میں بندوبستِ پنجاب کے اُس چھوٹی سی اقلیتی تجزیہ نگاروں کی ٹیم میں شُمار ہوتا ہوں جو نوے کی دہائی سے پاکستان کی "سول سوسائٹی ( لبرل پروفیشنل مڈل کلاس سیکشن) کی اکثریت کے اینٹی پی پی پی رجحان کو تباہ کُن قرار دیتا آیا ہے –
اس رجحان کے علمبردار نامور لبرل صحافی، میڈیا مالکان ، قانون دان اور انسانی حقوق کے رضاکار تھے اور ہیں اور ان میں سے اکثریت کا تعلق لاہور، اسلام آباد اور کراچی سے رہا ہے –
سول سوسائٹی کے اس رجحان کے علمبرداروں نے پی پی پی کے 1988ء کے اقتدار کے دوران اور 1990ء میں اس کے خاتمے پر اپنی رائے یہ مرتب کی کہ پی پی پی عوام کی نمائندگی کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ پی پی پی کی مرکزی لیڈرشپ کی "کرپشن” ہے جس میں سب سے بڑا قصوروار "آصف علی زرداری ہے –
ایک زمانہ تھا جب میاں محمد نواز شریف دائیں بازو کے میڈیا مالکان کی سرپرستی کرتا تھا اور ان کے ملازم صحافیوں، رپورٹروں اور کالم نگاروں پہ سرمایہ کاری کرتا – دائیں بازو کی جماعتوں سے وابستہ مولوی، پیر، سیاسی کارکن، ایڈوکیٹ، سماجی رہنما اُس کا شکار ہوا کرتے تھے – نوے کی دہائی میں جب اسحاق خان نے نواَز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اَس نے اسٹبلشمنٹ میں اپنی مخالف لابی کو جمہوریت دشمن قرار دیا اور اُسے پہلی بار اپنے آپ کو جمہوریت پسند سیاست دان کے طور پہ پیش کرنے کی ضرورت پیش آئی _
نواز شریف اپنے اس امیج کو برقرار رکھنے کے لیے بلوچستان، کے پی کے اور سندھ کے قوم پرست سیاست دانوں کو زیر دام لایا –
ولی خان، حاصل بزنجو، عطاء اللہ مینگل، رسول بخش پلیجو، محمود جان اچکزئی جیسے قوم پرست سیاست دانوں نے نواز شریف کی طرف سے اس پیش رفت کے اپنے معنی نکالے : نواز شریف پنجابیوں کا شیخ مجیب بنے گا اور وہ اپنی قوم کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام کو بھی نجات دلائے گا –
بائیں بازو کے چھوٹے چھوٹے گروپوں میں قومی محاذ آزادی (جو سندھ کی اردو اسپیکنگ کمیونٹی میں پاکتس رکھتا تھا اور پنجاب میں اس کی کئی ایک شہروں میں پاکٹس تھیں جن میں زیادہ تر وکیل، این جی او ملازمین، اساتذہ اور دیگر پروفیشنل تھے)، سوشلسٹ پارٹی، ورکرز پارٹی (بعد ازاں عوامی ورکرز پارٹی زیر قیادت عابد حسن منٹو) ان کے اندر بھی ایک بڑی تعداد نواز شریف کے صنعتکار ہونے کے پس منظر کو لیکر پی پی کے مقابل اُسے ترقی پسند بتانے لگی –
پی پی پی سے تعلق رکھنے والے کئی بڑے نام جو بے نظیر بھٹو سے نالاں تھے اور بظاہر اپنی ناراضگی کا سبب پی پی پی کی لیفٹ ازم سے دوری بتاتے تھے انہوں نے نومبر 1996ء میں فاروق لغاری کے ہاتھوں پی پی پی کی حکومت کے خاتمے کے وقت میر مرتضٰی بھٹو کے قتل کو لیکر غنوی بھٹو کی پارٹی جوائن کی اور ان میں ڈاکٹر مبشر حسن، ڈاکٹر غلام حسین جیسے پنجاب پی پی پی کے بڑے نام شامل تھے – ان سب کا زور پی پی پی کو ہر صورت دفن کرنا تھا-
نوے کی پوری دہائی پاکستان پیپلزپارٹی کے میڈیا، نیب اور عدالتی ٹرائل کی دہائی تھی جو نواز شریف کی حامی عدالتی، صحافتی اور انتظامی اسٹبلشمنٹ لابی کررہی تھی –
اس میں پاکستان کے بڑے شہروں کی لبرل سوسائٹی کے اشراف بھی شامل ہوگئے یا انہوں نے اس ٹرائل کے ٹھیک ہونے پہ یقین کرلیا-
نوے کی دہائی ہو یا جنرل مشرف کی آمریت کے آٹھ سال ہوں یا اُس کے بعد کا زمانہ ہو ان سارے ادوار میں انسانی حقوق کمیشن، لبرل این جی اوز نیٹ ورک، پی ایف یو جے کے دھڑے، وکلاء کے لبرل اشراف دھڑے ہوں، لبرل میڈیا مالکان ہوں یا لیفٹ کے چھوٹے موٹے گروپ سے تعلق رکھنے والے وکیل، صحافی، انسانی حقوق کے رضا کار ہوں یا سندھی، پشتون، بلوچ قوم پرستی کے زیر اثر لبرل سول سوسائٹی ہو یہ بظاہر تو ضیاء الحق کی باقیات اور آئین میں شامل اُس کی آٹھویں ترمیم سے پیدا اقلیتوں، کسانوں، مزارعوں ، عورتوں کے مسائل ہوں اور سماج میں پیدا ہونے والی بنیاد پرستی ہو کے خلاف اپنے آپ کو مزاحمت کے بڑے مراکز بناکر پیش کرتے رہے لیکن یہ 1988ء سے لیکر 1997ء تک اور پھر 2002 سے لیکر 2007ء تک مشرف دور میں اور پھر 2008ء سے لیکر 2013ء تک پی پی پی کے خلاف اسٹبلشمنٹ اور اس کے اتحادیوں کی مسلسل یلغار کے دوران پی پی پی کے ساتھ کبھی کھڑے نہ ہوئے – ان کو نہ تو بے نظیر بھٹو مظلوم لگتی تھی نہ 11 سالوں سے جیل میں بند آصف زرداری مظلوم لگتا تھا اور نہ ہی نواز شریف کے 1985ء سے لیکر 1999ء تک پنجاب میں اقتدار کے دنوں میں پی پی پی کے اوپر سے لیکر نیچے تک رہنماؤں اور کارکنوں کو سیاست سے آؤٹ کرنا جمہوریت کے لیے بہت بڑا خطرہ لگتا تھا – یہ لبرل سول سوسائٹی 1990ء، 1996ء میں پی پی پی کی حکومت کے خاتمے کے وقت سامنے نہیں آئی، اس نے بے نظیر بھٹو کو اسٹبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد میں تنہا چھوڑ دیا بلکہ ملک معراج خالد، ارشاد حقانی، جاوید جبار جیسوں کی نگران حکومت میں شمولیت پہ تالیاں بجائیں اور پی پی پی کی حکومتوں کو گرائے جانے اور ان کے خلاف شدید انتقامی کاروائیوں کو انہوں نے جائز ہی سمجھا-
مشرف کے پورے دور میں ان کا جھکاؤ نواز شریف کی طرف رہا اور شہید بے نظیر بھٹو کی اسٹبلشمنٹ کے خلاف حکمت عملی کو انھوں نے ڈیل اور سمجھوتہ کہا-
یہ لبرل اشراف سول سوسائٹی بہت زیادہ بے نقاب "وکلاء تحریک” کے دوران ہوئی –
اس لبرل سول سوسائٹی کی اشرافیہ نے جتنی اپوزیشن پی پی پی کے 2008ء سے 2013ء کے دور حکومت کی اس دوران اس لبرل سوسائٹی کی اشرافیہ پنجاب میں شہباز شریف کی پروجیکشن کرتی رہی اور یہاں تک کہ اس نے نواز شریف کے تکفیری اور جہادی لابی سے سمجھوتے بازیوں سے بھی صرف نظر کی – اس نے پی پی پی کے پانچ سالہ دور میں تحریک طالبان، لشکر جھنگوی، القاعدہ جیسی تنظیموں کی طرف سے شیعہ نسل کُشی، ہزارہ شیعہ نسل کُشی ، صوفی مسلمانوں، مسیحیوں، احمدیوں اور لبرل پہ ہوئے حملوں کی ذمہ داری پی پی پی پہ ڈال دی – سندھ اور بلوچستان میں مذھبی شدت پسندی، بلوچ قوم کی نسل کشی کے اصل ذمہ داروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی بجائے یہ پی پی پی کی حکومتوں کے خلاف کھڑے ہوئے اور انھیں اُس کے پیچھے اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ نظر نہیں آیا –
پی پی پی کے خلاف مذھبی شدت پسندوں کے اسلام آباد میں دھرنے کے وقت بھی اُن کو اس کے پیچھے اسٹبلشمنٹ نظر نہ آئی اور نہ ہی دہشت گرد رہا کرنے والے افتخار چودھری کی عدلیہ نظر آئی –
پی پی پی نے اپنی حکومت میں عدلیہ کے پی پی پی مخالف جوڈیشل ایکتوازم اور میڈیا اور سول سوسائٹی کے معاندانہ کردار کے خلاف کوئی جابرانہ قدم نہ اٹھایا نہ ہی کوئی قانون پاس کیا لیکن ان سب کو اس دور میں عدلیہ، صحافت اور سول سوسائٹی کی آزادیاں پی پی پی کی حکومت سے خطرے میں لگیں
لیکن جب نواز شریف کیانی و افتخار چودھری کی مدد سے 2014ء میں اقتدار میں آیا اور دھیرے دھیرے اسٹبلشمنٹ میں نواز شریف مخالف لابی طاقتور ہونا شروع ہوئی تب اسے نواز شریف کہیں موقعہ پرست نہیں لگا – یہ سول سوسائٹی، میڈیا اور وکلاء کی لبرل اشراف لابی پی پی پی کی نواز شریف سے مفاہمت کی سوچ کے پیچھے جمہوریت کے مفاد کا تصور کرنے سے قاصر رہی، اُس زمانے میں لبرل میڈیا پنجاب اور سندھ کے درمیان گورننس کا موازانہ کرتا اور پھر جرپشن و بدعنوانی کی ساری کہانیاں پی پی پی کے جلاف ہی شایع کرتا رہا اور عاصمہ جہانگیرسے لیکر رشید رضوی تک سارے کا سارا لبرل اشراف قانون دان برادری نواَز شریف کو چی گیورا اور لبرل ڈیموکریسی کا واحد چمپئن بتاتی رہی –
اس نے نواز حکومت کے دور میں میڈیا اور سوشل میڈیا، این جی اوَز پہ پابندیاں لگوانے والے کالے قوانین بنائے جانے اور اسٹبلشمنٹ کے آگے سرنگوں ہوتے رہنے کی پالیسی پہ پی پی پی کی تنقید کی کبھی حمایت نہیں کی – نواز شریف اُس وقت بھی ذاتی لڑائی لڑ رہا تھا اُس کے دور کی لنگڑی لولی جمہوریت بچانے کے لیے پی پی پی اور آصف علی زرداری کی پالیسی کو سراہنے کی بجائے یہ سول سوسائٹی نواز شریف کی ذاتی پروجیکشن کرنے اور پی پی پی کو سندھ تک محدود ہونے کے طعنے دے رہی تھی بالکل ویسے جیسے اسٹبلشمنٹ میں نواز لیگ کی مخالف لابی کے لاڈلے تحریک انصاف والے دے رہے تھے –
سول سوسائٹی کی لبرل اشرافیہ کی نواز لیگ نوازی کی پالیسی نے پنجاب سے پی پی پی کو ہی کمزور نہیں کیا بلکہ پنجاب میں رجعت پسندی، بنیاد پرستی، مذھبی انتہا پسندی، جاگیرداری، سرمایہ داری کے خلاف مزاحمت کی جو گراس روٹ لیول پہ سیاسی بنیاد تھی اُسے بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا –
پنجاب میں پی پی پی کا ووٹر، سپورٹر، سیاسی کارکن اور انسانی حقوق کے رضاکاروں کو کافی دیر سے سول سوسائٹی کی لبرل اشرافیہ کے دیوالیہ پن، موقعہ پرستی اور بے شرمی کا اندازہ ہوا لیکن اب پی پی پی میں نیچے سے اوپر تک سول سوسائٹی کی لبرل اشرافیہ کے ڈس کورس اور بیانیوں کے کھوکھلے پن سے آگاہی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے – اب تو شیری رحمان، فرحت اللہ بابر، ربانی جیسوں میں بھی ہمت نہیں ہے کہ وہ نجم سیٹھی، رضا رومی اور ان جیسے دیگر کو حقیقی لبرل خیالات کے چہرے بناکر پیش کرسکیں – پی پی پی کی مرکزی قیادت بھی اس جعلی اینٹی اسٹبلشمنٹ سول سوسائٹی کے موقعہ پرست کردار کو پہچان چکی ہے –
مجھے خوشی ہے کہ پی پی پی کا آفیشل سوشل میڈیا بھی اب نواز شریف اسٹبلشمنٹ بمقابلہ عمران خان اسٹبلشمنٹ یا اسٹبلشمنٹ بمقابلہ اسٹبلشمنٹ کی اصطلاحیں استعمال کررہا ہے اور یہ اصطلاح سب سے پہلے ہمارے اقلیتی تجزیہ گروپ نے لیٹ اَس بلڈ پاکستان ویب سائٹ، قلمکار ویب سائٹ، ایسٹرن ٹائمز ڈاٹ پی کے پہ استعمال ہونا شروع ہوئی تھی، اُس وقت نجم سیٹھی کا ٹولہ، حسین حقانی نیٹ ورک، میر شکیل کا ٹولہ بشمول حامد میر، سہیل وڑایچ، چیمہ، نورانی، اعزاز سید اور دیگر کو لوگ اینٹی اسٹبلشمنٹ ، آزادی صحافت کا چمپئن اور جمہوریت کے قلم کار سپاہی سمجھا جاتا تھا اور ہمارے بیانیہ کا خوب مذاق اڑایا جاتا اور کبھی کبھار ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے مہرے قرار دیا جاتا –
ہم آج بھی دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ پی پی، اے این پی، پی ٹی ایم، لیفٹ کے گروپ، بلوچ ترقی پسند قوم پرست، سندھی ترقی پسند قوم پرست ایک پیج پہ آکر اور بار و پریس کے حقیقی جمہوریت پسند مل کر اسٹبلشمنٹ کو شکست دے سکتے ہیں اگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہوکر چلیں –
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر