حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صورتحال وہی ہے جس کا تذکرہ تواتر کے ساتھ ان کالموں میں کرتا رہتا ہوں۔ مہنگائی بدستور لوگوں کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ خیر اب وزیراعظم عمران خان نے نوید دی ہے کہ سردیوں کے بعد مہنگائی کم ہوجائے گی ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پاکستان اب بھی سستا ملک ہے۔ بہتر ہوتا وہ بتادیتے کونسی سردیوں کے بعد مہنگائی سے نجات مل جائے گی۔
فی الوقت تو ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ نے ان کے مزمل نامی معاون خصوصی کے دعوئوں کے برعکس تصدیق کی ہے کہ مہنگائی میں مجموعی کمی نہیں ہوئی۔ شرح 18فیصد سے اوپر رہی۔ 19اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، 9کی قیمتیں کچھ کم ہوئیں جبکہ 23کی قیمتیں برقرار رہیں۔
مزمل نامی معاون خصوصی نے گزشتہ روز 9اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا چارٹ سوشل میڈیا پر لگاکر دعویٰ کیا مہنگائی مسلسل کم ہورہی ہے۔ اپوزیشن اور میڈیا والے عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ اللہ اللہ جس شخص کو محلے والے نہیں جانتے وہ بھی میڈیا پر برس رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک صارف نے ان سے کہا پچھلے ایک سال میں اپنی جیب سے کتنی بار خریداری کی۔ ایک اور نے کہا یقیناً 9اشیاء کی قیمتیں کم ہوئی ہوں گی لیکن جن اشیاء کی قیمتیں بڑھی ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
پیپلزپارٹی نے 10دسمبر کو مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا۔ احتجاج یقیناً ہوگیا لیکن پیپلزپارٹی ’’پاور شو‘‘ میں ناکام رہی۔ وہ اپنے کارکنوں کو مظاہروں میں لے آئی مگر عوام کو متحرک کرنے میں ناکام رہی۔ بدانتظامی تھی یا یہ وہم کے چونکہ مہنگائی نے ات اٹھارکھی ہے اس لئے عوام خودبخود چلے آئیں گے؟ ایک بات طے ہے وہ یہ کہ دو وقت کی روٹی کا حصول ایک عام شہری کے لئے مسئلہ بن چکا شہری بچوں کے لئے رزق اکٹھا کرے کہ احتجاج میں شریک ہو۔ بہرطور پھر بھی پیپلزپارٹی کو اپنے 10دسمبر کے احتجاج کے لئے بھرپور عوامی رابطہ مہم چلانی چاہیے تھی۔
10دسمبر کو ہی ملک بھر میں مختلف مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کی اپیل پر شدت پسندی کے خلاف یوم مذمت منایا گیا۔ نماز جمعہ کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے آئمہ جمعہ و جماعت نے "ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کسی بھی مرحلہ پر جوش کو ہوش پر غالب نہ آنے دیں۔ ہر قیمت پر قانون کی پاسداری کریں”۔
یقیناً قانون کی پاسداری بہت ضروری ہے اس سے انحراف کے نتائج کسی کے لئے بھی مثبت نہیں نکلیں گے۔ عدم برداشت اور جذباتی پن کی وجہ سے ماضی میں انگنت مواقع پر پورے پاکستانی سماج کو شرمندگی اٹھانا پڑی اس پر ستم یہ ہے کہ بعدازاں قانون کو ہاتھ میں لینے اور انسانیت کو شرم سار کرنے والوں کے خلاف اس طرح موثر اقدامات نہیں ہوئے جیسے اب سانحہ سیالکوٹ کے بعد اٹھائے جارہے ہیں
مثلاً ضلع قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن میں اجرت اور بقایا جات طلب کرنے پر ہونے والی تلخ کلامی کے بعد ایک مسیحی جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے کی چمنی میں زندہ جلادیا گیا تھا۔ چند واقعات اور بھی ہیں جو بعدازاں ذاتی عناد یا لین دین کے تنازع کی بدولت رونما ہونا ثابت ہوئے۔
اصل میں ہونا یہ چاہیے کہ معاشرے میں پروان چڑھتی شدت پسندی کو ختم کرنے سے قبل خود دینی طبقوں کو اپنی صفوں میں موجود شدت پسندوں کی خبر بھی لینی چاہیے۔ اور اس کی کسی بھی سطح پر حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے۔
بہت ادب سے عرض کروں جس ملک میں ایک مسلک کا شخص دوسرے ملک کی مسجد میں نماز نہ پڑھ سکتا ہو وہاں شدت پسندی کی مذمت کے لئے ایک کیا ایک ہزار یوم مذمت منالیجئے کچھ بھی فرق نہیں پڑنا۔
پچھلے دو تین دنوں میں ایک دو اچھے کام بھی ہوئے، سوشل میںڈیا پر وائرل نفرت انگیز ویڈیوز بنانے والے چند افراد کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں ان میں سے ایک نے ظاہری طور پر ٹیوشن سنٹر بنارکھا تھا اس کی آڑ میں معصوم بچوں کے ذہنوں میں شدت پسندی کا بارود بھررہا تھا۔ ایک تو باقاعدہ سرکاری سکول کی کلاس کے طلبا کے ذہنوں میں زہر گھول رہا تھا۔ اس ملک کے دین دار طبقات کے بڑوں کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا کہ اصلاح احوال کیسے ممکن ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ شدت پسندی نے راتوں رات جنم نہیں لیا عشروں کی محنت سے پھیلی پھلی ہے اب یہ راتوں رات ختم بھی نہیں ہوگی اس کے خاتمہ کے لئے دن رات محنت کرنا پڑے گی۔
ان دنوں پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے بعض قائدین اور مجاہدین آمنے سامنے ہیں۔ لاہور کے حلقہ این اے 133کے ضمنی الیکشن میں پی پی پی کو ملنے والے ووٹوں کے بارے میں (ن) لیگ کا دعویٰ ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے ملے۔
یہ الزام بھی لگایا گیا کہ پی پی پی نے ایک شدت پسند مذہبی تنظیم سے تعاون حاصل کیا۔ پیپلزپارٹی والے مذہبی تنظیم کے تعاون اور اس سے رابطوں کی تردید کررہے ہیں مگر صوبہ پنجاب میں ’’سچ‘‘ وہی ہوتا ہے جو (ن) لیگ کی طرف سے اچھالا جائے۔ شہباز شریف کی مخصوص ملاقاتوں پر کہا جاتا ہے کہ وہ تو ہمیشہ سے ’’درباری‘‘ ہیں۔ اصل قائد مریم نواز ہے۔
این اے 133 کے ضمنی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی کم شرح پر پیپلزپارٹی والے دعویٰ کررہے ہیں کہ (ن) لیگ نے 40ہزار شناختی کارڈ خریدے تاکہ ووٹ ڈالنے کی شرح کم رہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں جماعتیں ماضی کی اپنی سیاست کی طرف واپس جارہی ہیں ایسا ہوا تو (ن) لیگ کا پلڑا بھاری رہے گا کیونکہ پنجاب کا میڈیا اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ پروپیگنڈے کے محاذ پر پیپلزپارٹی اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ پی پی پی والے بھی یہ سمجھ نہیں پارہے کہ اب سیاست اخلاص اور کارکنوں کے بل بوتے پر نہیں میڈیا منیجری پر ہوتی ہے۔
(ن) لیگ کے حامی صحافی اینکرز و تجزیہ نگاروں کی ایک فوج ظفر موج ہے یہاں تک کہ جس صوبہ سندھ میں اس جماعت کا زمینی وجود ہی نہیں وہاں بھی میڈیا مجاہدین کی ایک بڑی تعداد اس کی ہمنوا ہے۔
بہرطور دونوں جماعتوں کے حامیوں میں تلخیاں بڑھ رہی ہیں ان میں مزید اضافہ (ن) لیگ کے ایک رہنما طلال چودھری کی اس تقریر سے ہوا جس میں انہوں نے بازاری زبان استعمال کرتے ہوئے 1988ء والے حافظ سلمان بٹ کی روح کو بھی شرمندہ کردیا جسے ایک عامیانہ تقریر کرنے پر جناب نوازشریف نے باقاعدہ دعوت پر گھر بلایا اور تحسین کی تھی۔
اب چلتے چلتے یہ بھی جان لیجئے کہ وفاقی حکومت نے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر نومبر اور دسمبر میں بجلی صارفین کی جیبوں سے کمال مہارت سے 115ارب روپے نکلوانے کی حکمت عملی اپنائی۔ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر صارفین کی کھال اتارنے والوں نے بین الاقوامی منڈی میں تیل سستا ہونے پر بجلی اور پٹرولیم کے صارفین کو ریلیف دینے میں ہمیشہ بخل سے کام لیا
جیسا کہ اب جبکہ تیل فی بیرل 60ڈالر کی سطح پر ہے لیکن وزیراعظم کہہ رہے ہیں پٹرول کی قیمتیں مزید بڑھانا پڑیں گی۔ مشیر خزانہ کے بقول آئی ایم ایف سے معاہدہ پر عمل ناگزیر ہے۔ ادھر پنجاب میں وزیراعلیٰ روزانہ بڑے اعلانات کرتے ہیں اب ترقیاتی پروگرام میں 85ارب روپے کا اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دو دن قبل وزیراعلیٰ اور وزراء کے لئے نئی گاڑیاں خریدنے کے لئے 24کروڑ روپے کی منظوری دی گئی مگر اسی صوبہ پنجاب کے بعض محکموں میں دو دو ماہ تنخواہیں اور پنشنیں نہیں ملتیں، شور مچائے جانے پر ایک ماہ کی تنخواہ اور پنشن دی جاتی ہے۔
فی الوقت تو ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ نے ان کے مزمل نامی معاون خصوصی کے دعوئوں کے برعکس تصدیق کی ہے کہ مہنگائی میں مجموعی کمی نہیں ہوئی۔ شرح 18فیصد سے اوپر رہی۔ 19اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، 9کی قیمتیں کچھ کم ہوئیں جبکہ 23کی قیمتیں برقرار رہیں۔
مزمل نامی معاون خصوصی نے گزشتہ روز 9اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا چارٹ سوشل میڈیا پر لگاکر دعویٰ کیا مہنگائی مسلسل کم ہورہی ہے۔ اپوزیشن اور میڈیا والے عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ اللہ اللہ جس شخص کو محلے والے نہیں جانتے وہ بھی میڈیا پر برس رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک صارف نے ان سے کہا پچھلے ایک سال میں اپنی جیب سے کتنی بار خریداری کی۔ ایک اور نے کہا یقیناً 9اشیاء کی قیمتیں کم ہوئی ہوں گی لیکن جن اشیاء کی قیمتیں بڑھی ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
پیپلزپارٹی نے 10دسمبر کو مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا۔ احتجاج یقیناً ہوگیا لیکن پیپلزپارٹی ’’پاور شو‘‘ میں ناکام رہی۔ وہ اپنے کارکنوں کو مظاہروں میں لے آئی مگر عوام کو متحرک کرنے میں ناکام رہی۔ بدانتظامی تھی یا یہ وہم کے چونکہ مہنگائی نے ات اٹھارکھی ہے اس لئے عوام خودبخود چلے آئیں گے؟ ایک بات طے ہے وہ یہ کہ دو وقت کی روٹی کا حصول ایک عام شہری کے لئے مسئلہ بن چکا شہری بچوں کے لئے رزق اکٹھا کرے کہ احتجاج میں شریک ہو۔ بہرطور پھر بھی پیپلزپارٹی کو اپنے 10دسمبر کے احتجاج کے لئے بھرپور عوامی رابطہ مہم چلانی چاہیے تھی۔
10دسمبر کو ہی ملک بھر میں مختلف مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کی اپیل پر شدت پسندی کے خلاف یوم مذمت منایا گیا۔ نماز جمعہ کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے آئمہ جمعہ و جماعت نے "ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کسی بھی مرحلہ پر جوش کو ہوش پر غالب نہ آنے دیں۔ ہر قیمت پر قانون کی پاسداری کریں”۔
یقیناً قانون کی پاسداری بہت ضروری ہے اس سے انحراف کے نتائج کسی کے لئے بھی مثبت نہیں نکلیں گے۔ عدم برداشت اور جذباتی پن کی وجہ سے ماضی میں انگنت مواقع پر پورے پاکستانی سماج کو شرمندگی اٹھانا پڑی اس پر ستم یہ ہے کہ بعدازاں قانون کو ہاتھ میں لینے اور انسانیت کو شرم سار کرنے والوں کے خلاف اس طرح موثر اقدامات نہیں ہوئے جیسے اب سانحہ سیالکوٹ کے بعد اٹھائے جارہے ہیں
مثلاً ضلع قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن میں اجرت اور بقایا جات طلب کرنے پر ہونے والی تلخ کلامی کے بعد ایک مسیحی جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے کی چمنی میں زندہ جلادیا گیا تھا۔ چند واقعات اور بھی ہیں جو بعدازاں ذاتی عناد یا لین دین کے تنازع کی بدولت رونما ہونا ثابت ہوئے۔
اصل میں ہونا یہ چاہیے کہ معاشرے میں پروان چڑھتی شدت پسندی کو ختم کرنے سے قبل خود دینی طبقوں کو اپنی صفوں میں موجود شدت پسندوں کی خبر بھی لینی چاہیے۔ اور اس کی کسی بھی سطح پر حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے۔
بہت ادب سے عرض کروں جس ملک میں ایک مسلک کا شخص دوسرے ملک کی مسجد میں نماز نہ پڑھ سکتا ہو وہاں شدت پسندی کی مذمت کے لئے ایک کیا ایک ہزار یوم مذمت منالیجئے کچھ بھی فرق نہیں پڑنا۔
پچھلے دو تین دنوں میں ایک دو اچھے کام بھی ہوئے، سوشل میںڈیا پر وائرل نفرت انگیز ویڈیوز بنانے والے چند افراد کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں ان میں سے ایک نے ظاہری طور پر ٹیوشن سنٹر بنارکھا تھا اس کی آڑ میں معصوم بچوں کے ذہنوں میں شدت پسندی کا بارود بھررہا تھا۔ ایک تو باقاعدہ سرکاری سکول کی کلاس کے طلبا کے ذہنوں میں زہر گھول رہا تھا۔ اس ملک کے دین دار طبقات کے بڑوں کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا کہ اصلاح احوال کیسے ممکن ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ شدت پسندی نے راتوں رات جنم نہیں لیا عشروں کی محنت سے پھیلی پھلی ہے اب یہ راتوں رات ختم بھی نہیں ہوگی اس کے خاتمہ کے لئے دن رات محنت کرنا پڑے گی۔
ان دنوں پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے بعض قائدین اور مجاہدین آمنے سامنے ہیں۔ لاہور کے حلقہ این اے 133کے ضمنی الیکشن میں پی پی پی کو ملنے والے ووٹوں کے بارے میں (ن) لیگ کا دعویٰ ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے ملے۔
یہ الزام بھی لگایا گیا کہ پی پی پی نے ایک شدت پسند مذہبی تنظیم سے تعاون حاصل کیا۔ پیپلزپارٹی والے مذہبی تنظیم کے تعاون اور اس سے رابطوں کی تردید کررہے ہیں مگر صوبہ پنجاب میں ’’سچ‘‘ وہی ہوتا ہے جو (ن) لیگ کی طرف سے اچھالا جائے۔ شہباز شریف کی مخصوص ملاقاتوں پر کہا جاتا ہے کہ وہ تو ہمیشہ سے ’’درباری‘‘ ہیں۔ اصل قائد مریم نواز ہے۔
این اے 133 کے ضمنی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی کم شرح پر پیپلزپارٹی والے دعویٰ کررہے ہیں کہ (ن) لیگ نے 40ہزار شناختی کارڈ خریدے تاکہ ووٹ ڈالنے کی شرح کم رہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں جماعتیں ماضی کی اپنی سیاست کی طرف واپس جارہی ہیں ایسا ہوا تو (ن) لیگ کا پلڑا بھاری رہے گا کیونکہ پنجاب کا میڈیا اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ پروپیگنڈے کے محاذ پر پیپلزپارٹی اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ پی پی پی والے بھی یہ سمجھ نہیں پارہے کہ اب سیاست اخلاص اور کارکنوں کے بل بوتے پر نہیں میڈیا منیجری پر ہوتی ہے۔
(ن) لیگ کے حامی صحافی اینکرز و تجزیہ نگاروں کی ایک فوج ظفر موج ہے یہاں تک کہ جس صوبہ سندھ میں اس جماعت کا زمینی وجود ہی نہیں وہاں بھی میڈیا مجاہدین کی ایک بڑی تعداد اس کی ہمنوا ہے۔
بہرطور دونوں جماعتوں کے حامیوں میں تلخیاں بڑھ رہی ہیں ان میں مزید اضافہ (ن) لیگ کے ایک رہنما طلال چودھری کی اس تقریر سے ہوا جس میں انہوں نے بازاری زبان استعمال کرتے ہوئے 1988ء والے حافظ سلمان بٹ کی روح کو بھی شرمندہ کردیا جسے ایک عامیانہ تقریر کرنے پر جناب نوازشریف نے باقاعدہ دعوت پر گھر بلایا اور تحسین کی تھی۔
اب چلتے چلتے یہ بھی جان لیجئے کہ وفاقی حکومت نے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر نومبر اور دسمبر میں بجلی صارفین کی جیبوں سے کمال مہارت سے 115ارب روپے نکلوانے کی حکمت عملی اپنائی۔ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر صارفین کی کھال اتارنے والوں نے بین الاقوامی منڈی میں تیل سستا ہونے پر بجلی اور پٹرولیم کے صارفین کو ریلیف دینے میں ہمیشہ بخل سے کام لیا
جیسا کہ اب جبکہ تیل فی بیرل 60ڈالر کی سطح پر ہے لیکن وزیراعظم کہہ رہے ہیں پٹرول کی قیمتیں مزید بڑھانا پڑیں گی۔ مشیر خزانہ کے بقول آئی ایم ایف سے معاہدہ پر عمل ناگزیر ہے۔ ادھر پنجاب میں وزیراعلیٰ روزانہ بڑے اعلانات کرتے ہیں اب ترقیاتی پروگرام میں 85ارب روپے کا اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دو دن قبل وزیراعلیٰ اور وزراء کے لئے نئی گاڑیاں خریدنے کے لئے 24کروڑ روپے کی منظوری دی گئی مگر اسی صوبہ پنجاب کے بعض محکموں میں دو دو ماہ تنخواہیں اور پنشنیں نہیں ملتیں، شور مچائے جانے پر ایک ماہ کی تنخواہ اور پنشن دی جاتی ہے۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر