سعید جان بلوچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے بلوچستان کے عوام کے دلوں میں ایک ایسی آگ سلگ رہی ہے جس کو نہ بجھایا گیا تو لاوا بن کر پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتا ہے ، کتاب کے مصنف عزیز سنگھور جو خود ایک پیشہ ور صحافی ہے انھوں نے اس کتاب کو ان قلم کاروں کے نام کیا ہے جنھوں نے پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران جام شہادت نوش کیا، مصنف نے جہاں ایک طرف بلوچستان کے تاریخی اضلاع کی تاریخ کو قاریئن کے سامنے رکھا ہے ، وہاں انھوں نے بلوچستان کو درپیش مسائل کو بھی اپنی تحریر کا حصہ بنایا ہے اور ان مسائل کے حل کے لئے اپنی تجاویز بھی پیش کی ہیں جس کو سامنے رکھ کر بلوچستان کے عوام کے سلگتے جذبات کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے، ریاست لسبیلہ کے عروج و زوال کو عزیز سنگھور نے کچھ یوں پیش کیا ہے کہ ہر ریاست تاریخ کو مسخ کر کے اپنی جھوٹی تاریخ متعارف کراتی ہے، تاکہ وہ جھوٹ کی بنیاد پر با آسانی حکومت کر سکے اس طرح ریاست لسبیلہ کے جدگال حکمرانوں نے ایک جھوٹی تاریخ پر اپنی ریاست قائم کی، اپنے بھائیوں کو دھوکہ دے کر ریاست پر قبضہ کیا، حالانکہ ریاست لسبیلہ کے اصل وارث صرف جاموٹ کی ذیلی شاخ عالیاںی نہیں ہیں بلکہ گنگو اور برفت اقتدار میں برابر کے شراکت دار ہیں، ان کے درمیان معادہ تھا کہ باری باری ریاست کی سربراہی ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلے کو منتقل کی جائے گی مگر جاموٹوں نے ایسا نیہں کیا، اسی طرح مصنف نے بلوچستان کے مزاحمتی علاقے کوہلو کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اپنے پڑھنے والوں کو یہ باور کرایا ہے کہ کوہلو صرف ایک علاقہ نھیں ہے بلکہ مزاحمت کا سرچشمہ ہے آگے چل کر انھوں نے بلوچستان میں ترقی کرتے ہوئے شہر گوادر کی ترقی کو نہیں بلکہ اس کی آزادی کو ختم کر کے پنجرے میں بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے، گوادر بلوچی زبان کے دو الفاظ گوات اور در سے بنا ہے جس کی معنی ہوا کا دروازہ ہے گذشتہ برس یہ ہوا کا دروازہ ہوا کے لیےبند کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا اس سلسلےمیں گوادر میں سیف سٹی منصوبے کے تحت باڑ لگانے کام شروع کیا گیا تھا جسے سیاسی جماعتوں اور عوامی احتجاج کے بعد روک دیا گیا تھا اس کتاب میں انھوں نے مستقبل میں گوادر آنے کے لئے چائینیز قونصلیٹ سے ویزا لگانے کے حوالے سے مرحعوم بلوچی شاعر انور صاحب خان کے بیان کو کوڈ کیا ہے ، عزیز سنگھور نے اپنی کتاب میں خاران کے ریاست سے ضلع بننے کے سفر کو بھی شامل کیا اسی طرح انھوں نے ریاست قلات کے ماضی حال اور مستقبل کو پانچ گمشدہ قبروں کے حوالے مشھور شہر پنجگور، اکبر بگٹی کے ڈیرہ بگٹی اوردشت وصحرا دشت کی تاریخ لکھی ہے، مصنف نے ریاست کو یاد دلانے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ریاست عوام کی حفاظت کرتی ہے لوگ ریاست کی اولاد کی طرح ہوتے ہیں ماں اپنی اولاد کا کبھی برا نہیں سوچتی لیکن بلوچستان میں ریاست باپ بن چکا ہے، آج کے بلوچستان میں حکمرانی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)
کی ہے اس کے ہاتھوں میں ایک چھڑی ہے جس سے وہ اپنے بچوں کی خوب دھلائی کر رہا ہے، مصنف نے بلوچستان کے ادیبوں، دانشوروں ، مصنفین اور شاعروں کے شہر نوشکی کا نوحہ بھی لکھا ہے کہ نوشکی میں حکومت کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے معاشی بحران جنم لے چکا ہے ، نوشکی میں عوامی لاوا پک رہا ہے یہ کسی بھی وقت پھٹ کر ابل سکتا ہے ، انھوں نے بلوچی قومی تشخص کے خطرے میں ہونے کی بھی نشاندہی کر دی ہے، بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے آئینی راستہ تلاش کیا جا رہا ہے ایک آئینی مسودہ بھی تیار کیا جا رہا ہے اس آئینی مسودے کو ایک چینی فرم اور بلوچستان نیشنل ڈولپمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے تیار کیا جا رہا ہے جس کو گوادر ماسٹر پلان کا نام دیا گیا ہے مصنف سمجھتے ہیں کہ اس قانون کے تحت بلوچ اپنی سرزمین پر اوغور بن جائیں گے، مصنف نے آئٹمی دھماکے کے حوالے ضلع چاغی کی چیخیں بھی محسوس کی ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ چاغی کے پہاڑوں، پرندوں اور جانداروں کو سعودی و اماراتی عرب شیخوں کے حوالے کر دیا گیا ہے، وہ یہاں آ کر پرندوں ۔ جانوروں کا شکار کر کے ان کی نسل کشی کر رہے ہیں چاغی کے رہنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے پرندے اور جانور بھی چیخ رہے ہیں، مصنف نے بلوچستان کے علاوہ کراچی، اور سندھ کے دیگر اضلاع میں بسنے والے بلوچوں کے ساتھ ہونے والی ریاستی زیادتیوں اور مظالم کو بھی اپنی تحریر میں موضوع بحث بنایا ہے، سلگتا لیاری ، آرٹس کونسل کراچی میں آرٹ کی موت، پرتگیز ائمپائر سے ملک ریاض ائمپائر تک لیاری میں مافیاز کا راج، سندھ پولیس کا بلوچستان عوام کے ساتھ ناروا سلوک، گڈانی میں مزدوروں کو درپیش مسائل شامل ہیں، مصنف نے کینیڈا میں قتل کی جانے والی قوم پرست بلوچ خاتون رہنما کریمہ بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی جدوجہد کی مشعل کو ہر بلوچ کے ہاتھوں میں دیکھا ہے، اور لکھا ہے ہر بلوچ بیٹی کریمہ بلوچ کے قتل پر سوگوار ہے ہر آنکھ آشک بار ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ معاشرے میں شہادت کو بلند رتبہ حاصل ہے عزیز سنگھور نزدیک بلوچ کسی قوم کا نام نہیں ہے بلکہ بلوچ کردار کا نام ہے ، ہر بلوچ اپنے کردار سے اس بات کو ثابت کرتا ہے مصنف نے منان چوک سے ڈی چوک اسلام آباد لانگ مارچ کے علاوہ مام قدیر بلوچ کی قیادت میں 2013 میں کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کا ذکر کیا ہے جس میں دس برس کے بچے علی حیدر بھی موجود ہے جو اپنے والد محمد رمضان کی بازیابی کے لئے پیدل مارچ میں شامل تھا، عزیز سنگھور نے کراچی کے مشہور علاقے لیاری میں مافیاز کا ذکر کیا ہے جو ڈرگ مافیا اور بلڈر مافیا کی شکل میں لیاری کے عوام کا استحصال کر رہے ہیں استحصال کا شکار زیادہ تر بلوچ ہو رہے ہیں،
عزیز سنگھور نے رونامہ آزادی کوئیٹہ میں اپنے 47 کالموں کو کتابی شکل دی ہے ان تمام کالموں کو تواتر سے پڑھنے پر آپ مجبور ہو جائیں گے، انھوں نے بلوچستان کے جن سلگتے مسائل کو شامل کیا ہے اس پر پڑھنے والا محسوس کرے گا جیسا کہ وہ خود سلگ رہا ہے ، بلوچستان کی تاریخ، اس کے مسائل اور جغرافیہ میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لئے کافی عرصہ بعد ایک مستند کتاب شایع ہوئی ہے اس کتاب پر بہت کچھ لکھا جاستا ہے لیکن اس کو مختصر لکھنے پر مجبور ہوں کوئٹہ سے شایع ہونے والے روزنامہ آزادی سمیت علم و ادب پبلشر اور بک سیلر کراچی نے اس کتاب کو شایع کیا ہے جو 230 صفحات پر مشتمل ہے اس کی قیمت 400 روپے ہے یہ کتاب تاریخ اور سیاسی طالب علموں کے رہنمائی کا درجہ رکھتی ہے اس سے ریاست، بلوچستان اور عوام کے درمیان حائل خلیج کی وجوہات کو جاننے میں مدد ملے گی،،،،،
یہ بھی پڑھیے:
لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور
کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر