڑھ کر اپنے علاقے کے لوگوں کی فلاح و بہود کا کام کیا۔ گڑھی سدوزئی، محلہ قاضیاں والے اور گلی کپاس والی میں پانی کے کنوئیں، مساجد کی تعمیر وغیرہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے علاوہ ڈیرہ شہر میں نئے تعمیر ہونے والے سول ہسپتال کے ڈاکٹروں کے تعاون سے1856 میں اسی دروازے کے ساتھ لوگوں کی فلاح کے لیئے نظام خان نے ایک ڈسپنسری کی بنیاد رکھی،۔ عمارت، دواؤں اور عملے کا تمام خرچہ نظام خان اپنی ذاتی جیب سے ادا کرتے تھے۔ انہی کی ڈسپنسری کی رکھی ہوئی بنیاد کی وجہ سے آج تک وہ ڈسپنسری نظام خان کے نام سے مشہور ہے۔
اس تاریخی نظام خان دروازے کے ساتھ کئی ایک تاریخی واقعات بھی کتابوں میں ملتے ہیں۔ چند ایک تاریخی واقعات کا زکر کرنا ضروری ہے۔ ڈیرہ کے خوانین و نوابین سے ملک فتح خان ٹوانہ کے حالات مدت سے کشیدہ تھے تو 1845کے دور میں جب ملک فتح اللہ خان ٹوانہ نے نواب شیر محمد خان کی قائم کی ہوئی مجلس شوریٰ جو ڈیرہ کے انتظامی امور سنبھالتی تھی کے نامی گرامی عہدیدار اور نوابی فوج کے کماندارپائندہ خان (یاد رہے موجودہ کچی پائند خان کا تمام علاقہ پائندہ خان کی جاگیر تھی) اور اس کے بیٹے حافظ سکندر خان کو قتل کرنے کے بعد انکی لاشیں قصر نوابی میں بھجوائیں تو پورے شہر میں یہ خبر پھیلتے ہی ملک فتح خان ٹوانہ کے خلاف لوگوں میں غم و غصہ اور شدت کا اشتعال دوڑ گیا۔ ملک ٹوانہ کے قلعے پر حملے کے لیئے شہر کے ہر محلے سے جنگ کے نقارے بجنے لگے۔ ملک فتح خان ٹوانہ کو جب اس حملے کا علم ہوا تو اس نے سکھ سپاہیوں کا ایک دستہ لے کر سب سے پہلے نظام خان کے بند دروازے کو جلایا اور گرانے کے بعد اسی دروازے سے گزر کر اندرون شہر حملہ کر دیا۔ گڑھی سدوزئی، محلہ خواجکزئی، چوگلہ، محلہ حیات اللہ خان میں یہ دستہ مار دھاڑ کرتا ہوا موجودہ فقیرنی دروازے سے علیزئی دروازے کی طرف جا رہے تھے تو اسی راستے میں ملک فتح خان ٹوانہ نے نواب کی مجلس ِ شوریٰ کے مشہور عہدیدار عاشق محمد خان علیزئی اور نصراللہ خان سدوزئی کو بھی قتل کر دیا۔اس معرکے میں درجنوں افراد مارے گئے، درجنوں زخمی اور گرفتار ہوئے۔ملک فتح خان ٹوانہ کی سربراہی میں جو سکھ فوج کے ہاتھوں سدو زئی یا دیگر نامی گرامی افرد شہید ہوئے انکو گڑھی سدوزئی کے قبرستان میں دفن کیا گیا، ان شہداء کی تدفین کے بعد سے لے کر آج تک اس قبرستان کو "شہیداں والا قبرستان” کہا جاتا ہے۔ اسی معرکے اور قتل عام کی بدولت 1845میں لاہور کی مرکزی خالصہ حکومت نے ملک فتح خان ٹوانہ کو معزول کر کے دیوان لکھی مل کے بیٹے دولت رائے کو دوبارہ ڈیرہ کا ناظم بنا دیا اور ملک فتح خان ٹوانہ کو گرفتار کرنے کا حکم جاری کردیا۔
خاص واقعات
1889میں انجمن حمایت اسلام نے موجودہ اسلامیہ سکول کی بنیاد رکھنے، زمین کے حصول اور چندہ جمع کرنے کی تحریک کے لیے اسی نظام خان والے دروازے اور ڈسپنسری کے ساتھ اپنا پہلا مرکزی دفتر کھولا اور اسی تحریک کی بدولت 1890 میں اسلامیہ سکول کی باقاعدہ بنیاد ڈالی رکھی گئی۔
بعض روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ جب 1889 میں ڈیرہ کے والی نواب شیر احمد خان کا انتقال ہوا تو غسل و کفن کے بعد قصر نوابی سے انکا جنازہ بڑی شان و شوکت سے سب سے پہلے اسی نظام خان دروازے پر لوگوں کے آخری دیدار کے لیئے رکھا گیا تھا۔نواب صاحب کا جنازہ اندرون شہر مسلم بازار،چوگلہ، بھاٹیہ بازار میں ایک جم غفیر اور لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے جگہ جگہ پر رکھ کر لوگوں کو والی ڈیرہ کا آخری دیدار کرایا گیا تھا۔
حوالہ جات:
ڈیرہ اسماعیل خان ماضی اور حال کے آئینے میں از قادرداد خان گنڈہ پور۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے سرخیل، از خلش پیر اصحابی
مختلف قدیمی اخباری کالم , کتابچے اور قلمی نسخے و انٹرویوز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر