سجاد جہانیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”رونگٹے کھڑے ہونے کا مطلب مجھے اُس شب سمجھ میں آیا اوریہ بھی پتہ چلا کہ یہ کیفیت صرف خوف کے باعث نہیں ہوتی بلکہ جب انسان کسی رعب یا دبدبے کے زیرِ اثر ہو، تب بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ زندگی میں بڑے بڑے لوگوں سے ملا ہوں لیکن میری یہ کیفیت کبھی نہیں ہوئی۔ ایسی حشمت اور ہیبت کبھی محسوس نہیں کی جس میں خوف کا کوئی گزر نہ ہو۔ شفقت کی پھوار برساتی شخصیت کا ایسا رعب کہ مخاطب کے جسم کے ایک ایک روواں احترام میں کھڑا ہوجائے اور مسام عقیدت کا پانی اگلنے لگیں…!! جب بیدار ہوا تو میرا بدن پسینہ پسینہ تھا اور میں ایک جمال بھرے جلال کے زیرِ اثر سہما ہوا تھا“۔
کوئی سولہ سترہ سال پہلے اُس نے مجھے خواب میں زیارتِ رسول کی روداد بھیگی آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں سے سنائی تھی۔ وہ چھلک رہا تھا کیونکہ اس کی ذات کا پیمانہ ایسی عظیم عطا کو اپنے کناروں میں سما نہیں پا رہا تھا۔ کئی دفعہ اُس سے میں نے یہ روداد سنی مگر اب بہت عرصے سے وہ کسی کو یہ بات نہیں سناتا، مجھ ایسے جو پہلے سن چکے ہیں، اُن کو بھی نہیں۔ ایک دن میں نے زور دے کر سنانے کو کہا تو بولا ”یار! ایک مرتبہ عطا ہوئی تو میرا چھوٹا بھانڈا چھلک اٹھا۔ ایک ایک کو سناتا تھا۔ اتنے برس گزرگئے، شدید خواہش کے باوجود پھر کبھی زیارت نہیں ہوئی۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ایسے معاملات میں شہرت ناپسندیدہ عمل ہے اور تم جگہ جگہ ڈینگیں مارتے پھرے۔ ظرف کے مطابق عطا ہوتی ہے، افسوس! تم کم ظرف نکلے“۔
وہ کہتا ہے تو ایسا ہی ہوگا۔ مجھ ایسے دنیا دار کو ان معاملات کا کیا علم، تاہم ایک بات مجھے الجھن زدہ کئے رہی کہ وہ جو رحمتِ ہر دو جہاں ہیں اور جو خود سے بدکلامی کرنے والوں پر بھی رحیم و کریم ہیں، اُن کی ذاتِ گرامی کے قرب کو محسوس کر کے خوف کیونکر پیدا ہوسکتا ہے۔ وہاں تو آسودگی کا اور تحفظ کا احساس ہونا چاہئے۔ اس کا کہنا تھا، ”میں بیان نہیں کرسکتا کہ وہ کیا کیفیت تھی۔ خوف بھی تھا اور نہیں بھی تھا، ہاں رعب بہت زیادہ تھا، بہت زیادہ“۔ کئی برس اسی الجھن میں گزرے، پھر پچھلے دنوں میں نے عربی کے عالمِ بے بدل جناب محمد کاظم مرحوم کامضمون ”قصیدہ بردہ شریف کی ایک شرح“ پڑھا تو یہ گتھی سلجھ سکی۔
قصیدہ بردہ شریف ابو عبداللہ شرف الدین محمد بن سعید البوصیری کی تصنیف ہے۔ جناب محمد کاظم کے مطابق عربی کے نعتیہ ادب میں قصیدہ بردہ شریف کو جو شہرت ملی، اس میں اگر کوئی دوسری نعتیہ نظم اس کی ہم سری کرتی ہے تو وہ حضرت کعب بن زبیرؓ کا قصیدہ بانت سعاد ہے۔ یہ قصیدہ حضرت کعب ؓ نے اپنے اسلام لانے کے موقع پر رسول اللہ کے حضور پڑھا تھا۔ اس پر مسرت کا اظہار فرماتے ہوئے جنابِ رسالت ماآب نے حضرت کعبؓ کو اپنی چادر عنایت فرمائی۔ اس قصیدہ کے کم و بیش ساڑھے چھے سو سال بعد قصیدہ بردہ شریف کہا گیا جس کی مقبولیت نے قصیدہ بانت سعاد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ دنیا کی بے شمار زبانوں میں قصیدہ بردہ شریف کے ترجمے ہوئے اور شرحیں لکھی گئیں۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ قصیدہ بانت سعاد ہو یا بردہ شریف، دونوں کے شاعروں کو بخشیش کے طور پر رحمتِ عالم کی طرف سے چادر عنایت ہوئی۔ بانت سعاد کا ذکر آپ پڑھ چکے، بردہ شریف کی کہانی بھی سنئے۔
امام بوصیری 608 ہجری میں پیدا ہوئے اور اٹھاسی برس کی عمر پاکر 696 ہجری میں وفات پائی۔ ابنِ شاکر کی کتاب ”فوات الوفیات“ کا حوالہ دیتے ہوئے محمد کاظم نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ امام بوصیری پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کے جسم کا نصف حصہ بے کار ہوکر رہ گیا۔ اس بیماری نے ان کے اعصاب اور دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالا اور انہوں نے رسولِ کریم کی شان میں قصیدہ نظم کرنا شروع کردیا۔ بسترِ علالت پر لیٹے شعر کہتے رہتے۔ رفتہ رفتہ قصیدہ مکمل ہوگیا تو اسے بار بار پڑھتے اور خدائے تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر اپنی شفا کے لئے دعا کرتے۔ ایک رات اسی حالت میں روتے ہوئے سوگئے۔ خواب میں دیکھتے ہیں کہ رسولِ کریم تشریف لائے اور اپنا دستِ مبارک بوصیری کے جسم کے فالج زدہ حصے پر پھیرا اور ایک چادر ان پر ڈال دی۔ صبح جب بیدا ر ہوئے تو خود کو بالکل تن درست اور صحت یاب پایا، روایت میں ہے کہ چادر بھی ان کے جسم پر موجود تھی۔ اسی لئے امام بوصیری نے قصیدے کا نام ”بردہ شریف“ رکھا۔ بُردہ عربی زبان میں اس یمنی چادر کو کہتے ہیں جو دھاری دار ہوا کرتی ہے۔
گویا یہ رسولِ کریم کی طرف سے مرحمت فرمائی جانے والی چادر کی برکت ہے کہ بانت سعاد اور بُردہ شریف چہار وانگ عالم میں بے مثل و بے نظیر شہرت سے ہم کنار ہوئے۔ امام بوصیری پر اس خواب والے واقعہ کا گہرا اثرا ہوا۔ قبل ازیں انہوں نے اس قصیدے کا نام ” الکواکب الدریہ فی مدح خیر البریہ“ (عظیم ترین انسان کی مدح کرتے درخشاں ستارے) رکھا تھا مگر خواب میں چادر پانے کے بعد اسی حوالے سے قصیدہ موسوم کردیا۔ اس قصیدے کو صوفیا اور اہلِ باطن نے اپنے اذکار و وظائف میں خصوصی درجہ دیا ہے۔ بہرحال! میں تو آپ سے اپنی الجھن دور ہونے کا ذکر کررہا تھا۔ ایک سو پینسٹھ اشعار اور دس ابواب پر مشتمل اس قصیدہ کا ایک شعر یوں ہے ”آپ اپنی ہیبت اور رعب و جلالت میں فردِ یگانہ ہیں۔ جب کبھی تو آپ کو اکیلا دیکھے گا تو ایسا معلوم ہوگا کہ آپ کے ساتھ خدمت گاروں کا انبوہِ کثیر اور سپاہیوں کا لشکرِ عظیم ہے“۔ شرح میں محمد کاظم لکھتے ہیں کہ حضور کی شخصیت کا اس قدر ہیبت اور رعب تھا کہ کوئی اس کو برداشت نہیں کرسکتا تھا۔
”لشکرے دَر یک قبا و کشورے دَریک بدن“ والی بات یعنی ایسا شجاع جیسے ایک لباس میں پورا لشکر ہو اور ایسا عظیم کہ گویا ایک بدن میں پورا ملک۔ محمد کاظم نے لکھا ہے کہ آثار میں مروی ہے کہ حضور علیہ الصوٰة و سلام کی ہیبت اس قدر تھی کہ کوئی شخص غور کر کے آپ کی طرف دیکھ نہیں سکتا تھا۔ یہ شعر اور اس کی مختصر شرح پڑھ کر یہ عقدہ حل ہوا کہ خواب میں زیارت کے دوران اُس کے رونگٹے کیوں کھڑے ہوگئے تھے۔ یہ دراصل رعبِ نبوت تھا اور اس بے مثل شخصیت کی شوکت جس کے نامِ نامی، اسم گرامی کے معنی ہی ”بہت زیادہ تعریف کیا گیا“ کے ہیں۔ یہ وہ رعب ہے جو مخالفین کے دلوں کو خوف سے لرزا دیتا ہے اور عامیوں کے دلوں پر عقیدت و احترام کی انتہائی کیفیت طاری کردیتا ہے۔ شخصیت کی عظمت اور دبدبہ بھی رونگٹے کھڑے کردیتا ہے اور سید البشر سے بڑی شخصیت بھلا کون ہوسکتی ہے ۔
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر