نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوال ہی تو ہیں بس قطار اندر قطار||حیدر جاوید سید

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر سندھ کا مقدمہ ایجنسیوں کے بنوائے جی ڈی اے کے سیکرٹری جنرل سے پیش کروانا تھا تو سعد رضوی کو بھی بلالیتے وہ بھی ملک کی چوتھی بڑی پارٹی کا سربراہ ہے اسے بھی تحریک لبیک کا مقدمہ پیش کرنے کی ’’سہولت‘‘ دی جاتی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاہور میں محترمہ عاصمہ جہانگیر کی صاحبزادیوں نے حسب دستور اپنی والدہ کی برسی کی مناسبت سے دو روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا، کانفرنس نے خوب رونق لگائی۔ علی احمد کرد کے ’’راگ ملہاری‘‘ نے سماں باندھا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کے جوابی خطاب میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ان پر سوشل میڈیا پر ہنگامہ نہیں ہنگامے برپا ہیں۔
ان ہنگاموں کے بیچوں بیچ ایک مبینہ آڈیو نے طوفان اٹھادیا۔ احمد نورانی (صحافی) نے یہ آڈیو مارکیٹ میں پھینکی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آڈیو کے درست ہونے کی تکنیکی تصدیق کروالی ہے۔ اس آڈیو کو لے کر نظام عدل پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوال اٹھانے والوں میں شامل ہمارے کچھ دوست، سیف الرحمن اور جسٹس قیوم ملک و جسٹس راشد عزیز والی آڈیو کو اس کے باوجود پیپلزپارٹی کی جعلسازی قرارد یتے تھے کہ اس وقت کی سپریم کورٹ نے آڈیو کی بنیاد پر لاہور ہائیکورٹ کے دونوں ججوں کو گھر بھیج دیا تھا۔
خیر سیاست میں چونکہ حرف آخر کوئی نہیں ہوتا اس لئے ایک وقت میں اسی سابق جسٹس قیوم ملک کو پیپلزپارٹی نے اٹارنی جنرل بنالیا۔ یاد پڑتا ہے کہ تب ہمارے جیالے دوست کہا کرتے تھے قیوم ملک نے خوشی سے کالک ملی تو شکوہ کیسا۔
بات دور نکل گئی واپس اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری کہتے ہیں کہ ’’سینئر ججوں کی تقریر کے بعد ایک مفرور (نوازشریف) کی تقریر عدلیہ کی توہین ہے‘‘۔
فقیر راحموں کہتے ہیں جب ستر ہزار سے زائد پاکستانیوں کی قاتل ٹی ٹی پی کے ترجمان احسان اللہ احسان کا اہتمام سے ٹی وی انٹرویو کرواکر مقتولین کے ورثا کے زخموں پر ریاست نے نمک پاشی کی تھی تو فواد چودھری کہاں تھے۔
نیز یہ کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے سزا ملنے کے بعد ان کے تین انٹرویو اہتمام سے ٹی وی چینلوں پر دیکھائے گئے تھے تو کیا وہ توہین عدالت نہ تھی؟
آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں یہ سوال خالص فقیر راحموں کا ہے اس لئے” گناہ ثواب کا بوجھ ” اس پر ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔

بات ہورہی تھی عاصمہ جہانگیر کانفرنس کی، اس میں علی احمد کرد کی تقریر پر داد کے ڈونگرے برسانے والے دوست سوال اٹھانے والوں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ سوال بہت سادہ ہے وہ یہ کہ کیا افتخار چودھری کی معزولی کے خلاف چلی تحریک خالصتاً آزاد عدلیہ کی تحریک تھی؟
سادہ لوح وکلاء اور سیاسی کارکنوں کا معاملہ الگ ہے انہوں نے اس تحریک کو خون بھی دیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ تحریک جنرل اشفاق پرویز کیانی اور امریکہ کا مشترکہ ایجنڈا تھا جبکہ اخراجات میں جناب نوازشریف کا تعاون شامل حال رہا۔
امریکہ کے کردار سے انکار کرنے والے دوست یاد کرلیں کہ میاں نوازشریف کا آزاد عدلیہ والا جلوس گوجرانوالہ پہنچا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی، صدر آصف علی زردازری اور وزیراعظم یوسف رضاگیلانی سے ٹیلیفون پر بات کی اور ججوں کی بحالی کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا۔
تب بھی ان سطور (کالموں) میں عرض کرتا رہا کہ امریکی کچھ اور مقاصد رکھتے ہیں۔ ہم اصل میں پچھلے تہتر چوہتر برسوں سے جس گھٹن، حبس اور طبقاتی جمہوریت کے ساتھ جرنیل گیری (مارشل لاوں) سے بنی فضا میں جی رہے ہیں اس ماحول میں بلند آوازوں کو بھی نجات کا گھڑیال بجنے جیسا سمجھ لیتے ہیں
جبکہ اب ضرورت یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر
” اَت اٹھانے” کی بجائے اولاً تو ہم ان فنکار ٹائپ انقلابیوں سے کہیں کہ وہ اپنے ماضی پر عوام سے معافی مانگیں ثانیاً یہ کہ عوامی جمہوریت کے قیام اور دستور کی بالادستی ہر دو اس امر کے متقاضی ہیں کہ محض چند افراد کو مجرم بناکر باقیوں کو محفوظ راستہ دینے کی پالیسی ترک کردی جائے
کیونکہ افراد یقیناً آگے قیادت کررہے ہوتے ہیں مگر ان کے پیچھے ان کے ادارے مکمل طور پر کھڑے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر چار مارشل لائوں (مشرف والے غیراعلانیہ سمیت) میں کوئی ایک شخص جس نے انہیں جمہوریت اور عوام کی توہین قرار دیتے ہوئے استعفیٰ دیا ہو؟ نظریہ ضرورت کے رقص کو کسی نے انصاف پر حملہ کہا ہو؟
اصولی طور پر 12اکتوبر 1999ء کے بعد جس جس نے پی سی او کے تحت حلف لیا تھا اس نے نظریہ ضرورت کو دستور پر ترجیح دی۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بہت ساری باتیں بھول جاتے ہیں یا پسندوناپسند کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان دنوں بڑے بڑے جغادری انصاف انصاف الاپ رہے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے جب ’’بریف کیسوں کی چمک‘‘ والی بات کی تھی تو یہ سارے ان کی جان کو آگئے تھے۔
چلیں کسی دن ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ ججز کی تعیناتی والے قانون میں ترمیم کے لئے افتخار چودھری کے ساتھ کون کون کھڑا تھا۔ 19ویں ترمیم نے پارلیمان کو ” خواجہ سرا ” بنادیا تب یہ ناچ ہی نہیں رہے تھے بلکہ یہ کہہ رہے تھے آزاد عدلیہ کا حق ادا ہوگیا۔
سیاسیات، تاریخ اور صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے نصف صدی آنکھوں کے سامنے ہے اس لئے گزشتہ شب عرض کیا تھا
’’میرے دوست ناراض ہوتے ہیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ پنجابی لبرل اشرافیہ اور پنجاب بیس میڈیا کے نزدیک سول سپر میسی اور جمہوریت صرف (ن) لیگ ہے۔ چھوٹے صوبوں یا یو کہہ لیجئے غیرپنجابی اقوام کے قائدین کے خلاف یہ سب اسی محاذ کے پشت بان ہوتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ بناتی ہے اور نظریہ ضرورت والے اسے چھتری فراہم کرتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ یہ محآذ آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کی سرپرستی میں بنتا ہے "۔
آج کا سوال یہ ہے کہ "کیا پنجاب سے تعلق رکھنے والے حکمران ریاستی طبقات کے خلاف اس لبرل اشرافیہ کی جنگ کا ایندھن غیرپنجابی اقوام کو بننا چاہیے یا ان قوتوں کے خلاف عوامی جمہوری جدوجہد کو منظم کرنا چاہیے‘‘۔
اس سوال پر چند دوست ناراض ہوئے اور تعصب کی پھبتی بھی کسی۔ کوئی بات نہیں جس صوبے میں 10سالہ معاہدہ جلاوطنی اور علاج کے لئے بیرون ملک روانگی کے ’’اہتمام‘‘ کو گلوریفائی کیا جاتا ہو اور پھانسی چڑھنے یا سڑک پر ماردیئے جانے کو ایسے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہو کہ ان سطور میں لکھے نہ جاسکتے ہوں وہاں سوال کا جواب دینے کی بجائے تعصب برتنے کا کہہ دینا حیران کن ہرگز نہیں۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ہمارے مرحوم بزرگ دوست رسول بخش پلیجو کے صاحبزادے ایاز لطیف پلیجو نے سندھ کا مقدمہ پیش کیا۔ کوئی بتلائے گا یا ہم ہی عرض کریں کہ 2018ء کے الیکشن سے قبل جی ڈی اے کی ازسرنو تشکیل کا اولین اجلاس حیدر آباد میں ایک ’’بڑے سرکاری افسر‘‘ کے ’’ہائوس‘‘ پر کیوں ہوا تھا اور اس میں ملک کی تین بڑی ایجنسیوں کے نمائندے کس حیثیت میں شریک تھے؟
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر سندھ کا مقدمہ ایجنسیوں کے بنوائے جی ڈی اے کے سیکرٹری جنرل سے پیش کروانا تھا تو سعد رضوی کو بھی بلالیتے وہ بھی ملک کی چوتھی بڑی پارٹی کا سربراہ ہے اسے بھی تحریک لبیک کا مقدمہ پیش کرنے کی ’’سہولت‘‘ دی جاتی۔
حرف آخر یہ ہے کہ سوال ضرور اٹھانے چاہئیں مگر اس سے قبل جنابِ نواز شریف سے ایک سوال پوچھ لیا جائے کہ وہ ان تین افراد کے نام کب قوم کو بتائیں گے جنہوں نے انہیں پانامہ پر پارلیمانی کمیشن بنانے کے مشوروں کو رد کرکے سپریم کورٹ جانے کا مشورہ دیا اور انہوں نے خط لکھ دیا پھر کیا ہوا ؟
وہی پانامہ میں گئے اور اقامہ میں سزا لے کر آگئے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author