نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خانیوال کے ضمنی الیکشن اور پی پی پی||عامر حسینی

اس حلقے میں پی پی پی کے لیے جو پوٹینشل حمایت موجود ہے اس بارے کوئی ہوم ورک اس پارٹی کی نہ تو مرکزی تنظیم کے پاس تھا نہ جنوبی پنجاب کی تنظیم کے پاس کوئی پہلے سے ورکنگ موجود تھی -

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قومی حلقہ این 133 لاہور کے بعد اب لوگ سوال کررہے ہیں کہ صوبائی حلقہ پی پی 206 خانیوال میں پی پی پی کی کارکردگی کیا ہوگی؟
یہ سوال اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ
این اے 133 لاہور میں نہ تو پی ٹی آئی تھی اور نہ ہی تحریک لبیک لیکن صوبائی حلقہ پی پی 206 میں یہ دونوں جماعتیں موجود ہیں –
این اے 133 لاہور میں زیادہ تر وہ علاقے شامل ہیں جو پی پی پی /بھٹو نواز تاریخ رکھتے ہیں لیکن پی پی 206 خانیوال کا حلقہ اپنی انتخابی تاریخ کے حوالے سے اینٹی بھٹو کردار کا حامل رہا ہے خاص طور پہ خانیوال شہر کی پانچ یونین کونسلوں میں پی این اے کی باقیات کا زور آج بھی ہے –
70ء اور 77ء میں جو انتخابی نتائج ہیں اُن کے مطابق اس نشست پہ پی پی پی کی جیت کا بڑا سبب شہری پولنگ بوتھ سے کہیں زیادہ دیہی پولنگ بوتھ اور شہر کی کچی آبادیوں کی بھاری بھر کم حمایت سے ہوئی تھی
1988ء، 1990ء، 1993، اور 1997ءمیں یہ حلقہ پی پی 177 تھا اور ان چار انتخابات میں پی پی پی کے امیدوار ناکامی سے دوچار ہوئے-
آئی جے آئی/نواز لیگ کا 88ء سے 1997ء تک امیدوار صوبائی اسمبلی ڈاہا خاندان کا حاجی عرفان رہا اور اُس نے 88ء میں 30 ہزار ووٹ لیے جبکہ پی پی پی کے امیدوار رزاق خان نے 23 ہزار 3 سو 29 ووٹ لیے – 90ء میں آئی جے آئی کے ووٹ تھے 35 ہزار اور پی پی پی نے یہ الیکشن پی ڈی اے کے اتحاد پہ لڑا تھا تو ووٹ تھے پھر 23 ہزار 8 سو 44 یعنی باقی دو پارٹیوں کے ملنے سے اسے 5 سو ووٹ زائد مل گئے –
1993ء میں اب نواز لیگ تھی اور پی پی پی کا اتحاد جونیجو لیگ سے تھا نیشنل اسمبلی کا امیدوار جونیجولیگ سے پی پی پی میں شامل ہوا اور صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ فنکشنل میں شامل کگھہ گروپ کا نوجوان میاں مصعب پی پی پی کا امیدوار بنا جبکہ نواز لیگ کا وہی عرفان ڈاہا تھا – رزاق خان کو ٹکٹ نہ ملا اور وہ آزاد کھڑا ہوگیا اور پی پی پی کا ووٹر بھی تقسیم ہوا – عرفان ڈاہا /نواز لیگ کو 26 ہزار ووٹ ملے، پی پی پی کے معصب حیدر کو 19 ہزار ووٹ ملے، رزاق خان نیازی کو 10 ہزار ووٹ ملے، اس الیکشن میں نواز لیگ ڈاہا گروپ سے نشاط ڈاہا نے بغاوت کرکے الیکشن لڑا اور وہ بھی 7 ہزار ووٹ لے گئے – پی گویا اس الیکشن میں پی پی پی رزاق کی وجہ سے دس ہزار اور نواز لیگ نشاط کی وجہ سے 7 ہزار ووٹوں سے محروم ہوئی –
1997ء کے انتخاب میں نواز لیگ کے حاجی عرفان ڈاہا 34 ہزار ووٹ لیکر جیتے اُن کے مقابلے میں نشاط ڈاہا پی پی پی کی طرف سے 15 ہزار 500 ووٹ لے پائے
1988ء، 90ء اور 93ء تک کے انتخابات کے وقت پی پی پی خانیوال میں تنظیمی اعتبار سے وارڈ یونٹ تک موجود تھی اور اس کی سٹی و تحصیل تنظیم میں ورکرز کلاس غالب تھی لیکن جیسے ہی سردار اللہ یار ھراج 1993ء میں جونیجو لیگ سے پی پی پی کے اتحادی بنے تھے کو پی پی پی میں لایا گیا پی پی پی کی پوری تنظیم کی بنیادیں ہلنا شروع ہوگئیں پی پی پی کے بلدیاتی اور ووٹ پاوور رکھنے والے نمایاں کارکنوں کو اللہ یار ھراج اور نشاط خان نے ذاتی وفادار بناکر انھیں پارٹی سے بے گانہ کیا – جب 2002ء کے الیکشن میں ھراج و نشاط پارٹی چھوڑ گئے تو پی پی پی ضلع، تحصیل، سٹی کے اکثر عہدے دار، بلدیاتی کونسلر بھی پارٹی چھوڑ گئے اور یہ لوگ پی پی پی کی پہچان تھے – پی پی پی 2002ء میں انتخابی سیاست میں اس قدر نیچے آئی کہ 2006ء کے ضمنی الیکشن میں اسے محض 2600 ووٹ ملے لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس الیکشن میں پی پی پی کے کارکنوں اور عہدے داروں اور ووٹر کا ایک بڑا حصہ نشاط خان کے ساتھ تھا، 2008ء میں پی پی پی نے نشاط خان کو پارٹی ٹکٹ دیا حالانکہ پارٹی اگر اس سیٹ پہ کسی کارکن کو لیکر آتی تو اسے اس مرتبہ مخصوص حالات میں بہت ووٹ ملتے اور وہ اگر نہ بھی جیت پاتا تو پی پی پی کے بارے میں یہ تاثر زائل ہوتا کہ اس کا ووٹ اس حلقے میں ہے ہی نہیں –
2013ء میں پی پی پی نے یہ حلقہ ہی خالی چھوڑ دیا اور اُس کے ورکرز و ووٹر تقسیم ہوگئے ایک دھڑا ق لیگ کے رانا سلیم کو ووٹ دے گیا، ایک نشاط خان کو ایک دھڑے نے کسی کو ووٹ نہ دیا-
2018ء میں بھی سید یوسف رضا گیلانی کی بنائی پالیسی کے مطابق اس حلقے کو خالی چھوڑنے کا فیصلہ ہوا – اس دوران ضلعی تنظیم نے بھی پی پی پی کی طرف سے الیکشن لڑنے کی خواہش کا اظہار کرنے والے میر واثق سرجیس حیدر ترمذی کو ٹکٹ دینے کی مخالفت کی آخری وقتوں میں ٹکٹ اوکے کیا گیا اور یوسف رضا گیلانی ٹکٹ اوکے کرتے ہوئے بھی یہی کہہ رہے تھے کہ اس نشست پہ 1500 سے 2500 ووٹ ہی لے پاؤگے –
لیکن میر واثق پونے سات ہزار ووٹ لے گئے تھے – اور اس الیکشن کو لڑتے وقت ان کے ساتھ نہ ضلعی تنظیم تھی نہ تحصیل اور نہ سٹی کی تنطیم تھی اور مشکل سے 20 سے 30 دیرینہ جیالے سرگرم تھے –
نشاط ڈاہا کی وفات کے بعد پی پی پی کے اکثر مقامی تنظیمی عہدے دار اس نشست کو خالی چھوڑ دینے کے حق میں تھے اور جنوبی پنجاب کی قیادت بھی اس سے اتفاق کرتی نظر آتی تھی، میر واثق کے بڑے بیٹے کی 12 دسمبر کو شادی طے تھی اور پارٹی کی مقامی اور جنوبی پنجاب کے کئی ایک عہدے داروں کے رویوں سے بھی وہ نالاں تھے تو انہوں نے فائنل اجلاس میں الیکشن سے معذرت کی تو یہ آصف علی زرداری تھے جو اڑ گئے اور انہوں نے میر واثق کو الیکشن لڑنے کو کہا –
آصف علی زرداری نے میر واثق کو نہ صرف الیکشن لڑنے کو کہا بلکہ انھوں نے لاہور بلاول ہاؤس جنوبی پنجاب کی تنظیم، زیلی ونگز اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی(جنوبی پنجاب سے) کی ڈیوٹیاں اس حلقے کی 13 یونین کونسلوں میں لگادیں –
میر واثق یہ الیکشن ایک ایسے وقت میں لڑرہے ہیں جب ضلع، تحصیل اور سٹی کی تنظیم بالکل ڈیڈ ہے اور اُن کے عہدے داروں کا ووٹ میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے –
اس حلقے میں پی ایس ایف، پی وائی او کافی ڈیڈ ہیں، لیبر بیورو بھی کافی کمزور ہے – کسان ونگ نے پھر بھی اچھا ورک کیا ہے –
وارڈ اور یونین کونسل سطح پہ پی پی پی کا ایک بھی یونٹ نہیں ہے – یہ تنظیمی کمزوری اپنی جگہ کافی بڑا شگاف ہے لیکن اس مرتبہ پی پی پی کی مرکزی اور صوبائی قیادت اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی و ٹکٹ ہولڈرز کے حلقے میں داخل ہونے سے پی پی پی کا عام ورکر متحرک ہوگیا ہے – اس وقت 300 کے قریب پی پی پی کا کاڈر ورکر میدان میں ہے اور پی پی پی نے کئی ایک پرانے گھرانوں کو فعال کیا ہے اور اس کا بڑا کریڈٹ خانیوال کے اس حلقے میں پی پی پی ورکرز اتحاد گروپ کو جاتا ہے –
خانیوال شہر کے اندر کاغذی و ڈمی تنظیموں کاروائیوں سے ناراض اس ورکرز گروپ نے شہر کی چھے یونین کونسلوں میں سے اکثر میں پارٹی دفاتر کھولے ہیں –
پی پی پی کے امیدوار میر واثق ترمذی خود بھی بہت زیادہ متحرک ہیں اور انہوں نے ڈور ٹو ڈور رابطہ مہم کامیابی سے چلائی ہے – اس مرتبہ ان کی اپنی سادات برادری گزشتہ الیکشن کے برخلاف اُن کا ساتھ دے رہی ہے –
پی پی پی کو 1997ء تک اس حلقے میں شیعہ اکثریتی ووٹ کی حمایت حاصل رہی جو بعد ازاں پی ٹی آئی کو چلا گیا تھا اب وہ اس ووٹ کا خاصا بڑا شئیر واپس لے آئی ہے –
اس حلقے سے پاکستان عوامی تحریک اور مجلس وحدت المسلمین نے بھی پی پی پی کی حمایت کا اعلان کیا ہے –
پبلسٹی میں پورا حلقہ پی پی پی کے جھنڈوں اور بینرز سے سجا ہوا ہے – کمنی الیکشن ہے لیکن پی پی پی کی کارنر میٹنگ 2018 کے عام انتخابات سے زیادہ ہیں –
اگرچہ اس الیکشن سے پہلے حلقے سے پی پی پی کی بلدیات اور قومی و صوبائی اسمبلی میں عرصہ دراز سے دوری، تنظیم کی کمزوری، پی پی پی خانیوال اور اس کے جملہ ونگز کا کمزور سوشل میڈیا ورک اور مخالف پروپیگنڈا یہ تاثر مضبوط کرتا رہا کہ حلقہ پی پی 206 خانیوال میں پی پی پی اب قصہ پارینہ ہے لیکن 6 نومبر سے 7 دسمبر تک پی پی پی کی انتخابی کمپئن نے اس تاثر کو ختم کردیا ہے _
عام ووٹر بھی اب یہ مانتا ہے کہ پی پی پی میدان میں ہے اور رزلٹ گزشتہ الیکشن سے بہتر نکلے گا-
میر واثق ترمذی سمیت میں نے پی پی پی کے صوبائی قائدین اور مقامی عہدے داروں کے ساتھ اس حلقے کی 13 یونین کونسلوں اور ان کے متعدد محلوں اور گلیوں میں گیا ہوں اس دوران میں نے پی پی پی کے امیدوار اور عہدے داروں کو عوام کے رسپانس پہ حیرت زدہ دیکھا ہے –
اس حلقے میں پی پی پی کے لیے جو پوٹینشل حمایت موجود ہے اس بارے کوئی ہوم ورک اس پارٹی کی نہ تو مرکزی تنظیم کے پاس تھا نہ جنوبی پنجاب کی تنظیم کے پاس کوئی پہلے سے ورکنگ موجود تھی –
جب اس کے عہدے دار پہلے پہل اس حلقے میں آئے تو مایوسی ان کے چہروں پہ صاف دکھائی دیتی تھی لیکن پہلے ہفتے ہی میں مطلع صاف دکھائی دینے لگا اور اب بہت حد تک بہتر پوزیشن ہے جو تنظیمی فعالیت سے تو بہت آسمان پہ پہنچ جاتی –
اس وقت ایک طرف تو حکمران جماعت تحریک انصاف ہے جو دراصل کئی مقامی طاقتور گروپوں کا باہمی اتحاد ہے جن میں نمایاں گروپ احمد /حامد یار ھراج گروپ، مہر عمران پرویز دھول گروپ، نشاط ڈاہا گروپ اور کئی ایک برادریوں کے طاقتور دھڑے کی شخصیات شامل ہیں، نواز لیگ میں حاجی عرفان ڈاہا گروپ، پی ٹی آئی سے ٹوٹ کر نواز لیگ میں شمولیت کرنے والا رانا سلیم گروپ اور شہری و دیہی یونین کونسلوں میں بااثر برادریوں کے دھڑے شامل ہیں، نواز لیگ اور تحریک انصاف کے نام پہ دھڑے بندی اور گروہ بندی کی سیاست ہورہی ہے-
اور اگر پارٹی کی بنیاد پہ اور ایشوز پہ سیاست ہورہی ہے تو وہ پی پی پی کررہی ہے –
ابھی تک ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پی پی پی اس الیکشن میں اَپ سیٹ کرنے کی پوزیشن میں ہے لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں اس نے دونوں جماعتوں کے طاقتور روائتی دھڑے باز جاگیردار و سرمایہ دار سیاست دانوں کو یہ ضرور باور کرایا ہے کہ وہ ان کی سیاست میں کھنڈت ڈال سکتی اور آنے والے دنوں میں وہ انھیں ناک آؤٹ بھی کرسکتی ہے
یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author