نومبر 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خانیوال کی چند یادیں||مبشرعلی زیدی

دوسرے بھائی کا بیٹا مقبول میرا ہم عمر تھا۔ سب اسے قلی کہتے تھے۔ قلی کا ایک بڑا بھائی بھی تھا لیکن مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ تیسرے بھائی کے بڑے بیٹے کا نام مرسلین اور چھوٹے کا افتخار تھا۔ اسے اتو کہہ کر پکارا جاتا۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے بی باجی سے آج چھبیس سال بعد فون پر بات ہوئی۔ خانیوال میں وہ ہماری پڑوسی تھیں۔ دونوں مکانوں کی دیوار ملی ہوئی تھی۔ اس میں ایک کھڑکی کھول کر پٹ لگادیے گئے تھے۔ ہمیں دُسراتھ میسر آگئی۔ بابا کبھی ریاض آباد، کبھی میلسی کی نیشنل بینک برانچ میں تعینات رہے۔ وہ ہفتہ بھر وہیں رہتے اور جمعرات کی رات گھر آتے۔ جمعہ کو چھٹی گزار کے ہفتے کی صبح چلے جاتے۔ کئی سال یہی معمول رہا۔

میں چار پانچ سال کا تھا۔ کھڑکی کھول کر بے بی باجی کے گھر چلا جاتا۔ نیر بھائی سب سے بڑے تھے۔ پھر بے بی باجی، پھر واجد بھائی، پھر رانی۔ وہ میری ہم عمر تھی اور ہم ایک ہی دن قائداعظم پبلک اسکول میں داخل ہوئے۔ لیکن میری دوستی واجد بھائی سے تھی جنھیں سب پپو کہتے تھے۔ مجھ سے دو تین سال بڑے ہوں گے۔ ذہین اور شرارتی تھے۔ لوگوں کے مزے مزے کے نام رکھتے تھے۔ میری چھوٹی بہن کا نام انھوں نے گڈبین رکھا۔ اب مجھے یاد نہیں کہ اس کا سبب اور مطلب کیا تھا۔

نیر بھائی، پپو بھائی اور بے بی باجی، تینوں کو کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا۔ میں اسکول نہیں جاتا تھا اور پڑھنا نہیں آتا تھا۔ ایک دن بے بی باجی کے ہاتھ میں ٹارزن کی کہانی دیکھی تو سنانے کی فر مائش کی۔ انھوں نے کہا، خود پڑھنا کیوں نہیں سیکھ لیتے؟ بس پھر، میں اسکول میں بعد میں داخل ہوا، رسالے پہلے پڑھنے لگا۔

اشتیاق احمد کے ناول بھی پہلی بار انھیں کے گھر میں دیکھے۔ بابا کو ضد کرکے کتب خانہ صدیقیہ لے گیا اور ناول مصنوعی قتل خریدا۔ یہ انسپکٹر جمشید سیریز کا چھٹا ناول تھا۔ میرے ذہن میں آج بھی محمود، فاروق، فرزانہ کا تصور نیر بھائی، پپو بھائی اور بے بی باجی جیسا ہے۔ البتہ ان کے والد بھٹہ صاحب ہرگز انسپکٹر جمشید جیسے نہیں تھے۔

بھٹہ صاحب کے پاس لپٹن چائے کی ایجنسی تھی۔ اس سے انھوں نے بہت پیسے کمائے۔ انھیں مکان بنوانے کا شوق تھا۔ ایک مکان بناتے، کچھ عرصہ اس میں رہتے، پھر بیچ دیتے۔ پھر دوسرا مکان بناتے۔ ہمارے بڑے ماموں نے ایسا ہی ایک مکان خریدا۔ یہ مجھے اس لیے معلوم ہوا کہ اس پر بھٹہ منزل لکھا تھا۔ ماموں نے مکان خریدا، سات آٹھ سال رہے، پھر مکان بیچ کر کراچی چلے گئے۔ میں برسوں بعد خانیوال گیا تو اس مکان پر بھٹہ منزل ہی لکھا پایا۔

ہمارے گھر میں ٹی وی تھا جو اس زمانے میں بہت سے گھروں میں نہیں ہوتا تھا۔ محلے کے بچے ہمارے گھر میں جمع ہوجاتے اور ڈراما دیکھتے۔ جمعرات کی رات کو فلم آتی تو بھی مجمع ہوتا۔ ایک ایسے ہی دن بچے کھیل رہے تھے کہ کسی کے دھکا دینے پر میرا سر دیوار سے ٹکرایا اور بہت خون نکلا۔ بابا گھر پر نہیں تھے۔ بھٹہ صاحب مجھے اپنی سائیکل پر بٹھا کر نکلے۔ ڈاکٹر امین اور ڈاکٹر نصیر بخش کے کلینک بند ہوچکے تھے۔ سرکاری اسپتال دور تھا۔ وہ مجھے گپی کے چوک والے میڈیکل اسٹور لے گئے۔ میرے زخمی سر پر بہت سا پاؤڈر ڈال کر پٹی باندھ دی گئی۔ اگلی صبح امی مجھے اسپتال لے کر گئیں تو ڈاکٹر امین نے کہا، معجزہ سمجھیں کہ خالی پٹی باندھنے سے خون رک گیا۔ ورنہ سر میں آٹھ دس ٹانکے لگنے چاہیے تھے۔ آج بھی میرے سر پر اس چوٹ کا نشان ہے۔

ایک اور دن بھی بھٹہ صاحب کی سائیکل پر بیٹھنے کا موقع ملا۔ میں صبح بستہ لے کر گھر سے نکلا تو وہ سائیکل پر رانی کو اسکول چھوڑنے جارہے تھے۔ مجھ سے کہا، آؤ تم بھی سائیکل پر بیٹھ جاؤ۔ میں کیرئیر پر بیٹھا اور سائیکل چلی تو پچھلے پہیے میں پیر پھنسا لیا۔ پیر چھل گیا اور تھوڑا خون بھی نکلا۔ لنگڑاتا اور سسکیاں لیتا ہوا گھر پہنچا۔ اس کے بعد بھٹہ صاحب کی سائیکل اسٹینڈ پر کھڑی ہوتی تو بھی میں قریب سے نہیں گزرتا تھا۔

بھٹہ صاحب کا ہمارے پڑوس والا مکان کافی بڑا تھا۔ شاید ایک کنال کا۔ طبیعت کے اضطراب نے انھیں ٹکنے نہ دیا۔ ساتھ والا پلاٹ خریدا اور نیا مکان بنایا۔ خود اس میں منتقل ہوگئے اور بڑا مکان ایک زمیندار خاندان کو فروخت کردیا۔ اس مکان میں تین بھائی آکر رہے۔ ایک بھائی کے بیٹوں کے نام راؤ اختر اور راؤ شکیل تھے۔ شکیل بھائی کی ٹانگ کسی حادثے میں ٹوٹ گئی تھی۔ ایک بار وہ گھر سے بھاگے اور لاہور جاکر دم لیا۔ کچھ پیسے وہ لے گئے تھے۔ فلم انڈسٹری میں قسمت آزمانا چاہتے تھے۔ وہی ہوا جو ہوتا ہے۔ نہ فلم بنی، نہ چانس ملا۔ پیسے خرچ ہوگئے اور لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔

دوسرے بھائی کا بیٹا مقبول میرا ہم عمر تھا۔ سب اسے قلی کہتے تھے۔ قلی کا ایک بڑا بھائی بھی تھا لیکن مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ تیسرے بھائی کے بڑے بیٹے کا نام مرسلین اور چھوٹے کا افتخار تھا۔ اسے اتو کہہ کر پکارا جاتا۔

مرسلین بھائی کرکٹ کے دیوانے تھے۔ آئے دن ہارڈ بال سے میچ کھیلتے۔ ایک بار بیٹنگ کرتے ہوئے ماتھے پر گیند لگی اور کئی دن پٹی باندھے چارپائی پر پڑے رہے۔ میں نے کرکٹ کا رسالا اخبار وطن پہلی بار ان کے ہاتھ میں دیکھا۔ کراچی آنے کے بعد جب میری منیر حسین صاحب سے ملاقاتیں ہوئیں اور اخبار وطن کے دفتر آنا جانا ہوا تو مرسلین بھائی بہت یاد آئے۔

میں 2009 میں خانیوال گیا اور پرانے دوستوں سے ملاقات کی۔ ایک رات اپنے دوست راؤ فرحت کے گھر گیا۔ بیٹھک میں محفل جمی ہوئی تھی کہ اس نے ایک نوجوان کو بلوایا۔ مجھ سے تعارف کروایا کہ یہ تمھارا سابق پڑوسی اتو ہے۔ میں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ حال احوال پوچھا۔ مرسلین بھائی کی خیریت معلوم کی۔ پوچھا کہ کیا کرتے ہو؟

فرحتی نے میرا مذاق اڑایا، تم تو کہہ رہے تھے کہ اسپورٹس رپورٹنگ کرتے رہے ہو۔ ورلڈکپ کھیلنے والے فاسٹ بولر کو نہیں پہچان رہے؟ تم اسے اتو سمجھ کر مل رہے ہو لیکن پوری دنیا کے لیے یہ ٹیسٹ کرکٹر راؤ افتخار انجم ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author