وہ اب پھر مہاجر نسل پرستانہ کارڑ کھیلنے کی کوشش کررہی ہے- مجھے یقین ہے کہ کراچی کی اردو اسپیکنگ کمیونٹی کی اکثریت سندھی عوام کی اکثریت کی طرح اسٹبلشمنٹ کے کاسہ لیس نسل پرستوں کو مسترد کردے گی -
عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوری کی 17 تاریخ کو سن میں جنم. لینے والا جی ایم سید بلاشبہ سندھی قومی پرستی کے بانیوں میں سے ایک تھا اور وہ سندھی قوم کی آزادی کا خواہش مند تھا لیکن اُس کے ہاں سندھ قوم کی آزادی کا جو سیاسی روڈ میپ تھا وہ عوام کے اندر کبھی مقبول نہ ہوسکا- جی ایم سید کی سب سے بڑی سیاسی ناکامی یہ تھی کہ وہ اتنے لمبے عرصے سے سندھی عوام میں جس سیاسی معاشی پروگرام کو مقبول بنانا چاہتے تھے اُسے کہیں زیادہ کامیابی سے ذوالفقار علی بھٹو نے مقبول بنادیا اور وہ سندھ کے مقبول ترین عوامی لیڈر بن گئے، جی ایم سید جیسے قوم پرست اور سندھ میں بایاں بازو کے پرانے نامور لیڈروں نے بھٹو کی سندھ میں سیاسی مقبولیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ وہ تو بھٹو کو سرے سے عوامی جمہوری سیاست دان تک تسلیم نہیں کرتے تھے – جی ایم سید کو سندھی عوام پہ سخت غصہ تھا کہ وہ اُن کو سندھ کی سیاست کا بے تاج بادشاہ بنانے کی بجائے لاڑکانہ سے نسبتاً کم سماجی رتبے کے مالک ایک زمیندار گھرانے کے جدید تعلیم یافتہ نوجوان کو اپنا لیڈر مان رہے تھے جوو ابھی چند سال پہلے تک تو ایوب شاہی کا ستون بنا ہوا تھا- لیکن وہ یہ دیکھنے سے قاصر رہ گئے کہ صدیوں کے جاگیردارانہ، قبائلی پسماندہ سماج میں بُری طرح سے جبر وستم اور اپنی زرعی محنت کی لوٹ کا شکار سندھی غریب عوام کو بھٹو نے اُن کی عزت نفس لوٹائی، اُن کو ملکیتی حقوق دلوائے، انھیں وفاق اور صوبائی نوکریاں دیں، تعلیمی ادارے قائم کرائے، پھر جب ضیاء الحق سندھی عوام کو بھٹو سے محبت کی سزا دے رہا تھا تب بھی جی ایم سید جیسوں کو لگا کہ سندھی عوام گمراہ ہیں، انھیں کوئی سیاسی شعور نہیں ہے وہ اپنی سیاسی غلطیوں اور بلنڈر کا سدباب کرنے کی بجائے عوام کو ہی الزام دینے لگے – ضیاء الحق کا ساتھ دیا- کس قدر بے بصیرت ثابت ہوا جی ایم سید کہ ایوب شاہی کو عروج کے زمانے میں لات مار کر آنے والے اور عوام سے عہد وفا نبھاکر جان دینے والے بھٹو کی ایوب شاہی میں شرکت جسے ناقابل معافی لگتی تھی جسے لگتا تھا کہ بھٹو نے تہتر کے آئین کو فیڈرل بناکر کنفیڈرل سے انحراف کرکے سندھیوں کے حقوق کا سودا کیا وہ سرے سے جمہوری، آئینی، سیاسی صوبائی خودمختاری کو غصب کرنے اور ملک میں بنیاد پرستی کا زھر پھیلانے والے جنرل ضیاء الحق کا حامی ہوگیا-
لوگ سندھی زبان و ثقافت، سندھی قوم کے حقوق اور آزادیوں کے لیے جی ایم سید کی ماقبل ستر کی دہائی کے معترف ہیں اور اس سے انکار بھی ممکن نہیں ہے لیکن انھوں نے زوالفقار علی بھٹو اور پی پی پی کے سندھ کی عوام سے رشتے اور تعلق بارے جو سیاسی تناظر پیش کیا وہ سوائے ایک عظیم الشان فریب کے اور کچھ بھی نہیں تھا جو بعد ازاں بھٹوز اور پی پی پی سے بغض اور نفرت میں بدل گیا-
وہ ایم آر ڈی کی تحریک کے ساتھ سندھی عوام کی جڑت اور اس میں سندھی عوام کی شرکت کو پی پی پی کے اقتدار پہ قبضے کی دوبارہ کوشش سے تعبیر کرتے رہے – اور پھر وہ 1983ء میں جنرل ضیاء الحق کو حیدر منزل حیدرآباد میں اپنے سے ملنے کی اجازت دے بیٹھے اور پھر میر علی تالپور کے جنازے پہ ضیاء الحق کو ملے – سندھی عوام پہ پولیس فوج، ایجنسیاں، ضیاء الحق کے سرکاری گماشتے ڈاکوؤں کی شکل میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے تو انہوں نے مظلوم سندھیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے ضیاء الحق سے صرف اس لیے ہاتھ ملالیا کہ وہ بھٹو خاندان اور پی پی پی کو ماضی کا قصہ بنادینا چاہتا تھا – اس سے جی ایم سید کو یہ امید تھی کہ پھر سندھ میں خالص سندھی علیحدگی پسند تحریک چلانے کی راہ ہموار ہوجائے گی –
زوالفقار علی بھٹو سے لیکر آصف علی زرداری اور اب بلاول بھٹو زرداری تک سب کا سیاسی فلسفہ جمہوریت یہ ہے کہ پاکستان کی جملہ صوبائی اور الحاقی یونٹس ایک وفاقی پارلیمانی نظام میں بھرپور صوبائی خود مختاری کے حامل ہوسکتے ہیں اور اٹھارویں ترمیم تک کا سفر پی پی پی شہید اور حیات قیادت کے سیاسی فلسفے کو درست ثابت کرتا ہے –
پاکستان میں کمیونسٹ انقلاب اور قوم پرستانہ علیحدگی پسند انقلاب لانے والوں کی قیادتوں نے سیاسی میدان میں ایسی بھاری بھر کم غلطیاں کی ہیں جن کی وجہ سے عوام نے انھیں مسترد کردیا- یہ بھٹوز سے نفرت میں اور عوام میں اپنی غیرمقبولیت کے غصے میں کبھی جنرل ضیاء الحق سے مل گئے تو کبھی انھیں نواز شریف کے اندر اپنا مسیحا نظر آیا- سندھی قوم پرست سیاسی جماعتیں آج بھی سندھ میں فوجی اسٹبلشمنٹ کی اتحادی اور وفاق مین نواز شریف کی گود میں بیٹھی ہیں اور سندھ میں سلیکٹڈ ہو، اس کا اتحادی جی ڈی اے ہو یا پھر فضل الرحمان کی قیادت میں اے پی ڈی ایم ہو یہ سب پی پی پی کے خلاف اکٹھے ہوجاتے ہیں اور بھٹوز سے نفرت اس کا سب سے بڑا سبب ہے – سندھی عوام کی اکثریت کے سیاسی شعور نے کبھی غلط فیصلہ نہیں کیا وہ ہمیشہ سے جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اُن کے حقوق کی ضامن کون سی جماعت اور کون سی قیادت ہے – سندھی عوام کیا اندھے ہیں جو اُن کو یہ نظر نہ آئے کہ کراچی کا لسانیت پرست فسطائی ٹولہ جسے جنرل ضیاء الحق نے اور پھر مشرف نے جعل سازی سے طاقتور بناکر کراچی پہ مسلط کیا تھا پی پی پی کی سندھ میں حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کیوں کررہا ہے؟
کراچی جو ایک زمانے میں جمہوریت پسند تحریکوں کا مرکز تھا جہاں ورکنگ کلاس اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے صحافیوں، وکلاء، اساتذہ اور طلباء کی اکثریت آمریت اور عوام دشمن رجحانات کا مقابلہ کرتی تھی وہاں کیسے ایک نسل پرست فسطائی تنظیم کو کھڑا کیا گیا کیونکہ کراچی نے اس سے پہلے مذھبی دائیں بازو کی نمائندہ جماعتوں کو کبھی کراچی کی سیاسی سماجی زندگی پہ حاوی نہیں ہونے دیا تھا- اسلحہ، گینگ، بدمعاشی، پروفیشنل کلرز، فرقہ وارانہ تشدد، نسل پرستانہ شاؤنسٹ مسلح جتھے بندیوں کے زریعے سے کراچی کو تباہ و برباد کردیا گیا اور مقصد ایک ہی تھا کہ جمہوری ترقی پسند قوتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے – پہلے یہ کام جنرل ضیاء 11 سال کرتا رہا اور پھر یہ کام اُس کی باقیات جو بعد ازاں پرو نواز اور اینٹی نواز ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی لیکن دونوں پی پی پی کی جمہوریت پسند سیاست کے خلاف اقدام اٹھانے میں متفق تھے –
پی پی پی نے بے نظیر بھٹو اور پھر آصف علی زرداری کے دور میں الطاف حسین اور اُن کی پارٹی کے سرکردہ سیاسی لوگوں کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کراچی میں امن پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن ایم کیو ایم کے اندر اس قدر اسٹبلشمنٹ کی مداخلت تھی اور پھر کئی اور ممالک کے اہجنسیوں کے نیٹ ورک تھے کہ ایم کیو ایم کا سیاسی سیکشن اُن کے کنٹرول سے خود کو آزاد ہی نہ کراسکا- اس سب کے باوجود پی پی پی الطاف حسین اور ان کے سیاسی بالغ نظر ساتھیوں سے بہتر ورکنگ ریلشن شپ قائم کرنے کی کوشش کررہے تھے جب الطاف حسین نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگادیا یہ نعرہ انھوں نے کس حالت میں لگایا اور کیا ان کو انجیکشن کے زریعے سے مفلوج کرنے والی باتیں درست ہیں؟ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ایک بات طے ہے کہ اس کے بعد پی پی پی کے لیے ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد میں چلنا ناممکن ہوگیا تھا-
ایم کیو ایم کی پاکستان میں موجود قیادت اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جڑکر پی ٹی آئی، ایم کیو ایم بہادر آباد اور پاک سرزمین پارٹی میں بٹ کر الطاف حسین سے لاتعلقی ظاہر کرکے مکمل "سیاسی یتیم” بن گئی ہے-
وہ اب پھر مہاجر نسل پرستانہ کارڑ کھیلنے کی کوشش کررہی ہے- مجھے یقین ہے کہ کراچی کی اردو اسپیکنگ کمیونٹی کی اکثریت سندھی عوام کی اکثریت کی طرح اسٹبلشمنٹ کے کاسہ لیس نسل پرستوں کو مسترد کردے گی –
کراچی اس وقت سرائیکی، سندھی، بلوچ،پشتون اور پنجابی اور اردواسپیکنگ بڑے لسانی گروہوں کا شہر ہے اور یہاں پہ ترقی پسند جمہوری سیاست کو پروان چڑھنا چاہیے ناکہ لسانی شاؤنزم کے تحت نفرت کی سیاست کو فروغ دیا جائے- پی پی پی کی کراچی کے بلوچ، سندھی، پنجابی ، بلوچ ،سرائیکی اور اردو اسپیکنگ برادریوں اور حلقوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راز اُن کی نفرت سے پاک جمہوری اور عوامی خدمت کی سیاست ہے – لسانیت پرستوں کو پتا ہے کہ اس بار بلدیاتی انتخابات میں ان کی منافرت کی سیاست کا مقابلہ عوامی خدمت کی سیاست سے ہے اور عوامی خدمت کی سیاست کی جیت صاف نظر آرہی ہے – کراچی سب کا ہے چاہے وہ 47ء سے پہلے کے باشندے ہوں یا بعد کے – عام آدمی کو مٹھی بھر متعصب احساس برتری کے مارے ناام شکست خودرہ سیاست دانوں سے کوئی سروکار نہیں ہے جنھوں نے اسٹبلشمنٹ کے سہارے ملی حکومت اور بلدیاتی اداروں میں اقتدار کو ناجائز قبضوں اور دولت کے انبار لگانے میں استعمال کیا اور کراچی کا ستیاناس کردیا –
اندرون سندھ کے قوم پرست ہوں یا کراچی کے لسانیت پرست متعصب سیاسی یتیم ہوں اُن کا احتساب عوام اپنے ووٹ کے زریعے کریں گے- یہ عوام سے ووٹ کی طاقت لینے کی بجائے کبھی گورنر ہاؤس تو کبھی کورکمانڈر ہاؤس تو کبھی جی ایچ کیو تو کبھی آبپارہ کی طرف دیکھتے ہیں اور عدالت میں کسی قاضی شریح کو تلاش کرتے ہیں – ان کی یہی حرکتیں ان کو سندھی عوام کے سامنے بے نقاب کردیتی ہیں –
مجھے پوری امید ہے کہ اس مرتبہ کراچی سے حیدر آباد اور میر پور خاص سے سکھر تک اردو بولنے والی برادری کے نوجوان سیاسی شعور سے لیس ہیں وہ اپنی کمیونٹی کے اندر غیر جمہوری اور عوامی سیاست کے دشمنوں کو مسترد کردیں گے- وہ اپنی کمیونٹی کے ایسے کرداروں جو سندھی، پشتون، بلوچ،سرائیکی ،گلگتی بلتی، کشمیریوں کے خلاف تعصب اور نفرت پھیلانے کا کام کرتے ہیں انھیں مسترد کردیں گے اور اپنے بنیادی انسانی حقوق کی جنگ لڑیں گے – بلاول بھٹو زرداری سندھ میں بسنے والے تمام لسانی گروہوں کے نوجوانوں کی آرزؤں اور خواہشوں کا مرکز ہے اور اس مرکز کے گرد جمع ہوکر ہی سندھ کے تمام لوگ خوشحالی کے راستے کی طرف چل سکتے ہیں
کراچی تا سکھر ہر جوان بولے گا
تعلیم میرا حق، روزگار میرا حق
مجھ کوئی چھینے نا میری لسانی شناخت پہ
سندھ کا رہنے والا ہر شخص کہے گا یہ بڑھ کر
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر