مظہر اقبال کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحرائے تھل میں منعقد ہونے والی تین روزہ چھٹی جیب ریلی اور تھل میلہ اختتام پذیر ہو گیا۔ 195 کلو میٹر ٹریک پر ہونے والی ریس زین محمود نے جیت لی جنہوں نے یہ فاصلہ 2 گھنٹے 8 منٹ اور 13 سیکنڈ طے جبکہ سابقہ دو روایتی حریف صاحبزادہ سلطان اور نادر مگسی دوسرے اور تیسرے نمبر پر آئے۔ اختتامی تقریب فیصل اسٹیڈیم مظفر گڑھ میں ہوئی جس میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں میں انعامات تقسیم کیے گئے ڈسٹرکٹ لیہ کی تحصیل چوبارہ اس جیپ ریلی کا مڈ پوائنٹ ہے جہاں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے مختلف پروگرامز کا اہتمام کیا جاتا ہے جس محفل موسیقی، محفل مشاعرہ، کبڈی، نیزہ بازی وغیرہ اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف سرکاری محکموں اور اسکولز کی طرف سے سٹال بھی لگائے جاتے ہیں۔
محکمہ ٹورازم ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن پنجاب کے زیر اہتمام ڈسٹرکٹ لیہ اور مظفر گڑھ کے اشتراک سے ہر سال نومبر میں یہ تھل جیپ ریلی منعقد کی جاتی ہے جس میں ملک بھر سے نامور ریسرچر شرکت کرتے ہیں ریلی چوک سرور شہید کے نزدیک سے شروع اور ختم ہوتی ہے جبکہ چوبارہ اس کا مڈ پوائنٹ ہے جہاں پر ریلی کے شرکاء کا بھر پور استقبال کیا جاتا ہے۔
میلے ٹھیلے در حقیقت میل ملاپ اور محبتیں بانٹنے کا ایک بہانہ اور علاقائی کلچر و ثقافت کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں قدیم تہذیب کا آمین تھل، حکمرانوں کی بے اعتنائی کا شکار تو ضرور ہے مگر تھلوچڑوں کی اپنے کلچر سے جڑت ناقابل فراموش ہے یہی وجہ ہے تھل کے ہر شہر اور علاقے میں ہونے والے تاریخی میلوں میں لوگ بھر پور انداز سے شرکت کرتے ہیں۔ ان میں عنایت شاہ جس میں ”صحرا کے جہاز“ اونٹوں کی ملک کی سب سے بڑی منڈی لگتی ہے اور ملک بھر سے پیش بہا اونٹ یہاں لائے جاتے ہیں۔
اسی طرح میلہ نور پور تھل، میلہ چودھویں کروڑ لعل عیسن، میلہ نور شاہ طلائی کوٹ ادو اور گندم کی کٹائی سے پہلے ہونے والے بیساکھی کے میلے مقامی لوگوں کی بھر پور توجہ کا مرکز ہوتے ہیں لوگ نہ صرف ان میلوں میں بھر پور شرکت کرتے ہیں بلکہ براہ راست ان میلوں کا حصہ بھی ہوتے ہیں۔ جبکہ جیپ ریلی ایک مہنگا کھیل ہے جس میں امیر زادے کروڑوں روپے کی چمچماتی گاڑیوں پر بیٹھ کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں جبکہ غربت، مہنگائی، بھوک اور محرومیوں کا شکار تھل باسیوں کی حیثیت محض تماشائی کی ہوتی ہے کیونکہ تھل کے لوگ براہ راست اس کھیل کا حصہ نہیں بن پاتے اور ٹریک کے دونوں طرف محض تالیاں بجاتے رہ جاتے ہیں یہی وجہ ہے گزشتہ 6 سال سے ہونے والی جیپ ریلی میں آج بھی اجنبیت نظر آتی ہے اور اس اجنبیت کی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہر سال تھل جیپ ریلی کے موقع پر مظفر گڑھ اور لیہ میں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ہونے والی تقریبات خصوصاً محفل مشاعرہ اور محفل موسیقی میں تھل کے مقامی شعراء اور گلوکاروں کو دانستہ نظر انداز کیا جاتا ہے اس بار بھی ایسا ہی ہوا باہر سے لاکھوں روپے کے عوض شاعر اور گلوکار بلوائے گئے مگر مقامی لوگوں کو نظر انداز کیا گیا جس کے خلاف مقامی ادبی تنظیموں، شہریوں اور سماجی حلقوں نے شدید احتجاج کیا اور انتظامیہ کے اس اقدام کی مذمت کی۔
قابل غور پہلو یہ ہے کہ عوام کو تفریح فراہم کرنے اور تھل کے کلچر اور ثقافت کے فروغ کے نام پر ہونے والے اس ایونٹ کے لیے پنجاب حکومت کی طرف جاری ہونے والے فنڈ کی کوئی تفصیل نہیں مگر ڈسٹرکٹ انتظامیہ مختلف اداروں، غیر سر کاری تنظیموں، اور تاجروں سے فنڈ ریزنگ کرتی ہے اور کروڑوں روپے کے اخراجات سے یہ ایونٹ کرتی ہے لیکن اگر انتظامیہ سے دریا بردگی کا شکار لوگوں کی آباد کاری کی بات کی جائے تو انتظامیہ فنڈ نہ ہونے کا رونا روتی ہے اور پھر جب تھل کے کلچر اور ثقافت کو نمایاں کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہوں اور تھل کے کلچر اور ثقافت کے فروغ نام پر اتنا بڑا ایونٹ کیا جا رہا ہو مگر تھل کا انفراسٹرکچر زبوں حالی سے دوچار ہو تو آخر ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے جیپ ریلی کے مڈ پوائنٹ سے کچھ فاصلے پر ٹرکو، چوبارہ روڈ انتہائی خستہ حالی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لوگوں کی کئی بار نشاندہی اور مطالبے کے باوجود انتظامیہ کو اس کا احساس ہے اور نہ مقامی نمائندوں کو کوئی دلچسپی اسی طرح ایم ایم روڈ جسے اب عرف عام میں قاتل روڈ کہا جاتا ہے تھل کی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے وزیر اعلی سے وزیر اعظم تک اس کی حالت زار کی نشاندہی ہو چکی ہے اور متعدد بار حکام کی طرف سے اسے دو رویہ کرنے کا وعدہ ہو چکا ہے مگر آج بھی تھل کی بدحالی اور بے بسی کا نوحہ سنا رہا ہے جبکہ لیہ کروڑ روڈ بھی حکمرانوں کی بے حسی پر ماتم کناں ہے جبکہ دریائی کٹاؤ کی زد میں آنے والے کچے کے باسی حکمرانوں کی عیاشیوں پر حیران و ششدر ہیں۔
لیہ کے نوجوان آج بھی یونیورسٹی آف لیہ کو ڈھونڈ رہے ہیں جس کی تعمیر کا کام مسلم لیگ نواز کے دور میں شروع ہوا مگر ابھی تک کلاسز کا آغاز نہیں ہو سکا جبکہ بھکر اور مظفر گڑھ تو یونیورسٹی کے سب کیمپس سے بھی محروم ہیں ان اضلاع کے نوجوانوں کو تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے دیگر شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے جبکہ تھل میں کوئی بڑا صنعتی یونٹ اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر اپر پنجاب کراچی یا دیگر شہروں میں جانا پڑتا ہے اسی طرح پورے تھل میں اعلی معیار کا کوئی ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے لوگ صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ایمرجنسی کی صورت میں مریضوں کو ملتان نشتر یا لاہور فیصل آباد ریفر کیا جاتا ہے۔
ایسی صورتحال میں جب تھل کی سڑکیں حکمرانوں کی بے حسی کا شکار ہوں، تھل کے تعلیمی ادارے حکمرانوں کی عدم توجہی کا شکار ہوں، نشیب کے لوگ دریا بردگی کا شکار ہوں، تھل کے ہسپتال نا اہلی کا شکار ہوں، تھل کے لوگوں محرومیوں کا شکار ہوں تو ایسے میں تھل کو کروڑوں روپے خرچ کر کے جیپوں کی ریس کی نہیں ترقی کی ریس کی ضرورت ہے تھل کے آڑے ترچھے بل کھاتے ٹریک پر جیپ ریلی کی نہیں تھل کو ٹریک پر لانے کی ضرورت ہے یقیناً جب لوگ خوشحال ہوں، علاقے میں ترقی ہوں، روزگار ہو گا اور لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق مل رہے ہوں تو پھر ریلیاں بھی اچھی ہوتی ہیں اور میلے ٹھیلے بھی اچھے لگتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی