نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

طلبہ کو کسی راہبرکی تلاش ہے||جویریہ اسلم

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آج کے نوجوانوں کی اکثریت کا خواہ وہ اسکولز کے اسٹوڈنٹس ہوں یا کالجز ، یونیورسٹیز اور دینی مدارس کے ان کا اپنے کیرئیر کے حوالے سے کوئی واضح موقف نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے ، ہم اپنی زندگی کی شروعات کس شعبے سے کریں گے ؟ یعنی مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی نہیں - ایک دوسری قسم بھی ہے جو ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں یا انجینیئر اور اب ہمیں صرف پیسہ کمانا ہے۔
جویریہ اسلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے ابھی کچھ دن پہلے پروفیسر ہارون الرشید کا آرٹیکل سٹوڈنٹ کونسلنگ پڑھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ تعلیم کا مقصد ناصرف طلبہ کو علم و شعور عطا کرنا ہے بلکہ ان کے رجحانات، دل چسپیوں اور صلاحیتوں کے مطابق انہیں کسی خاص پیشے میں ماہر بنانا ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں و دل چسپیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس شعبے میں نام پیدا کرکے بہتر روزگار بھی حاصل کرسکیں۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ تعلیمی ادارے میڑک اور انٹرمیڈئٹ پاس یا پھر او اور اے لیول کرنے والے طلبا/ طالبات کی درست سمت میں رہنمائی بالکل نہیں کرتے۔
ہمارے ہاں باقی شعبوں کی طرح طلبا کی راہنمائی کیلئے بھی کوئی شعبہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ ’’اسٹوڈنٹس کونسلنگ‘‘ کس بلا کا نام ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے، ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں تو پھر کیونکر طلباء کی صلاحیتوں کے مطابق اُن کی صحیح رہنمائی ہو ۔ کونسلنگ کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ طلبا کے کیریئر کا اپنی طرف سے انتخاب کیا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ کیریئر کی راہ میں حائل رکاوٹ کی کنفیوژن کو دور کیا جائے. طالب علم کو اس کے ذہنی رحجان کے مطابق راستہ دکھایا جائے اور بتایا جائے کہ یہ راستہ کس منزل تک جاتا ہے۔ انہیں ان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے متعلق آگاہ کیا جائے اور کمزوریوں سے باخبر رکھا جائے، نیز انہیں آگے پیش آنے والے چیلنجز سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ کسی غلط ٹریک پر جانے سے بچ سکیں اور صحیح راستے پر گامزن رہیں لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں طلباء کیلئے ایسا کوئی انتظام نہیں۔
پچھلے کچھ دنوں سے میں نے سوشل میڈیا پر سی ایس ایس سے متعلقہ گروپس جوائن کئے ہیں اور ان میں آنے والی پوسٹس کا کچھ تذکرہ کرنا چاہوں گی جن میں زیادہ تر سوائے اظہارِ تفنن کے کچھ بھی نہیں تھیں اور جو جتنی غیر سنجیدہ ہوتی، اس پر اتنے ہی زیادہ کمنٹس دیکھنے میں آتے_
پچھلے دنوں سی ایس ایس کا رزلٹ آیا ہے تو گویا گروپس میں سکسیس سٹوریز success stories کا تانتا بندھ گیا مگر مجھے حیرت اس بات کی تھی کہ لوگ اپنے گروپ فیلوز، اکیڈمی فیلوز، سوشل میڈیا فرینڈز، خالہ کے ہمسایوں کے لڑکے، اپنے اپنے شہر کے کسی سپوت یا پھر برادری کے کسی کامیاب امیدوار کی کہانی بتاتے نظر آئے _ مجھے یہ سب خاصا عجیب لگا۔ مقابلے کے امتحان کے بعد کامیاب امیدواران 17 گریڈ کے ملازمین ہی تو بنتے ہیں تو آپ لوگوں اس قدر تہلکہ کیوں مچا دیتے ہیں؟
چلیں بہرحال یہ تو کامیابی کی خوشی کی سیلیبریشن ہو گئی، اب آتے ہیں اصل نقطے کی طرف کہ آیا یہ گروپ سی ایس ایس کی تیاری میں اتنے ہی فائدہ مند ہیں جتنا امیدواران ان پر وقت ضائع کرتے ہیں _ تو اس کا جواب ہے کہ ہرگز نہیں _ معلومات کا جو سمندر ان گروپس میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے، میرے خیال میں آپ اس میں مزید الجھ سکتے ہیں اور دلبرداشتہ بھی _
سی ایس ایس میں کامیابی کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی پسند اور دلچسپی کے مضامین منتخب کرنے کے بعد اپنا فوکس اصل ویب سائٹ پر رکھیں _ اپنے سلیبس اور گزشتہ پیپرز کا پرنٹ نکلوا کر اس پر تھوڑی توجہ دیں _ ویب سائٹ پر دی گئی کتابوں پر توجہ دیں _ اپنے نوٹس بنائیں اور خود کو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے آنے والے انفارمیشن فلو سے ممکن حد تک بچائیں _ رہی بات انگریزی کی تو اسے خود پہ سوار مت کریں۔ آپ کی بنیاد اچھی ہونی چاہیے، مزید چھوٹی چھوٹی بکلٹس سے آپ اس میں مزید نکھار لا سکتے ہیں _ آپ روزانہ کوئی ایک مستند اخبار ضرور پڑھیں، اس سے آپ کے ذخیرہ الفاظ اور جنرل نالج دونوں میں بہتری آئے گی_
یقین رکھیں کسی کے پاس بھی ایسا فارمولا نہیں ہے کہ وہ آپ کو دے دے اور آپ اسے لگاتے ہی کامیاب ہو جائیں گے_ کوئی بھی شعبہ ہو، آپ محنت کر کے ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں اور اس کامیابی کو اگر کوئی یقینی بنا سکتا ہے تو وہ آپ خود ہیں۔
سوشل میڈیا پر سی ایس ایس کے گروپس نے ایک ایسے طبقے کو جنم دیا ہے جو کہ سرے سے اس امتحان سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں، مثال کے طور پر ایک پوسٹ نظر سے گزری کہ کیا سی ایس ایس علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کیا جا سکتا ہے؟ کوئی ڈیڑھ دو سو جوابات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اس کی ویلیو کوئی نہیں ہوگی، اس لیے بہتر ہے کہ آپ پنجاب یونیورسٹی سے کرو_ یہ سوال امیدوار کے جنرل نالج کو ظاہر کرتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ ایسے طلبا کی بھی کمی نہیں ہے جو انگریزی یا اردو میں درست انداز سے سوال بھی نہیں پوچھ پاتے اور چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا راستہ بتایا جائے کہ تعلیمی میدان میں دس پندرہ سال گزار چکنے کے باوجود ان میں موجود کمیاں فوراً دور ہو جائیں _ مجھے دکھ ہوتا ہے ہمارے نظام پر جو ہمارے نوجوانوں کی اتنی بھی راہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ انہیں مستقبل کیلئے کس شعبے کا انتجاب کرنا چاہئیے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آج کے نوجوانوں کی اکثریت کا خواہ وہ اسکولز کے اسٹوڈنٹس ہوں یا کالجز ، یونیورسٹیز اور دینی مدارس کے ان کا اپنے کیرئیر کے حوالے سے کوئی واضح موقف نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے ، ہم اپنی زندگی کی شروعات کس شعبے سے کریں گے ؟ یعنی مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی نہیں – ایک دوسری قسم بھی ہے جو ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں یا انجینیئر اور اب ہمیں صرف پیسہ کمانا ہے۔
انسان "حیوانِ ناطق ” ہیں اور جانور "حیوانِ لاحق” تو صرف کھانا ، پینا اور سونا ہی آپ کی زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہیئے ، اپنی زندگی کا ایک اچھا سا مقصد چن لیں ، گول متعین کریں ، ترجیحات طے کریں ، مزید علم حاصل کریں، اپنی زندگی کا ایک اصول بنا لیں کہ میں بسترِ مرگ پر بھی کتاب سے مستغنی نہیں ہوسکتا ، علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسکلز کو سیکھیں اور اس کو آگے پھیلائیں اور اس کے مطابق اپنے لائف اسٹائل میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔
اپنے وقت کا بہترین استعمال کریں، یہ جو موبائل نامی ڈیوایس ہمارے ہاتھوں میں ہے ناں، یہی آپکے وقت کو کسی بلا کی طرح کھا بھی سکتی ہے اور صحیح استعمال کیوجہ سے آپ کو کہیں کا کہیں بھی پہنچا سکتی ہے _ یقین مانیں ایک انسان ایک وقت میں بہت کچھ کر سکتا ہے _ آپ کو کوئی نہیں روکتا کہ سوشل میڈیا استعمال نہ کرو، موبائل پہ بک ریڈنگ نہ کرو، آرٹیکلز نہ لکھو مگر وقت کی درست بانٹ اور جان پرکھ کیساتھ چلیں اور پھر معجزات دیکھتے جائیں۔
ایک اچھے ادارے کی اہمیت سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا مگر انہی اداروں سے کچھ لوگ ناکام ہو کر بھی نکلتے ہیں – کوئی مدرسہ ، کوئی یونیورسٹی ، کوئی کالج ، کوئی اسکول اور کوئی کتب خانہ کسی انسان کو نہیں بناتا ، ہاں اچھے ادارے میں ایک اچھا ماحول اور موقع آپ کو ضرور ملتا ہے_ لیکن اس کے ساتھ ہی آپ خود اپنی قوت بازو، قوت ارادی اور اپنی محنت و کاوش سے اپنی زندگی بدل سکتے ہیں _طلب و تڑپ ہی پر زندگی کا دارو مدار ہے اور عزم و ہمت اور بلند حوصلگی اسکی بنیاد ہے _

یہ بھی پڑھیے:

جویریہ اسلم  کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author